ملاح برادری کی قبروں کی بے حرمتی

استاد شیخ محمد ابراہیم ذوق نے شاید آج سے لگ بھگ ڈیڑھ سو برس پہلے اپنا یہ شہرۂ آفاق شعر ہمارے ہاں کے حالاتِ موجودہ کے تناظر میں کہہ رکھا ہے:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
آخر کس کس بات کا نوحہ لکھا جائے اور کسے نظرانداز کردیا جائے! وطنِ عزیز کے عوام مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی اور دیگر بے شمار مسائل اور مصائب کی بناء پر نیم جان ہوچکے ہیں، جبکہ مسلط کردہ حکمران طبقہ عوامی مسائل سے لاتعلق ہوکر اپنے لایعنی مشاغل میں مصروف ہے۔ اس نے بے حسی کی ردا کچھ اس انداز میں اوڑھ رکھی ہے کہ مظلوم اہلِ وطن کی آہ و فغان اس کے کانوں تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔ آج اہلِ وطن اوپر تحریر کردہ شعر کے مصداق اِس دنیا سے رُخصت ہونے کے بعد بھی چین اور سکون سے تہی دامن ہیں۔ آئے روز اس نوع کی الم ناک اور دردناک خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں کہ بعداز وفات بھی مرنے والے کی نعش کی بے حرمتی کردی گئی، یا مرحومہ خاتون کی لاش کو قبر سے نکال کر خبیث الفطرت اور ناہنجار افراد نے اس کے ساتھ زیادتی جیسی قبیح اور مکروہ گھنائونی حرکت کی۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی دل دہلا دینے والی خبریں سُن اور جان کر جی اِس دنیا سے یکسر اُچاٹ ہونے لگتا ہے، اور ہر حساس انسان بے اختیار یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ہم آخر کیسے ماحول اور معاشرے میں زندہ ہیں جہاں زندہ تو رہے ایک طرف، مرنے والوں کی عزت و آبرو بھی محفوظ نہیں ہے، اور ابدی سفر پر روانہ ہونے والے مرد و خواتین مرحومین تک کی نعشوں کی بدنہاد، ملعون اور گھٹیا فطرت رکھنے والے افراد بے حرمتی کرنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح صوبہ سندھ میں بھی اب اس نوع کے دل فگار اور ناگوار واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، جس پر جتنا بھی اظہارِ افسوس کیا جائے، کم ہے۔ انسان کو اللہ نے بطور اشرف المخلوقات کے پیدا کیا ہے، لیکن اب انسان ہی مرنے والے اپنے ہم جنس افراد کی تذلیل اور بے حرمتی کرنے میں کوئی شرم اور جھجھک محسوس نہیں کرتے، جو ہر لحاظ سے قابلِ مذمت اور مکروہ فعل ہے۔ کبھی تو مرنے والے کی لاش کو گھسیٹ کر تذلیل کرنے، اور کبھی لاش کو جلانے کی بھیانک اور الم ناک خبروں سے اپنی زندگی میں دل چسپی کم ہونا بھی فطری ہے۔ صرف ماضی قریب میں ایسے کئی واقعات ہوچکے ہیں جن کا تذکرہ اور المناک یادیں تاحال محو نہیں ہوپائی ہیں، اور اب ایسے سانحات میں آج کل مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے جس کی تازہ مثال ضلع ٹھٹہ کے علاقے غلام علی مورو میں پیش آنے والا قابلِ مذمت واقعہ ہے، جہاں کے مقامی قبرستان سے ایک لڑکی کی قبر کو کھود کر اُس کی نعش نکالنے کے بعد اُس کے ساتھ مکروہ فعل سرانجام دیا گیا۔ زندہ افراد سے تو زیادتی کے واقعات کا رونما ہونا ایک معمول بن چکا ہے، لیکن پستی کی انتہا یہ ہے کہ اب مرنے والوں کی نعشوں کو قبر سے نکال کر ان کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ اسی طرح سے گزشتہ دنوں غوث پور کندھ کوٹ میں ایک پڑھے لکھے تعلیم یافتہ پرائمری استاد حبیب اللہ سومرو نے اپنے مرحوم بھائی عبدالمجید سومرو کی قبر کو مقامی قبرستان جاکر جلادیا، جس کی بڑی مذمت کی گئی۔ زندگی میں تو اختلاف اور دشمنی اپنی جگہ، لیکن مرنے کے بعد بھی مرحوم کی قبر کو جلانا جہالت اور بدبختی کی انتہا ہے۔
ہفتۂ رفتہ ہی سندھ کے ضلع دادو کے علاقے سَن میں ایک ایسا الم ناک واقعہ مذکورہ حوالے سے پیش آیا ہے جس کی سندھ بھر میں نہ صرف سخت مذمت کی جارہی ہے بلکہ سانحے میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے، لیکن حکومتِ سندھ کے ذمہ داران اس سنگین ترین واقعے سے بھی حسبِ سابق نظریں چرائے بیٹھے ہیں۔ سَن وہ سرزمین ہے جہاں پر سندھ میں قوم پرستی کے سرخیل جی ایم سید مرحوم سمیت قوم پرستوں کی عقیدت اور محبت کا مرکز متعدد محترم ہستیاں مدفون ہیں۔ گزشتہ دنوں اسی سرزمین پر ایک ایسا دردناک سانحہ وقوع پذیر ہوا ہے جس نے ساری انسانیت کے سرشرم سے جھکا دیے ہیں، اور ہر مذہب، مسلک اور طبقۂ فکر سے وابستہ افراد نے مذکورہ مذموم فعل کی سخت ترین الفاظ میں نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اس پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ جی ایم سید مرحوم کے پوتے اور کچھ عرصہ پہلے وفات پانے والے مرحوم امیر حیدر شاہ کے فرزند امریکہ پلٹ ظفر علی شاہ نے سَن کے تاریخی قبرستان، جہاں جی ایم سید مرحوم کا مزار اور بہت سارے قوم پرست کارکنان کی آخری آرام گاہیں (قبریں) ہیں، اس کی عقبی جانب ملاح (ماہی گیر) برادری کی تاریخی قبریں بھی ہیں، جو جی ایم سید کی وفات سے بھی پہلے کی ہیں، ان قبروں میں سے 13 قبروں کو کھود کر ان کی لاشوں کی ہڈیوں اور کھوپڑیوں کو نکال کر اسی قبرستان میں ایک دوسری جگہ پر تدفین کردی۔ اس سانحے کے خلاف سندھ بھر کی ملاح برادری بلکہ ہر طبقۂ فکر سے وابستہ افراد سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، اور سانحے میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ آزاد سندھ یا سندھو دیش کے علَم برداروں کے لیے بھی یہ سانحہ ایک لمحہ فکر ہونا چاہیے، کیوں کہ اہلِ سندھ کی اکثریت نے مذکورہ سانحے پر حد درجہ ناگواری اور ناپسندیدگی کا برملا اظہار کیا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر بھی انسانیت کا سرشرم سے جھکا دینے والے اس سانحے کے خلاف شدید عوامی ردعمل اس امر کا واضح غماز ہے کہ جب بھی انسانی اقدار کے خلاف کوئی مذموم فعل سرانجام دیا جائے گا، اس کی ہر سطح پر مذمت اور اظہارِ نفرین کیا جائے گا۔