ٓٓٓٓآدمی کی اصل… قرآن سے جانتے ہیں
اسلام اور قرآن کے بارے میں مغرب میں ہماری نشوونما غلط تصورات پر ہوئی۔ میں نے بھی زندگی کا بیشتر زمانہ ان ہی گمراہ کُن تصورات کے ساتھ بسر کیا۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت کے لیے دو مثالیں پیش کروں گا، جو اس قسم کے تصورات کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
جب میں بڑا ہوا، مجھے پڑھایا گیا کہ Mohmet (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن کے مصنف ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ قرآن کے فرانسیسی تراجم میں یہی لکھا ہوتا تھا۔ مجھے بلاتفریق یہی بتایا گیا کہ قرآن Mohmet (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے مرتب کیا ہے، یہ ذرا سے فرق سے انجیل مقدس سے ماخوذ تاریخی واقعات ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ مصنف نے جس وقت اسلام کی بنیاد رکھی، قرآن کے کئی حصوں میں ترمیم و اضافہ بھی کیا۔ آج کے فرانس میں بھی بہت سے اسلامی اسکالرز کی یہی ذمے داری ہے کہ ان ہی گمراہ کن تصورات کی تعلیم دیں، ان ہی کی ترویج کریں۔ تاہم یہ کام اب زیادہ باریکی سے کیا جارہا ہے۔
قرآنی متن کے ماخذات پر یہ بیان جو حقیقت کو چھوکر بھی نہیں گزرا، شاید پھر بھی کسی کو اس قیاس تک لے جائے کہ انجیل مقدس کی مانند قرآن میں بھی غلطیاں توضرور ہوں گی! ان تعلیمی حالات میں اس قسم کا نتیجہ نکالنا عین فطری ہوگا، مگر یہ قطعی غلط تصور ہے۔
ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ بعثتِ محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) (610-632)کا زمانہ مشرق و مغرب میں کسی بھی سائنسی دریافت یا اکتشاف سے یکسر عاری ہے، اور یہ کہ انجیلِ مقدس سے قرآن کی آمد تک مغرب تاریک زمانوں میں بھٹک رہا تھا، کسی سائنسی سرگرمی کا کہیں گزر نہ تھا۔ مثال کے طور پر یہ زمانہ فرانس میں بادشاہ Dagobertکا دور تھا، یہ Merovingians سلسلے کا آخری حکمران تھا۔
قرآنی متن کے بارے میں اس قسم کا مفروضہ بظاہر منطقی معلوم ہوتا تھا، مگر جب کوئی اس متن کا بغور جائزہ لے، اس بارے میں کافی کچھ علم حاصل کرے اورغیر جانب دار علمی رویہ اپنائے تو اُس پر یہ بالکل واضح ہوجائے گا کہ قرآن کے بارے میں مغرب کا علمی رویہ حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ جب ہم قرآن کا متن پڑھتے ہیں تو اس بیان کی سچائی ایک لمحے میں دیکھ لیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کا بیان جدید علم سے مکمل مطابقت میں ہے، یہی وجہ ہے کہ عرب سائنس دانوں نے مختلف شعبوں میں وہ دریافتیں کیں، کہ جنہوں نے انہیں مفروضات سے مطابقت میں سہولت دی۔ مگراس اسلوب کو سائنس کی تاریخ میں کوئی جگہ نہ دی گئی۔ اسلامی تہذیب کے عظیم عہد میں، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، سائنس نے قابلِ قدر پیش رفت کی۔ بلاشبہ یہ پیش رفت آدمی سے قرآن کی گفتگوکے صدیوں بعد ممکن ہوئی۔ مزید یہ کہ سائنس کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انجیلِ مقدس سے نزولِ قرآن کے دوران ’آدمی کی اصل‘ پرکوئی دریافت یا اکتشاف نہیں ہوا۔ یہ حقیقت قرآن کے اُن تراجم میں کہیں مذکور نہیں جو ہم تک پہنچے ہیں، اور نہ ان کے کسی تعارف یا تفسیر میں ہی کہیں اس بات کا ذکر ملتا ہے۔ یہ ایک بہت قابلِ غور نکتہ ہے۔ مسلمان اور دراصل غیر مسلم کہ جنہوں نے قرآن کے فرانسیسی ترجمے کیے، یہ لوگ ادب سے متعلق تھے۔ اکثر یہ ہوا ہے کہ سائنسی علوم سے ناواقفیت کے سبب انہیں قرآن کے اصل معنوں تک رسائی نہ مل سکی۔ یوں درست ترجمے نہ کیے جاسکے۔ تاہم ترجمے کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ پہلے خود اصل تحریر کوسمجھا جائے۔ اس کے علاوہ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ مذکورہ مترجمین قدیم مفسرین سے متاثر رہے ہوں۔ روایت کے اس جبر نے انہیں پرانی ڈگر سے ہٹنے ہی نہ دیا۔ جبکہ یہ قدیم مفسرین اور ان کے عہد کے علما سائنس سے یکسر نابلد تھے۔
ان غلطیوں سے گریز کے لیے لازم ہے کہ سائنسی پس منظر نظر میں ہو، قرآن کا متن اصل زبان میں زیرمطالعہ ہو۔ یہ تب تک ممکن نہ ہوا، جب تک میں نے عربی زبان پرمکمل عبور حاصل نہ کرلیا، اور اسے عربی میں براہِ راست پڑھ نہ لیا، اور آیات کے بھرپور مفاہیم محسوس نہ کرلیے۔ اس کے بعد میں نے پورے یقین سے اہم دریافتیں کیں جوحیرت انگیز تھیں۔ جو کچھ اب تک تراجم میں زیرمطالعہ آیا تھا، سب اغلاط زدہ تھا۔ مجھے یقینی طور پر ایسے انکشافات کی کوئی توقع نہیں تھی جو مطالعۂ قرآن سے مجھ پر ظاہر ہوئے۔ ہر نئے اکتشاف کے ساتھ، میں اس شبہ میں بھی مبتلا ہوا کہ کہیں مجھ سے ہی سمجھنے میں کوئی تقصیر نہ ہوگئی ہو! یا شاید تشریح میں میں کسی مبالغے کا مرتکب ہوگیا ہوں!
مسلم اور غیر مسلم، دونوں ماہرینِ لسانیات اور ماہرینِ تفسیر سے مشاورت کے بعد ہی میں اس بات کا قائل ہوسکا کہ یہ نیا تصور شاید اس نئے مطالعے ہی سے متشکل ہوا ہے:
قرآن کے بیان اور جدید سائنس کے مستحکم ڈیٹا کے درمیان اُن موضوعات میں مطابقت، کہ جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دور میں کسی کے بھی علم میں نہیں آئے تھے، وہ موضوعات کہ جن پر ثابت شدہ ڈیٹا ہمیں آج حاصل ہوچکا ہے۔ اُس وقت سے مزید بغور مطالعے کے دوران، میں نے قرآن میں اپنے دور کی دیو مالائیت اور توہمات کی جھلک تک نہ دیکھی۔
یہ معاملہ انجیلِ مقدس کے ساتھ نہیں۔ اس کے مصنفین نے خودکو اپنے دور کی زبان میں ہی ظاہر کیا ہے۔ ’’قرآن، بائبل، اور سائنس‘‘(صاحب ِمضمون کی شہرۂ آفاق کتاب۔مترجم) جوپہلی بار فرانسیسی زبان میں 1976ء میں سامنے آئی، اور پھر 1978ء میں انگریزی میں شایع ہوئی،میں نے اپنی تحقیق کے مرکزی نکات پیش کیے۔9 نومبر 1976ء کو میں نے فرنچ اکیڈمی آف میڈیسن میں اس پر پہلا لیکچر دیا۔ اس لیکچر میں’ آدمی کی اصل‘ پرقرآن کے بیانات کا جائزہ پیش کیا: اس کا عنوان “Donnees physiologiques et embryologiques du Coran” [Physiological and Embryological Data in the Qur’an] تھا۔ لیکچر میں اس حقیقت پر زوردیا گیا کہ قرآن میں بیان کردہ ڈیٹا کے اہم نکات جن کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے، وہ اس موضوع پر وسیع مطالعے کا محض ایک حصہ ہیں: تخلیقِ کائنات کا تصور جو انجیل کے بیان سے مختلف اور آج کے اُن عام کلیوں کے مطابق ہے کہ جنہیں اس ضمن میں پیش کیا جاتا ہے، قرآن کا یہ بیان اجرام فلکی کی حرکیات اور ارتقا پر جدید تحقیق سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ خلا کی تسخیر، پانی کی فطری گردش اور زمین کی آبیاری کا نظام، کہ جو (نزولِ قرآن) کے بعد صدیوں تک سائنس کی دنیا میں نامعلوم تھا۔
جو کوئی بھی قرآن کے اس ڈیٹا تک سچی جستجو اور معروضی روح کے ساتھ رسائی حاصل کرے گا، حیران رہ جائے گا۔ مزید یہ کہ قرآن کا بیان جدید مطالعے اور تحقیق کی دشواریوں میں بھی وسیع ہمہ جہتی کی گنجائش مہیا کرتا ہے، اور مرکزی نکتہ بھی قائم رکھتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت سامنے رہنی چاہیے کہ سائنس کی مادی اصطلاحات میں قرآن کے بیان کی تشریح ایک چیلنج ہے۔ انسان کے موضوع پر، یا دیگر مذکورہ موضوعات پر، انجیل مقدس میں مماثل ڈیٹا ملنا ممکن نہیں۔ (باقی صفحہ 41 پر)
یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ قرآن کا متن ابتدا سے آج تک اپنی اصل اور مستند حالت میں موجود ہے۔ اگرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن کے مصنف ہوتے، اُن کے لیے یہ کیسے ممکن ہوتا کہ انجیل میں موجود غلطیوں سے آگاہی حاصل کرتے، اور مستند متن ہی اختیار کرتے، اور اسے معجزاتی درستی سے تشکیل بھی دے پاتے؟ یہاں یہ بات دہرانے کی ضرورت ہے کہ زمانۂ انجیل سے نزولِ قرآن تک کسی سائنسی سرگرمی، دریافت، یا اکتشاف کا سراغ نہیں ملتا۔ علمی متون کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو قرآن کی جمع وتدوین اوراسناد بے مثل نظر آتی ہیں۔
(جاری ہے)