ہماری نفسیاتی تحقیق ابھی ہمیں بہت دور تک لے کرنہیں گئی تھی، اور نہ ہی ہم خود اُس مرحلے تک پہنچ سکے تھے۔ یہ نفسیاتی ردعمل ابھی پہلے ہی مرحلے میں تھا۔ خودکشی کا خیال تقریباً ہر ذہن کی راہ دیکھ چکا تھا۔ یہ سوچ مایوس کن صورتِ حال سے ابھرتی تھی۔ موت کا خطرہ ہروقت ہمارے سر پر منڈلا رہا تھا، موت کی ایسی قربت بے طرح تھکا دیتی تھی! مگر میں نے کیمپ کی پہلی شام ہی خود سے پکا عہد کرلیا تھا کہ کسی صورت خاردار تاروں کی طرف نہیں بھاگوں گا۔ ’’خاردار تاروں کی طرف دوڑ لگادو‘‘، یہ وہ جملہ تھا جو کیمپ میں خودکشی کے لیے سب سے زیادہ بولا جاتا تھا، ان تاروں میں ہر وقت بجلی کی رو دوڑتی رہتی تھی، اور چھو جانے والے کو آناً فاناً زندگی سے آزاد کردیتی تھی۔ یہ فیصلہ میرے لیے بہت مشکل نہ تھا۔ خودکشی کا خیال کچھ زیادہ معنی خیز نہ تھا، حالانکہ ایک عام قیدی کے لیے زندگی کی امید اور زندہ بچ جانے کے امکانات نہ ہونے جیسے تھے۔ اُسے کسی بھی قسم کی امید نہیں دلائی جاسکتی تھی، کہ ایسی صورت حال میں کچھ نہ کچھ لوگ بچ ہی جاتے ہیں، شاید وہ بھی بچ جانے والا ’’ایک‘‘ ہو! آشوٹز کا قیدی صدمے کے پہلے مرحلے میں موت کے خیال سے لاتعلق سا ہوگیا تھا۔ یہاں تک کہ چند روز میں گیس چیمبر کا ڈر بھی ذہنوں سے محو ہوگیا تھا۔ بس لے دے کر خودکشی کا واحد خیال ہی باقی رہ گیا تھا۔
وہ دوست جن سے میری بعد میں ملاقاتیں ہوئیں، انہوں نے بتایا کہ میں اُن چند افراد میں سے ایک تھا جوآشوٹزمیں داخلے کے وقت اپنے حواسوں میں تھے۔ دیانت داری کی بات تو یہ ہے کہ آشوٹز کی پہلی رات کے بعد جب پہلی صبح ہوئی، میں مسکرا دیا تھا۔
اپنے اپنے بلاک تک محدود رہنے کی سخت ہدایات کے باوجود ہمارا ایک ساتھی جو چند ہفتوں پہلے ہی آشوٹز لایا گیا تھا، چپکے سے ہمارے ہٹ میں گھس آیا۔ وہ ہمیں تسلی دینا چاہتا تھا، اور چند ضروری باتیں بھی بتانا چاہتا تھا۔ وہ اس قدر دبلا ہوچکا تھا کہ پہلی نظر میں پہچانا ہی نہ گیا۔ بڑی خوش مزاجی کا مظاہرہ کررہا تھا وہ۔ اُس نے جلدی جلدی چند نکتے کی باتیں بتائیں: ’’ڈرنا نہیں! کسی انتخاب، کسی چناؤ سے مت گھبرانا! ڈاکٹرایم (ایس ایس میڈیکل چیف)کے دل میں ڈاکٹرز کے لیے نرم گوشہ ہے۔‘‘ (یہ بات غلط تھی، میرے مہربان دوست کے یہ الفاظ گمراہ کن تھے۔ ایک قیدی نے جو ایک بلاک کا ڈاکٹر تھا اور اُس کی عمر ساٹھ سال تھی، مجھے بتایا تھا کہ کس طرح اُس نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لیے ڈاکٹر ایم کی منتیں کی تھیں، مگر ڈاکٹرایم نے سردمہری سے اُس کی التجا ٹھکرادی تھی۔) ’’مگر ایک بات یاد رکھنا، تم لوگوں کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں… روز شیو کرنا! ہروقت تازہ دم نظر آنا! چاہے اس کے لیے تمہیں شیشے کے کسی ٹکڑے سے ہی کام لینا پڑے… چاہے اس کے لیے تمہیں روٹی کا آخری ٹکڑا ہی کیوں نہ دینا پڑجائے۔ سنا تم لوگوں نے! تمہیں نوجوان نظر آنا چاہیے اور تمہارے گالوں پر سرخی باقی رہنی چاہیے۔ اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو اس کا بس یہی ایک طریقہ ہے: کام کے لیے ٹھیک ٹھاک نظر آؤ۔ اگرتم ذرا بھی لنگڑا گئے، اور ایس ایس گارڈ نے یہ بات نوٹ کرلی، وہ تمہیں ایک طرف کردے گا، اور اگلے روز تم یقینی طورپر گیس چیمبر کی نذر کردیے جاؤ گے۔ تم جانتے ہو ہمارے ہاں ’مسلم‘ کا کیا مطلب ہے؟ ایک ایسا آدمی جو بدحال نظر آئے، بیمار نظر آئے، اور جو جسمانی محنت کے قابل نہ رہا ہو… وہ ہے ایک ’مسلم‘۔ جلد یا بدیر ہر ’مسلم‘ گیس چیمبر میں جھونک دیا جاتا ہے۔ لہٰذا، یاد رکھو: شیو کرنا ہے، چاق چوبند رہنا ہے، تب تمہیں گیس چیمبر سے پریشانی کی ضرورت نہ رہے گی۔ تم سب جو یہاں کھڑے ہو، چاہے تمہیں یہاں آئے چوبیس گھنٹے ہی کیوں نہ گزرے ہوں، تمہیں گیس چیمبر سے گھبرانے کی ضرورت نہیں‘‘۔ اور پھر اُس نے مجھ سے کہا: ’’مجھے امید ہے تم نے میری اس بے تکلفانہ گفتگو کا بُرا نہیں منایا ہوگا۔‘‘ اور میں مسکرادیا، میری جگہ کوئی بھی ہوتا اُس کے چہرے پرمسکراہٹ آہی جاتی۔
میرا خیال ہے وہ Lessing ہی تھا، جس نے ایک بار کہا تھا: ’’یہاں بہت سی چیزیں ہیں جو تم سے تمہارے جینے کی وجہ چھین لیتی ہیں اور پھرتمہارے پاس کھونے کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا‘‘۔ غیر معمولی صورت حال میں غیر معمولی ردعمل ایک ’معمول ‘کا رویہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم ماہرینِ نفسیات بھی غیر معمولی حالات میں ایک آدمی سے ایسے ہی رویّے کی توقع کرتے ہیں۔ اس قسم کی غیر معمولی صورت حال کا معمول کے انداز میں سامنا کرنا ہی واحد جائے پناہ ہے۔ کونسنٹریشن کیمپ میں کسی بھی قیدی کا داخلہ اُسے غیر معمولی ذہنی حالت تک لے جاتا تھا۔ لیکن اگر اسے معروضی طور پر دیکھا جائے تو یہ معمول کی بات تھی، جیسا کہ وقت گزرنے کے ساتھ بخوبی اندازہ ہوا، جب درپیش حالات میں انوکھے ردعمل سامنے آئے۔ یہ ردعمل جس کا میں ذکر کررہا ہوں، چند روز میں ہی نمایاں ہونے لگے تھے۔
جب قیدی پہلے مرحلے سے دوسرے مرحلے میں داخل ہوئے: یہ عجیب بے حسی کا مرحلہ تھا، جس میں ہر قیدی پرجذباتی موت واقع ہوئی۔
جن ردعمل کا ذکر پہلے ہوا، اُن کے علاوہ نئے آنے والے قیدیوں کا ایک ردعمل یہ بھی تھا کہ تکلیف دہ احساسات اور جذبات کے ہاتھوں کچلے جاتے تھے۔ وہ سارے احساسات کہ جنہیں وہ مار دینا چاہتے تھے، اُن کی سوچوں میں سر اٹھاتے تھے، اور وہ اپنے خاندان اور گھر کی تمنا میں تڑپ تڑپ جاتے تھے۔ بعض اوقات یہ کیفیت اس قدر شدید ہوجاتی تھی کہ جان لیوا لگنے لگتی تھی۔ پھر اُن میں ایک طرح کی نفرت بھر جاتی تھی، اردگرد کے سارے ماحول سے شدید نفرت!
(جاری ہے)