پاکستان میڈیکل کونسل کے خلاف طلبہ کا ملک گیر احتجاج
بحیثیتِ مجموعی پاکستان کا نظام تعلیم اس وقت بدترین صورت حال سے دوچار ہے۔ یہاں اگر کبھی اصلاحات کے نام سے شور اٹھتا بھی ہے تو اس کے پیچھے عموماً بیرونی ایجنڈا یا پھر مقامی مفاد پرستوں کا اپنا کھیل ہوتا ہے۔ یہی کھیل میڈیکل کے معصوم طلبہ کے ساتھ ”ایم ڈی کیٹ“ کے نام سے ہوا، جس میں صاف ایک منظم فراڈ اور کرپشن ظاہر ہورہی ہے۔ ماضی میں طلبہ کو انٹر میں اچھے نمبر ملتے تو یہ امید بندھ جاتی تھی کہ انٹری ٹیسٹ میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن نئے تجرباتی نظام نے وہ امید بھی ختم کردی۔ یہ انٹری ٹیسٹ ویسے بھی پورے نظام تعلیم پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نظام تعلیم کو درست کیا جاتا، لیکن یہاں ایسا نہیں ہے، اور پہلے سے زیادہ خرابی کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
اس وقت سوشل میڈیا پر طلبہ کے احتجاج کے مختلف ٹرینڈ چل رہے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے پی ایم سی کے اس امتحانی نظام کے خلاف ٹرینڈ سوشل میڈیا پر جاری ہیں۔ دوسری طرف داخلے کے خواہش مند طلبہ اور طالبات پورے ملک میں نئے تجرباتی نظام کے خلاف سڑکوں پر بھی سراپا احتجاج ہیں، اور اس احتجاج کے دوران وہ دارالحکومت اسلام آباد میں لاٹھی اور ڈنڈے کھا رہے ہیں، کیونکہ داخلے کے کسی خواہش مند طالب علم کے لیے ”ایم ڈی کیٹ“ میں کامیاب ہونا لازم ہے۔
اُن ماہرین کی رائے میں جو مخلصانہ سوچ کے ساتھ رائے دیتے ہیں، انٹری ٹیسٹ سسٹم پی ایم سی اور اکیڈمیز کی کمائی کے ناجائز ذریعے کے سوا کچھ نہیں ہے، یہ غریب اور حق دار طلبہ کی حق تلفی اور ان سے امتیازی سلوک ہے۔
میڈیکل کالج میں داخلے کے امتحان کے لیے تقریباً ایک لاکھ 75 ہزار طلبہ نے رجسٹریشن کروائی تھی، اور ہر اُمیدوار سے اس امتحان کے لیے 6030 روپے کی فیس وصول کی گئی تھی۔ اس امتحان میں پاکستان کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لیے 20 ہزار نشستیں مختص ہیں جن میں نجی کالج بھی شامل ہیں۔ ٹیسٹ لینے کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی ٹی ای پی ایس (TEPS) کو دیا گیا اور کمپنی کو حکومت کی طرف سے 115 ملین روپے بھی ایڈوانس میں دیے گئے۔ ان امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹھیکے کا اس کمپنی کو ملنا بھی اپنے اندر ایک بہت بڑی کرپشن ہے، اور یہ بات بھی اہم ہے کہ اس کمپنی کی رجسٹریشن ہی مقررہ تاریخ کے بعد ہوئی، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے یا پھر پوری دال ہی کالی ہے۔ ماضی میں میڈیکل میں داخلے کے لیے مخصوص فیصد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ ٹیسٹ دے سکتے تھے، لیکن اب صرف کمائی کے لیے انہوں نے C، Dکسی بھی گریڈ کے طلبہ کو ٹیسٹ دینے کی اجازت دی تاکہ اس سے مخصوص ادارے کی خوب کمائی ہوسکے۔اس وقت ملی بھگت کرکے طلبہ کا مستقبل تاریک کیا جارہا ہے، انٹری ٹیسٹ کا نام نہاد نظام طلبہ کو ہر سال ذہنی دباؤ کا شکار کرتا ہے۔
بی بی سی نے لکھا ہے کہ ان طلبہ اور طالبات سے جب معلوم کیا گیا تو اُنھوں نے مختلف ایسے نکات اٹھائے جس سے اس نظام کے بارے میں ابہام ضرور پیدا ہوجاتا ہے۔
پی ایم سی کے قیام سے قبل ہر صوبے کے اپنے کورسز اور اپنے بورڈ کے امتحان، اور کالجوں میں داخلے کے لیے ٹیسٹ ہوتے تھے، اور یہ ٹیسٹ اسی کورس سے آتے تھے۔ پی ایم سی کے قیام کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب تمام صوبوں کے طلبہ و طالبات کے لیے یکساں کورس ہوگا، اور اس کورس میں زیادہ تر حصہ وفاقی بورڈ اور پنجاب بورڈ سے لیا گیا ہے۔
اب یہ ان طلبہ کے لیے مشکل گھڑی تھی کہ امتحان کے لیے تیاری کیسے کی جائے؟ کون سی کتابیں پڑھی جائیں، کس سے رہنمائی حاصل کی جائے؟ اس کے لیے ان طلبہ نے آن لائن اکیڈمیز کو بھاری فیسیں دے کر رجسٹریشن کروائی تھی۔ آفتاب نواب نے بتایا کہ ”میں حیران تھا کہ یہ کیسے ہوا! میں نے جو کچھ پڑھا تھا وہ یاد کرکے گیا تھا، اور جو سوال آئے تھے وہ سارے مجھے آتے تھے، ایسے میں میرے جواب غلط کیسے ہوگئے؟“احتجاج کرنے والے طلبہ کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ انھیں وہ سوالات اور تمام جوابات فراہم کیے جائیں جو پی ایم سی اور یہ امتحان لینے والی کمپنی ٹی ای پی ایس کے مطابق درست ہیں۔ طلبہ کے بقول انھیں یہ جوابات فراہم نہیں کیے جارہے۔ احتجاج کرنے والے طلبہ و طالبات کو یہ بھی شکایت ہے کہ یکم ستمبر سے 30 ستمبر تک یہ امتحان ملک کے مختلف مراکز میں منعقد کیے گئے اور روزانہ ہر شہر میں دو ٹیسٹ یعنی صبح اور شام کے اوقات میں منعقد ہوتے تھے۔ واضح رہے کہ ماضی میں میڈیکل کا انٹری ٹیسٹ کسی بھی صوبے میں مختلف امتحانی مراکز کے ذریعے ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں لیا جاتا تھا۔ طالب علموں کا کہنا تھا کہ ایک ماہ تک مختلف اوقات میں پرچہ لینے سے نقل کے امکانات اور خدشات بڑھ گئے ہیں، کیونکہ بعض اوقات صبح کے پرچے میں چند سوالات شام کے پرچے میں بھی شامل ہوتے تھے۔
انٹرنیٹ کے مسائل کے ساتھ ساتھ طالب علموں کی جانب سے ٹیبلٹ کمپیوٹرز کے ”ہینگ“ ہونے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔ بعض طلبہ کے مطابق امتحان کے دوران اگر کسی طالب علم نے 50 سوال حل کردیے ہیں اور اس کا ٹیبلٹ کمپیوٹر ہینگ ہوگیا ہے تو بس پھر اُس کو ان 50 سوالات کے جوابات کے نمبر ہی ملیں گے۔ ان ٹیبلٹ کمپیوٹرز کے سافٹ ویئر پر تنقید کرتے ہوئے ان طالب علموں کا کہنا تھا کہ اس میں بھی چند نقائص تھے۔ مثلاً اگر کسی طالب علم نے پرچے میں شامل کُل 210 سوالات میں سے آخری 50 سوالات کو پہلے حل کرنے کا انتخاب کیا تو اس کے پاس باقی ماندہ سوالات کو حل کرنے لیے پرچے کے شروع میں واپس آنے کی سہولت دستیاب نہیں تھی۔ پشاور میں ایف ایس سی کے طالب علموں کو کیمسٹری پڑھانے والے استاد وقار بیگ کا کہنا تھا کہ انھیں ملنے والی معلومات کے مطابق طالب علموں کو مشق کے لیے جو پیپر دیے گئے تھے اُن میں بہت غلطیاں تھیں، اس کے علاوہ کورس زیادہ تر پنجاب بورڈ سے لیا گیا ہے۔ انھوں نے امتحان لینے کے لیے استعمال کیے گئے سافٹ ویئر میں ممکنہ نقائص کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایسی شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ صرف سافٹ ویئر کی خرابی کے باعث کئی امیدوار فیل ہوئے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی طالبہ کے والد شوکت صدیقی نے فرائیڈے اسپیشل کو بتایا کہ ان کی بیٹی نے ہمیشہ اچھے نمبر لیے، انٹر میں نتیجہ 90 فیصد سے زیادہ ہی رہا، اور یہ ٹیسٹ بھی بھرپور تیاری کے ساتھ دیا، لیکن جب نتیجہ آیا تو میری بیٹی کے نمبر129.3تھے جبکہ 137 سے زیادہ نمبر والے پاس قرار دیے گئے ہیں۔ ’اور اب یہ رزلٹ بھی ویب سے ہٹادیا گیا ہے۔ ایم ڈی کیٹ امتحان میں پی ایم سی کی حماقتوں اور انتظامی ناکامیوں کے خلاف پی ایم اے کے عہدیدار پروفیسر اشرف نظامی کا کہنا تھا کہ پی ایم سی نے کرپشن کا بازار گرم کررکھا ہے۔ بچوں کا مستقبل تباہ کیا جارہا ہے۔ ذہین اور ٹاپ کرنے والے بچے فیل ہوکر ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ طلبہ کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگایا جارہا ہے۔ ہم ایم ڈی کیٹ کے پرانے نظام کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایم ڈی کیٹ کا امتحان پہلے کی طرح یونیورسٹیاں لیں۔ اس حوالے سے پروفیسر شاہد ملک نے کہا کہ میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لیے نئے مشکوک نظام کا نفاذ پی ایم سی میں مبینہ کرپشن کی داستان کی تائید کرتا ہے۔ غیر قانونی کمپنی کو ٹھیکہ دے کر بچوں کا مستقبل تباہ کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان میں علیحدہ علیحدہ پری میڈیکل نصابِ تعلیم کے ساتھ تمام طلبہ کا ایک ہی ایم ڈی کیٹ دینا ناممکن ہے۔
اس صورت حال پر پی ایم سی کا کہنا ہے کہ ایم ڈی کیٹ کے لیے نصاب نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل اکیڈمک بورڈ نے تیار کیا تھا جس کا جائزہ تمام صوبائی بورڈز اور فیڈرل بورڈ کے نمائندوں سے کروایا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا کہ امیدواروں کو نہ تو ان کے سوالات اور جوابات کی کاپی فراہم کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان کو پرچہ دکھایا جا سکتا ہے، کیونکہ پیپر ڈیجیٹل فارمیٹ میں ہے اور اسی طرح جوابات بھی کمپیوٹر کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں۔
پی ایم سی کی ہٹ دھرمی اور اس پورے نظام کے خلاف میڈیکل کے طلبہ کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ پورے ملک میں احتجاج کررہی ہے، اور توقع ہے کہ اگر حکومت کی ہٹ دھرمی اسی طرح جاری رہی تو جمعیت کوئی بڑا اعلان بھی کرسکتی ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ایم ڈی کیٹ کے خلاف اسلامی جمعیت طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان نے گورنر ہاؤس جانے کی کوشش کی، تاہم پولیس کی بھاری نفری نے گورنر ہاؤس جانے والے راستے بند کردیے۔ اس دوران اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنان نے ناظم اعلیٰ حمزہ صدیقی کی قیادت میں گورنر ہاؤس کے قریب دھرنا بھی دیا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی سندھ اور بالخصوص کراچی کے میڈیکل کے طلبہ کے ساتھ میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے سلسلے میں پاکستان میڈیکل کونسل کے غلط فیصلوں اور تعلیم دشمن پالیسیوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے طلبہ کا تعلیمی نقصان ہورہا ہے، ایسے طلبہ جو امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کرتے ہیں وہ بھی اس ناقص نظام کی وجہ سے فیل ہورہے ہیں، پاکستان میڈیکل کونسل کے تحت ہونے والے ٹیسٹ میں طلبہ کو جوابات کی شیٹ تک نہیں دی گئی، جو پیپرز طلبہ کے لیے بنائے گئے ان میں پنجاب کا سلیبس تھا، اگر کونسل امتحانات منعقد نہیں کروا سکتی تو اسے طلبہ کے مستقبل سے کھیلنے کا کوئی حق نہیں، اس صورت حال میں وفاقی وصوبائی حکومت دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سندھ اور بالخصوص کراچی میں میڈیکل کے طلبہ کو ریلیف دینے کے لیے کوئی ایسا مربوط نظام بنایا جائے جس سے طلبہ بآسانی ٹیسٹ میں شرکت کرکے تمام مراحل مکمل کرسکیں(باقی صفحہ 41پر)
جماعت اسلامی طلبہ کے ساتھ ہے، طلبہ کے حقوق کے لیے ہر آئینی، قانونی اور جمہوری جدوجہد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے مطالبہ کیا ہے کہ پی ایم سی کو فوراً تحلیل کرکے پی ایم ڈی سی کو بحال کیا جائے، ایم ڈی کیٹ میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے شفافیت کے عمل کو یقینی بنایا جائے، این ایل ای کے امتحانات کو ختم کیا جائے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ایم ڈی کیٹ نظام سے کسی طالب علم کی تعلیمی قابلیت، ذہنی استعداد اور رجحانات کا اندازہ لگانا احمقانہ سوچ اور اپنے پورے تعلیمی نظام پر عدم اعتماد کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے پورے تعلیمی نظام کا معیار ٹھیک کیا جائے۔