بلوچستان،مصنوعی سیاسی بحران

بلوچستان کے اندر سیاسی بحران حقیقی کے بجائے پیدا کردہ ہے۔ اس ذیل میں نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جان محمد بلیدی، نائب صدر سابق سینیٹر میر کبیر محمد شہی نے درست نشاندہی کی ہے کہ بلوچستان حکومت میں اختلافات فنڈ کی بندر بانٹ پر ہیں، یہ بحران وزراء کا پیدا کردہ ہے۔‘‘ حالاں کہ موجودہ پی ایس ڈی پی میں بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے یہ وزراء خطیر رقم لے جاچکے ہیں۔ 172ارب روپے کے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں سے 60 ارب روپے کے منصوبے حکومتی ارکان کے حلقوں کے ہیں۔ ان میں 50 ارب روپے کے منصوبے صرف ’باپ‘ پارٹی کے ارکان کے حلقوں کے ہیں۔ اس کے باوجود یہ وزراء اور حکومتی ارکان ہل من مزید کی تکرار کیے ہوئے ہیں۔ شخصی منفعت کی غرض سے صوبے کو غیر یقینی حالات کی جانب دھکیلنے کی سعی کی گئی ہے۔ درحقیقت اس کشمکش سے صوبے کے عوام کو فائدہ ہے نہ وہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ عوا م امن، خوشحالی اور ترقی کے متمنی ہیں۔ انہیں روزگار اور معاشی خوشحالی سے سروکار ہے۔ جبکہ بدقسمتی سے عوام کی خواہشات کے برعکس ان پر مہرے مسلط کیے گئے ہیں، جن کی پوری مساعی اپنے تعیشاتِ زندگی میں اضافے اور صوبے کی دولت دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی ہے۔ دراصل وزیراعلیٰ جام کمال خان کے گرد ہالہ بنائے افراد کو بندر بانٹ کا کھل کر موقع نہیں ملا ہے۔2 اکتوبر کو ترک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کی نوید سنائی ہے، اور اس اہم مسئلے پر یقیناً جام کمال اور دوسرے سنجیدہ افراد کی خدمات بارآور ہوسکتی ہیں۔ اگر صوبے میں حکومت کی طنابیں ظرف سے عاری افراد کے ہاتھوں میں دی جاتی ہیں، تو پھر بلوچ شدت پسندوں سے بات چیت کی امید بھی عبث ہے۔ یہ ٹولہ چاہتا ہی نہیں کہ صوبے کے اندر امن و صلح کا سورج نمودارہو، بلکہ یہ اپنی سیاسی عاقبت بدامنی میں محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مفاہمت اور بات چیت کی کوششیں سبوتاژ کردی گئی ہیں۔ اس منش کے افراد اور ہیئتِ حاکمہ نے ایسا نہ چاہا۔ لگتا ہے جب وزیراعظم عمران خان نے 5 جولائی 2021ء کو پہلی بار گوادر میں بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے عزم کا اظہار کیا تو ان افراد میں بے چینی پھیل گئی، اور یہ صوبے میں سیاسی بحران کے ماحول کے لیے سرگرم ہوئے۔ انہیںصوبے کی ترقی، خوشحالی اور عمدہ مستقبل سے لینا دینا! بلوچستان میں امن قائم ہوگا تو بہت سوں کی جیبیں خالی ہوجائیں گی۔ کمانڈر 12کور لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی نے کوئلے پر سیکورٹی کے غیر قانونی ٹیکس پر پابندی عائد کردی تو اگلوں نے کوئلے کی صنعت سے وابستہ افراد کے لیے سیکورٹی کے نام پر دوسرے طریقوں سے مسائل بنانا شروع کردیے۔ حالات کی خرابی کا کہہ کر مزدوروں،ٹھیکیداروں اور کان مالکان کو جانے نہیں دیا جاتا۔ نتیجتاً کوئلہ کی صنعت ابتر ہوئی ہے، اس سے وابستہ افراد گوناگوں مسائل اور مشکلات سے دوچار ہوچکے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ صوبے پر مسلط مافیا ہر اُس مساعی کی راہ میں روڑے اٹکائے گا جس سے ان کا دھندہ بند ہونے کا احتمال پیدا ہوتا ہو۔ گویا موجودہ سیاسی بحران بھی ہمہ پہلو عوامل رکھتا ہے۔ ان افراد نے… جن کی قیادت تب نواب ثناء اللہ زہری کرتے تھے… ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ کابینہ اور اسمبلی اجلاسوں میں ان کی توہین کرتے۔ کبھی سی ایم ہائوس کا بائیکاٹ کیا جاتا، توکبھی اسمبلی اجلاسوں کا مقاطعہ ہوتا۔ بالآخر انہوں نے نواب زہری کو بھی ڈنگ مارا۔ نواب زہری کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ اس گروہ کا کسی طور ساتھ نہیں دیں گے… اور آئندہ کے لیے پیپلز پارٹی کو فیصلے کا اختیار دے دینے کی بات کرتے۔ جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی پچھلی حکومت میں بھی اس گندی سیاست میں ساتھ دے چکی ہیں۔ دو جماعتیں شعوری طور پر اور حواسِ خمسہ کے ساتھ اس چال میں شامل ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی بھی شامل تھی… امروز بی این پی عوامی کے اسد بلوچ گڑبڑ میں شریک ہیں۔
جام مخالفت میں اکٹھے باپ پارٹی کے لوگ کہتے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک متحدہ حزبِ اختلاف نے جمع کرائی ہے۔ حزبِ اختلاف کہتی ہے کہ یہ ان کی اندرونی چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ حزبِ اختلاف، جام مخالفین اور نادیدہ افراد کا اکٹھ ہے۔ گویا یہ سب کچھ کسی طور اصولی نہیں ہے۔ پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کو چاہیے کہ وہ اس گندی روایت سے علیحدہ ہو۔ یہ وہی لوگ ہیں… بشمول جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان عوامی پارٹی… جنہوں نے مذکورہ ٹولے اور مقتدرہ کے ساتھ مل کر ان کی حکومت گرائی۔ اگر پشتون خوا میپ الگ ہوتی ہے تو یقینی طور پر یہ اقدام تاریخ میں اچھے لفظوں میں یاد کیا جائے گا۔ ان ہی لوگوں نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جمہوری اقدار و روایات پراگندہ کی ہیں۔ بہتر ہوگا کہ جمعیت علمائے اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی اپنی جنگ اپنے زورِ بازو پر لڑیں،نہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کی آلہ کار بنیں۔خودسردار اختر مینگل ایسی ہی سیاست کا وار سہہ چکے ہیں۔ 1997 ء کی اسمبلی میں سردار اختر مینگل قائدِ ایوان منتخب ہوئے تھے، لیکن اٹھارہ ماہ حکومت کرنے کے بعد مستعفی ہونے پر مجبور کردیے گئے اور جان جمالی وزیراعلیٰ بنائے گئے تھے۔چناں چہ سردار اختر مینگل سے صوبے میں تخریب کی سیاست کے خاتمے کی توقع کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ مصالحت کاری کررہے ہیں۔ حالاں کہ وہ بھی اس قبیل کے نمائندے ہیں۔ سنجرانی صلح کرانے 4 اکتوبر کو کوئٹہ پہنچے اور مفاہمت کی غرض سے ملاقاتیں کیں، واپسی پر اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کو اپنے ہمراہ اسلام آ باد لے گئے۔ جہاز میں صلح کار نے قدوس بزنجو کا تعارف صوبے کے آئندہ کے وزیراعلیٰ کے طور پر کرایا۔ بات افشا ہوئی تو اسے مذاق قرار دیا۔ جام کمال پی ایس ڈی پی میں ان افراد اور باپ پارٹی کے غیر منتخب افراد پر پوری طرح عنایات کرچکے ہیں۔ جام کمال کی کارکردگی بھی نمایاں ہے۔ بڑے بڑے منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں۔کئی بڑے منصوبے رو بہ تکمیل ہیں۔ جام کمال نواز لیگ کی حکومت میں بھی نیک نام تھے۔ تب وہ وزیر مملکت برائے قدرتی گیس اورپیٹرولیم تھے۔ ستم بالائے ستم جن کے لیے خود پرسیاسی وفاداری تبدیل کرنے کا داغ لگا چکے ہیں،وہی انہیں بے عزت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جام ریکوڈک منصوبے کے ضمن میں صوبے کے مفاد کو اوّلیت دینے کی رائے کی پاداش میں ہدف بنے ہوں؟ الغرض حزبِ اختلاف استعمال ہوئی ہے۔ ان سے اسمبلی کے اندر تصادم کرایاگیا،پھر بجلی روڈ تھانے میں گرفتاری دے کر وہاں دھرنا کرایا گیا۔اس سب کا مقصد جام کے لیے مشکلات پیدا کرنا تھا۔اب ہونا یہ چاہیے کہ جام کمال خان کسی صورت استعفا نہ دیں۔بازی آخر تک لے جائیں تاکہ چہرے مزید نمایاں ہوں۔