عالمی ادارے، حقائق اور غیر جانب داری

اس وقت عالمی سیاست و معیشت کے حوالے سے ایک بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم دنیا کی مجموعی حالت کے بارے میں بین الاقوامی اداروں سے غیر جانب دارانہ معلومات فراہم کیے جانے کی امید رکھ سکتے ہیں؟ یہ بنیادی سوال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعے سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ یہ تنازع بعد میں دیگر ہمہ جہتی یا کثیر فریقی (عالمی) اداروں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جیارجئیوا پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہوں نے کاروبار کی موزونیت کے حوالے سے چین کا درجہ بلند کرنے کے لیے عالمی بینک کے عملے پر دباؤ ڈالا تھا۔ کرسٹالینا عالمی بینک میں ایک کلیدی عہدے پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ تب سے عالمی بینک نے ’’ڈوئنگ بزنس رپورٹ‘‘ کے زیر عنوان رپورٹ کی اشاعت روک دی ہے۔ برطانیہ کے معروف جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ نے کرسٹالینا سے کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی ساکھ بچانے کے لیے مستعفی ہوجائیں۔
کرسٹالینا نے اپنے ٹریک ریکارڈ کا دفاع کیا ہے۔ اس معاملے کی چھان بین کے سلسلے میں عالمی بینک کے عہدیداروں سے گفتگو کرنے والے نوبیل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات جوزف اسٹگلٹز نے کرسٹالینا پر عائد کیے جانے والے الزامات کو سازش یا جال قرار دیا ہے۔
میں اس پورے معاملے سے متعلق کچھ زیادہ تو نہیں جانتا، مگر ہاں میں نے کرسٹالینا کو انسان دوستی کے لیے اُس وقت سراہا تھا جب وہ یورپی یونین میں خدمات انجام دے رہی تھیں۔ میں نے 2016ء میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے منصب کی دوڑ میں حصہ لینے پر بھی بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی کرسٹالینا کو سراہا تھا۔ وہ حالیہ چند برسوں کے دوران ہمہ جہتی سفارت کاری کے حوالے سے تیزی سے ابھر کر سامنے آنے والی کلیدی شخصیات میں سے ہیں۔ اگر وہ اس مرحلے پر منظر سے غائب ہوئیں تو مجھے بہت افسوس ہوگا۔
کیا صحیح ہے اور کیا غلط، اس بحث سے قطعِ نظر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ بین الاقوامی اداروں کے لیے عمومی سطح پر ایک بنیادی چیلنج کی نشاندہی کرتا ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک عالمی معیشت کے حوالے سے جو بھی معلومات اور اعداد و شمار جاری کرتے ہیں اُن پر دنیا بھر میں بھروسا کیا جاتا ہے۔ سیاسی حوالے سے بھی ان معلومات اور اعداد و شمار کی اہمیت غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ اگر یہ اعتبار جاتا رہا تو ان دونوں اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
اقوامِ متحدہ کے پیش رَو ادارے لیگ آف نیشنز کے آغاز سے بین الاقوامی سول سرونٹس نے تجارت اور ہتھیاروں سے متعلق اعداد و شمار اور حقائق جمع کراکے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ معلومات اور اعداد و شمار اگرچہ خاصے بے جان اور بیزار کن دکھائی دیتے ہیں، مگر یہی معلومات اور اعداد و شمار بڑی اور چھوٹی قوتوں کو گفت و شنید کے لیے مشترکہ بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ 1921ء میں اعداد و شمار کے ایک فرانسیسی ماہر نے کہا تھا کہ لیگ آف نیشنز کے سامنے خواہ کوئی سوال یا تنازع لایا جائے، حقیقت یہ ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ جمع کیا جانے والا اور طے شدہ میکینزم کے تحت برتا جانے والا مواد (اعداد و شمار) ہی مذاکرات میں جان ڈالنے کے لیے لازم ہے، اور اِس مواد کی بنیاد پر کیے جانے والے فیصلے ہی معتبر ٹھیریں گے۔
ایک صدی کے دوران اعداد و شمار اور حقائق جمع کرنے کے کثیر جہتی میکینزم پروان چڑھے ہیں۔ لیگ آف نیشنز کے نقوشِ قدم پر چلتے ہوئے 1945ء کے بعد کی دنیا میں اقوام متحدہ نے اعداد و شمار اور حقائق ہی کو بین الاقوامی رجحانات کے اشاریے کے طور پر اپنایا۔ اقوام متحدہ ہی کی چھتری تلے دنیا بھر کے ممالک سے متعلق حقائق اور اعداد و شمار جمع کرنے کے فریم ورک اور طریق ہائے کار کو چند طے شدہ معیارات سے ہم آہنگ کرنا ممکن ہوسکا۔ یہ بہت بڑا کام ہے مگر کبھی اِسے سراہا نہیں گیا۔ بہت سے پالیسی میکرز اور سیاسی ماہرین و مبصرین بین الاقوامی اداروں کو غیر متعلق قرار دے کر مسترد تو کردیتے ہیں مگر اُن کا ترتیب دیا ہوا مواد (حقائق اور اعداد و شمار) بخوشی استعمال کرتے ہیں۔ ’’ڈوئنگ بزنس رپورٹ‘‘ سے متعلق تازہ ترین تنازع بہت اہم ہے کیونکہ کاروباری دنیا کے لوگ اور معاشی پالیسیاں تیار کرنے والے اس رپورٹ کے مندرجات کو پالیسی میں اصلاحات اور سرمایہ کاری سے متعلق فیصلوں میں بروئے کار لاتے رہے ہیں۔
اگر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی یا بین الاقوامی اداروں نے جمع کردہ حقائق اور اعداد و شمار کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا تو ان کے لیے غیر جانب دارانہ معلومات اور حقائق جمع کرنا انتہائی دشوار ہوجائے گا۔
ایک ایسے وقت میں جب کثیر جہتی سفارت کی مختلف شاخوں کو بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ اور کشیدگی کے باعث شدید مشکلات کا سامنا ہے، چند بین الاقوامی سول سرونٹس غیر جانب دار معلومات اور اعداد و شمار کو طاقت کا ایک پائیدار شعبہ تصور کرتے ہیں۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی جاری کردہ رپورٹ ’’اور کامن ایجنڈا‘‘ کے مرکزی خیال کا حصہ ہے۔ رپورٹ میں درج ہے کہ اقوام متحدہ کے کرداروں میں قابلِ اعتبار مواد اور شواہد کا فراہم کردہ بھی شامل ہے۔ اس رپورٹ میں حقائق اور اعداد و شمار جمع کرانے والے اقوام متحدہ کے تمام دفاتر اور ایجنسیز پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنی محنت کے نتائج کو مشترکہ میراث کے طور پر بروئے کار لائیں اور ایسی رپورٹس زیادہ سے زیادہ تعداد میں شائع کریں جن تک رسائی بالکل آسان ہو۔
اقوام متحدہ کے افسران کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا نے ایک عمدہ مثال پیش کی ہے کہ کس طور غیر جانب داری سے مرتب کیا ہوا مواد بہت اہم ہے۔ گزشتہ برس اس وبا کے بارے میں بہت سی گمراہ کن باتیں پھیلائی گئیں۔ تب اقوام متحدہ نے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مدد سے صحتِ عامہ کے بارے میں بالکل درست اور مستند معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ غیر جانب دار تجزیوں اور جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کوششوں سے کورونا وائرس کی وبا سے متعلق غلط بیانی اور گمراہ کن پروپیگنڈے کا زور توڑنے میں غیر معمولی مدد ملی۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ سے متعلق ایک رپورٹ میں انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے کہا کہ مناقشوں کی زد میں آئے ہوئے ممالک اور خطوں سے متعلق غلط بیانی کے اثرات زائل کرنے کے لیے ادارۂ اقوام متحدہ یہی تکنیک بروئے کار لاسکتا ہے۔
بین الاقوامی اداروں کے عہدیداروں کو ہر دور میں غیر معمولی دباؤ کا سامنا رہا ہے۔ حکومتیں چاہتی ہیں کہ متعلقہ مواد اُن کی مرضی کا ہو۔ معلومات اور تجزیوں کے ذریعے حکومتوں کو خوش کرنے کے حوالے سے دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے۔ سابق سوویت یونین کے چرنوبل جوہری سانحے سے متعلق ایک حالیہ کتاب میں بتایا گیا کہ کس طور سوویت یونین سے مناقشے اور تصادم سے بچنے اور کشیدگی ٹالنے کے لیے اس سانحے سے صحتِ عامہ کو لاحق خطرات اور نقصانات کو گھٹاکر پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے جو امید پرستانہ تجزیہ پیش کیا اُس کے باعث اس سانحے کے متاثرین کے لیے فنڈز جمع کرنے میں غیر معمولی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے اقوام متحدہ پر شدید دباؤ ڈالا ہے کہ اُس نے یمن میں جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اُس کا ذکر سالانہ ’’لسٹ آف شیم‘‘ میں نہ کیا جائے۔ یہ فہرست اُن ممالک کی ہے جہاں لڑائی میں بچے مارے جاتے ہیں۔
اس وقت چینی قیادت اقوام متحدہ کے بارے میں جس رویّے کی حامل ہے اُس سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بڑی طاقتوں کے تعلقات کس طور بین الاقوامی سطح پر معلومات جمع کرنے کے عمل پر اثرانداز ہورہے ہیں۔ میں نے 2018ء میں ورلڈ پالیٹکس ریویو کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب اقوام متحدہ اور دیگر کثیر جہتی تنظیموں میں شدید کشیدگی اور دباؤ پایا جاتا ہے، سفارت کار اپنا زیادہ وقت سچائی اور حقائق کے بارے میں بحث و تمحیص میں ضایع کررہے ہیں۔ تب مغرب اور روس کے سفارت کار شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق بین الاقوامی تفتیش کاروں کی ساکھ کے بارے میں مناقشے میں الجھے ہوئے تھے۔
ماضیِ قریب میں چین اور امریکہ کے درمیان کورونا وائرس کے مآخذ (ووہان) سے متعلق عالمی ادارۂ صحت کی تحقیقات کے حوالے سے بھی ٹھنی رہی ہے۔ امریکی حکام الزام لگاتے ہیں کہ چین نے عالمی ادارۂ صحت کو وہ مواد فراہم نہیں کیا جس کی اُسے ضرورت تھی۔ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں چین کے صدر شی جن پنگ نے کورونا وائرس سے متعلق تحقیقات پر سیاسی دباؤ سے خبردار کیا تھا۔
کیمیائی ہتھیاروں، وباؤں اور سرمایہ کاری کے حالات کا درست یا قریب ترین اندازہ لگانے کے لیے درکار مہارتوں اور شواہد میں بہت فرق ہوتا ہے۔ یہ تمام تنازعات گھوم پھر کر اِس بنیادی سوال کی طرف آتے ہیں کہ کیا اقوام متحدہ، عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی ادارے معلومات جمع کرنے سے متعلق اپنی سرگرمیوں میں غیر جانب داری کا عنصر نمایاں رکھتے ہیں؟ اور کیا عوام اور حکومتیں اُن کے فراہم کردہ حقائق اور اعداد و شمار پر بھروسا کرسکتے ہیں؟
ساکھ اور اعتبار برقرار رکھنے کے لیے لازم ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی بینک، آئی ایم ایف، عالمی ادارۂ صحت، عالمی ادارۂ محنت اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے سربراہ بنیادی معلومات اور اعداد و شمار جمع کرنے والی ٹیموں کو ہر طرح کے سیاسی دباؤ سے محفوظ رکھنے کا اہتمام کریں۔
سول سوسائٹی کی تنظیمیں کثیر جہتی تنظیموں اور حکومتوں پر گہری نظر رکھیں تاکہ وہ غیر جانب داری اور دیانت کے نزدیک رہیں۔ امریکہ کو غیر جانب دار بین الاقوامی رپورٹس کا احترام کرکے باقی دنیا کے لیے ایک اچھی مثال قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ جو رپورٹس واشنگٹن اور اُس کے اتحادیوں کو خوف زدہ کریں اُنہیں بھی قبول کرنا ہوگا۔
بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے لیے معلومات جمع کرنا خاصا تکنیکی، خشک اور بیزار کن کام ہے۔ یوں اِسے ایک بڑا چیلنج سمجھیں۔
(رچرڈ گووان انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ڈائریکٹر ہیں۔)
WPR
International Institutions Must Keep Politics Out of Their Data
Richard Gowan
Monday, Oct. 4, 2021