ایک نکتے نے مجھے محرم سے مجرم کردیا میں دعا لکھتا رہا اور دغا پڑھتے رہے
یہ روایتی اور زبان زد عام شعر جو ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیںگزشتہ دنوں مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ میں ہونے والی ایک تقریب کے حوالہ سے بار بار یاد آیا۔ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ فکری فورم نے اپنی ہفتہ وار نشست میں جو 2016ء سے ہر منگل کو باقاعدگی سے ہورہی ہے اس روز ممتاز صحافی، دانشور اور جرأت گروپ آف نیوز پیپرز کے ایڈیٹر انچیف جناب جمیل اطہر قاضی کی کتاب ”دیارِ مجدد سے داتا نگر تک “کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا تھا۔ تقریب کے مہتمم اور محرک مصنف کے دیرینہ دوست اور نیاز مند جناب سینیٹر سجاد بخاری تھے جو روزنامہ مساوات کے چیف ایڈیٹر کے طور پر اخباری مالکان کی تنظیم اے پی این ایس اور انجمن مدیران جرائد میں ایک عرصہ تک جناب جمیل اطہر قاضی کے ہم سفر اور ہم اکاب رہے ہیں۔ اسٹیج پر صدر تقریب پروفیسر شفیق جالندھری اور مصنف کتاب جناب جمیل اطہر قاضی کے علاوہ سینٹر سجاد بخاری، ڈاکٹر مجاہد منصوری، مدیر صحافت جناب خوشنود علی خان، کالم نگار حسین احمد پراچہ روزنامہ 92 اور 92 نیوز ٹی وی کے گروپ ایڈیٹر سید ارشاداحمد عارف، معروف کالم نگار جناب یوسف عرفان اور بشپ ڈاکٹر شہزاد روکی موجود تھے۔ جبکہ سامعین کے لیے ٹرسٹ آڈیٹوریم نہ صرف کھچا کھچ بھرا ہوا تھا بلکہ آڈیٹوریم کے باہر بھی اتنی ہی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ تقریب میں جہاں جناب جمیل اطہر قاضی نے اپنی ذاتی اور صحافتی سفر کی داستان دلچسپ انداز میں سنائی، وہیں مقررین نے جناب جمیل اطہر صاحب کے ذاتی اوصاف اور پیشہ ورانہ مہارت کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ تقریب کی اصل بات مقررین کی کہکشاں اور سامعین کی کثیر تعداد اور تقریب میں ہمہ تن گوش دلچسپی تو تھی ہی لیکن اگلے روز اخبارات میں اس کی کوریج نے بھی جناب جمیل اطہر اور جناب سجاد بخاری کو یک گونہ اطمینان دیا ہوگا۔ کوریج میں سب سے اہم چیز جناب خوشنود علی خان کا کالم تھا جو اسی روز اُن کی اخبار روزنامہ ’’صحافت‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ جس میں انہوں نے بار بار نام لے کر جناب جمیل اطہر کو خراج تحسین پیش کیا۔ اگرچہ اس کالم میں انہوں نے جناب جمیل اطہر قاضی کو ایک نکتے کے اضافے سے محرم سے مجرم تو نہیں بنایا لیکن ہر بار اُن کا نام جمیل اطہر لکھا۔ یقینا خوشنود علی خان نے اُن کا درست نام ہی لکھا ہوگا لیکن کمپوزنگ کی غلطی سے یہ ہر جگہ جمیل اطہر کے بجائے جمیل اظہر لکھا گیا اور کیونکہ اب اخبارات میں پروف ریڈنگ کا شعبہ ختم ہوچکا ہے۔ اس لیے یہ بڑی غلطی اسی طرح شائع ہوگئی جس سے پروف ریڈنگ کے شعبے کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک نامور ایڈیٹر جس کی کتاب کی تقریب رونمائی تھی نہ صرف اُن کا نام غلط چھپا بلکہ جس اخبار میں یہ فاش غلطی بار بار شائع ہوئی اس کے اپنے ایڈیٹر کی یہ تحریر تھی۔ یہ ایک نکتے کی غلطی صحافتی دنیا اور ادبی حلقوں میں عام ہے۔ اس طرح کی غلطیاں ماضی میں بھی ہوتی تھیں لیکن اب پروف ریڈنگ کا شعبہ ختم ہونے کے بعد ان میں بہت اضافہ ہوگیا ہے اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ لکھنے والے خواہ وہ کالم نگار ہوں یا ادیب اگر کمپوزنگ کے بعد خود اپنی تحریر کو نہیں پڑھیں گے تو یہ غلطیاں ہوتی رہیں گی جو اُن کی عزت میں اضافے کا باعث نہیں بن سکتیں۔ اب بھی جو کالم نگار اور ادیب و لکھاری اپنی تحریر کی خود پروف ریڈنگ کرتے ہیں اُن کے ہاں غلطیوں کا احتمال بہت کم رہ جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے اب لکھاری اور صحافی پروف ریڈنگ کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ چنانچہ نہ صرف وہ کمپوزر اور ٹائپسٹ حضرات کے Dependent اور محتاج ہوجاتے ہیں بلکہ اس عمل کے دوران اُن کی تحریر میں غلطیاں بڑھ جاتی ہیں جو قارئین کو انتہائی گراں گزرتی ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر پروف ریڈنگ کی بعض غلطیاں یاد ہیں جن پر اب بھی ہنسی آتی ہے۔ اور اکثر شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ ہمارے ایک دوست شہباز شیخ گورنمنٹ کالج اولڈ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل تھے۔ انہوں نے ایک خبر یابیان اخبارات میں بھجوایا۔ اگلے روز کے ایک بڑے اخبار میں اُن کا نام شہناز شیخ شائع ہوا۔ انہوں نے ایڈیٹر سے شکایت کی تو تصحیح شدہ خبر میں مزید بلنڈر ہوگیا جس میں ان کا نام شہباز مسیح شائع ہوا۔ جس کے بعد انہوں نے اس اخبار کو خبر بھیجنے سے توبہ کرلی۔ ایک بار ایک دین محمد دستگیر فوت ہوگئے۔ لیکن اُن کا نام دین محمد دہشت گرد شائع ہوا اور ان کے متعلقین کے ساتھ بھی دہشت گردی کا لاحقہ شائع ہوا۔ تو اس طرح کی املا کی غلطیاں اخبارات و رسائل اور کتب میں ہوتی رہتی ہیں جس کی وجہ پروف ریڈنگ کے شعبےکی اہمیت کو نظرانداز کرنا ہے۔