پالک کے استعمال سے سرطان میں کمی ممکن

آنتوں کا سرطان تیزی سے پھیل رہا ہے اور امریکہ میں چوتھا عام کینسر ہے، اور موت والے کینسر میں تو دوسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ تاہم پالک کھانے سے اس کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل آنتوں کے سرطان اور ہرے پتے والی سبزیوں کے باہمی تعلق پر بہت غور ہوچکا ہے۔ بعض افراد کے مطابق سبزیوں کا باقاعدہ استعمال آنتوں کے سرطان کا خطرہ کم کرتے ہوئے اسے نصف کرسکتا ہے، کیونکہ اس میں ریشہ (فائبر) اور دیگر اجزا موجود ہوتے ہیں۔ اب گٹ مائیکروبس نامی جرنل میں شائع ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پالک، جین، آنتوں کی صحت اور کینسر کے درمیان ایک تعلق پایا جاتا ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے ایک موروثی کیفیت کا جائزہ لیا جسے ’فیمیلیئل ایڈینومیٹس پولی پوسِس‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کیفیت والدین سے بچوں تک آتی ہے اور نوجوانوں میں غیر سرطانی رسولیوں کی وجہ بنتی ہے، جنہیں آنتوں کے ابھار یا پولِپس کہا جاتا ہے۔ اس مرض کے شکار افراد کی آنتوں میں بار بار گومڑیاں بنتی رہتی ہیں جنہیں سرجری سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ اس طرح چھوٹی آنت کے ابتدائی حصے ڈیوڈینم میں انہیں روکنے کے لیے ایک تھراپی کی جاتی ہے جو ایک زہریلا طریقہ علاج بھی ہے۔اس ضمن میں ’فیمیلیئل ایڈینومیٹس پولی پوسِس‘ کے شکار جانوروں پر پالک کو آزمایا گیا۔ برف میں جما پالک ان جانوروں کو 26 ہفتے تک کھلایا گیا تو آنتوں میں رسولیاں بننے کے عمل میں غیرمعمولی کمی دیکھنے میں آئی جو بڑی اور چھوٹی آنت میں موجود تھیں۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ پالک سے آنتوں کے بیکٹیریا کے تنوع (ڈائیورسٹی) میں اضافہ ہوا، یعنی مددگار خردنامیوں کی تعداد بڑھی اور پھر ان کے جینیاتی اظہار (ایکسپریشن) میں بھی تبدیلی ہوئی جس سے کینسر کو روکنے میں مدد ملی۔ اسی طرح پالک کھانے سے جانوروں میں اندرونی سوزش (انفلیمیشن) بھی کم ہوئی۔ماہرین کا خیال ہے کہ پالک کھانے سے اُن لوگوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے جو ’ فیمیلیئل ایڈینومیٹس پولی پوسِس‘ کے شکار نہیں۔ پالک کھانے سے آنتوں میں مفید بیکٹیریا بڑھتے ہیں جو سرطان کو روکتے ہیں اور ہر خاص و عام پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔