پنڈورا پیپرز اور سوالات

دنیا بھر میں ایک ڈھنڈورا پٹ رہا ہے۔ پیراڈائز اور پناما لیکس کے ہنگامے کے بعد اب ’’پنڈورا پیپرز‘‘ کے نام سے ایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا گیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس باکس میں نوّے سے زائد ممالک کی 29000 آف شور کمپنیوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ اس باکس کے کھلنے کے بعد بہت سی پاکستانی اور بین الاقوامی شخصیات کے نام پردہ نشینوں کے طور پر گونجتے سنائی دے رہے ہیں، جن میں 130 ارب پتی بھی شامل ہیں۔ ان اعزاز یافتگان میں پاکستانیوں کی تعداد سات سو بتائی گئی ہے، جن میں وفاقی و صوبائی کابینائوں کے ارکان، پیپلز پارٹی، نواز لیگ، ق لیگ سمیت اکثر سیاسی جماعتوں کے رہنما، ملک کے تقریباً تمام بااختیار اداروں کے موجودہ اور سابق وابستگان، اور معاشرے کے مختلف مؤثر طبقات سے تعلق رکھنے والے اہلِ ثروت شامل ہیں۔ گویا الاماشاء اللہ اس حمام میں سب ہی ننگے دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جب سے یہ نیا پنڈورا باکس کھلا ہے، اس میں ننگے کیے جانے والے تمام نامی گرامی حضرات ذرائع ابلاغ کے ذریعے مسلسل صفائیاں پیش کرنے میں مصروف ہیں، اور سب ہی کے پاس نہایت معقول دلائل اور جواز اپنی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر موجود ہیں، تاہم کرپشن کے جانی دشمن ہمارے وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر نعرۂ مستانہ بلند کیا ہے کہ ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ ان کا مؤقف ہے کہ قوم کی دولت ملک سے باہر لے جانے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ چنانچہ انہوں نے قوم کے ان سب مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے عزمِ صمیم کے ساتھ اپنی سربراہی میں ’’تین رکنی خصوصی تحقیقاتی سیل‘‘ قائم کردیا ہے، اس کے ساتھ ہی قوم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ تمام حقائق اس کے سامنے لائے جائیں گے۔ ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر اور دیگر تمام متعلقہ ادارے اس خصوصی تحقیقاتی سیل کی معاونت کریں گے۔ وزیراعظم کا یہ اقدام بظاہر بہت خوش آئند ہے، مگر جہاں تک عوام کا معاملہ ہے اُن کی کیفیت اس شعر کے مصداق ہے ؎
ترے وعدے پہ جیے تو یہ جان جھوٹ جانا
خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
عوام کی یہ کیفیت بلا سبب نہیں، جناب عمران خان کے گزشتہ برسوں کے بیانات، اعلانات، وعدے اور ارادے، اور پھر ان سب کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔ ابھی چند برس قبل ’’پنڈورا پیپرز‘‘ ہی کی طرز پر ’’پناما پیپرز‘‘ سامنے آئے تھے تو ان میں بھی کم و بیش چار سو چالیس پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا تھا، جس پر پورے ملک میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا، جماعت اسلامی پاکستان کے امیر محترم سراج الحق نے ان سب لوگوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کے لیے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کیا تھا، جہاں کارروائی کا آغاز ہوا۔ جناب عمران خان نے بھی وزیراعظم بننے سے پہلے اور وزیراعظم بننے کے بعد ملک و قوم کے ان مجرموں کے خلاف کارروائی کے بار بار مطالبات اور اعلانات کیے، مگر عملاً کیا ہوا کہ اُس وقت کے وزیراعظم کو اُن کے عہدے سے سبک دوشی کی سزا سنائے جانے کے بعد عدالتِ عظمیٰ میں باقی ملزمان کے خلاف کارروائی طاقِ نسیاں کی زینت بن گئی۔ جناب سراج الحق متعدد بار عدالت میں اس کارروائی کو آگے بڑھانے کی درخواستیں دے چکے ہیں تاکہ ’’پناما پیپرز‘‘ کے ان 440 ملزمان کے مستقبل کا فیصلہ ہوسکے، مگر آج تک شنوائی نہیں ہوسکی۔ عمران خان صاحب کو بھی وزیراعظم کا منصب سنبھالے چوتھا سال ہے، مجال ہے کسی ایک بھی مجرم کو سزا ملی ہو۔ جہاں تک پنڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لیے خصوصی سیل کے قیام کا تعلق ہے تو کیا جناب وزیراعظم بتانا پسند فرمائیں گے کہ انہوں نے گزشتہ تین برس کے دوران چینی، آٹا، ادویہ، پیٹرول اور نہ جانے کن کن مافیاز کے خلاف کارروائی کے لیے جو کمیٹیاں اور کمیشن بنائے تھے ان کی اب تک کی کارکردگی کیا ہے؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب ’’پنڈورا پیپرز‘‘ سے برآمد ہونے والے اہم وزرائے کرام اور اعلیٰ حکام اپنے مناصب پر براجمان ہوں گے تو ان کے ماتحت اداروں کا کون سا افسر یا اہلکار ان کے خلاف شفاف اور مبنی برانصاف تحقیق و تفتیش کی جرأت کرسکے گا؟
(حامد ریاض ڈوگر)