اسلام میں ہمسائیگی کا تصور

قرآن کی رو سے ہمسایوں کی تین قسمیں ہیں: ایک رشتے دار ہمسایہ، دوسرا اجنبی ہمسایہ، تیسرا وہ عارضی ہمسایہ جس کے پاس بیٹھنے یا ساتھ چلنے کا آدمی کو اتفاق ہو۔ یہ سب اسلامی احکام کی رو سے رفاقت، ہمدردی اور نیک سلوک کے مستحق ہیں۔ نبیؐ فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے ہمسائے کے حقوق کی اتنی تاکید کی گئی ہے کہ میں خیال کرنے لگا کہ شاید اب اسے وراثت میں حصے دار بنادیا جائے گا‘‘۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ شخص مومن نہیں ہے جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ: ’’وہ شخص ایمان نہیں رکھتا جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھوکا رہ جائے‘‘۔ ایک مرتبہ آنحضرتؐ سے عرض کیا گیا کہ ’’ایک عورت بہت نمازیں پڑھتی ہے، اکثر روزے رکھتی ہے، خوب خیرات کرتی ہے، مگر اس کی بدزبانی سے اس کے پڑوسی عاجز ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’وہ دوزخی ہے‘‘۔ لوگوں نے عرض کیا کہ: ’’ایک دوسری عورت ہے جس میں یہ خوبیاں تو نہیں ہیں مگر وہ پڑوسیوں کو تکلیف بھی نہیں دیتی‘‘۔ فرمایا: ’’وہ جنتی ہے‘‘۔ آنحضرتؐ نے لوگوں کو یہاں تک تاکید فرمائی تھی کہ اپنے بچوں کے لیے اگر پھل لائو تو یا تو ہمسائے کے گھر میں بھیجو ورنہ چھلکے باہر نہ پھینکو تاکہ غریب ہمسائے کا دل نہ دُکھے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تیرے ہمسائے تجھے اچھا سمجھتے ہیں تو واقعی تُو اچھا ہے، اور اگر ہمسائے کی رائے تیرے بارے میں خراب ہے تو تُو ایک برا آدمی ہے‘‘۔ مختصر یہ کہ اسلام اُن سب لوگوں کو جو ایک دوسرے کے پڑوسی ہوں، آپس میں ہمدرد، مددگار اور شریکِ رنج و راحت دیکھنا چاہتا ہے۔ ان کے درمیان ایسے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے پر بھروسا کریں اور ایک دوسرے کے پہلو میں اپنی جان، مال اور آبرو کو محفوظ سمجھیں۔ رہی وہ معاشرت جس میں ایک دیوار بیچ رہنے والے دو آدمی برسوں ایک دوسرے سے ناآشنا رہیں، اور جس میں ایک محلے کے رہنے والے باہم کوئی دلچسپی، کوئی ہمدردی اور کوئی اعتماد نہ رکھتے ہوں تو ایسی معاشرت ہرگز اسلامی معاشرت نہیں ہوسکتی۔
ان قریبی رابطوں کے بعد تعلقات کا وہ وسیع دائرہ سامنے آتا ہے جو پورے معاشرے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس دائرے میں اسلام ہماری اجتماعی زندگی کو جن بڑے بڑے اصولوں پر قائم کرتا ہے وہ مختصراً یہ ہیں:
-1 نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو اور بدی و زیادتی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔ (المائدہ:2:5)
-2تمہاری دوستی اور دشمنی خدا کی خاطر ہونی چاہیے۔ جو کچھ دو اس لیے دو کہ خدا اس کو دینا پسند کرتا ہے، اور جو کچھ روکو اس لیے روکو کہ خدا کو اس کا دینا پسند نہیں ہے۔ (ابودائود)
-3تم وہ بہترین امت ہو جسے دنیا والوں کی بھلائی کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ تمہارا کام نیکی کا حکم دینا اور بدی کو روکنا ہے۔ (آل عمران: 110:3)
-4 آپس میں بدگمانی نہ کرو، ایک دوسرے کے معاملات کا تجسس نہ کرو، ایک کے خلاف دوسرے کو نہ اکسائو۔ آپس کے حسد اور بغض سے بچو۔ ایک دوسرے کی کاٹ میں نہ پڑو۔ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بن کر رہو۔ (بخاری و مسلم)
-5 کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اس کا ساتھ نہ دو۔ (بیہقی بحوالہ مشکوٰۃ)
-6 غیر حق میں اپنی قوم کی حمایت کرنا ایسا ہے جیسے تمہارا اونٹ کنویں میں گرنے لگا تو تم بھی اس کی دُم پکڑ کر اس کے ساتھ ہی جاگرے۔ (ابودائود،بیہقی)
-7 دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرو جو تم خود اپنے لیے پسند کرتے ہو۔ (بخاری و مسلم)
(تفہیم احکام القرآن۔جلد سوئم)
nn