کتاب
:
اقبالؔ اور خاکِ ارجمند
مصنف
:
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر
0301-5187686
صفحات
:
150 قیمت: 375روپے
ناشر
:
نشریات، الحمد مارکیٹ اردو بازار۔ لاہور
فون
:
0321-4589419
پروفیسر ڈاکٹر ظفر حسین ظفر گورنمنٹ گریجویٹ کالج راولاکوٹ آزاد کشمیر میں استاد ہیں، زبانِ اردو کی ثروت اور وقعت میں اپنی تصانیف سے اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد ندیم صدر شعبۂ اردو سرگودھا یونیورسٹی تحریر فرماتے ہیں:
’’قافلۂ محمود شیرانی نے اردو زبان و ادب کی تاریخ میں در آنے والی لاتعداد غلط فہمیوں کی تصحیح کی، اور اَن گنت گوشوں کو منور کیا۔ اورینٹل کالج لاہور سے شروع ہونے والا روشنی کا یہ سفر برعظیم کے کونے کونے میں پھیل گیا، اور علم و آگہی کی کہکشائیں ہر طرف دکھائی دینے لگیں۔ مرحوم جمیل جالبی کی ’’تاریخ ادبِ اردو‘‘ کے بالاستیعاب مطالعے اور اس کے مآخذ پر نظر ڈالنے سے بہ خوبی علم ہوجاتا ہے کہ ہمارے محققین کی دیدہ ریزی نے ہمارے عہد کے لیے دھندلاہٹ کو دور کرکے مطلعِ ادب کس حد تک صاف کردیا ہے۔ یہ کارواں رکا نہیں، بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ عہدِ حاضر کے جن اہلِ علم نے تحقیق و تنقید کے پُرخار راستوں کو اپنی آبلہ پائی سے چمن زار بنایا ہے، ان میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر عبدالحق، ڈاکٹر رئوف پاریکھ، ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر، ڈاکٹر رفاقت علی شاہد، ڈاکٹر ابرار عبدالسلام، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کے نام شامل ہیں۔
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ تخلیقی، تنقیدی، تدوینی اور تحقیقی میدانوں میں یکساں کامیابی حاصل کررہے ہیں۔ اسلام، پاکستان اور کشمیر ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں، لیکن انہیں محبت اقبال سے ہے۔ مذکورہ تینوں موضوعات کو اگر ایک دھاگے میں پرویا جاسکتا ہے تو وہ فکرِ اقبال ہے۔ زیر نظر تصنیف میں وہ فکرِ اقبال کی مختلف جہتوں کو زیر بحث لائے ہیں۔ تین مقالات براہِ راست کشمیر سے متعلق ہیں۔ اگرچہ کشمیر اور اقبال سے متعلق پہلے سے بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، لیکن ظفر حسین ظفر نے متعدد گم شدہ کڑیوں کو تلاش کرکے نذرِ قارئین کیا ہے۔ ان مقالات سے مصنف کی کشمیر سے جذباتی وابستگی کا احساس ہوتا ہے، اور دوسری جانب کشمیر سے متعلق اقبال کی فکرمندی اور اہلِ کشمیر کے ہاں اقبال کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مصنف نے مکاتیبِ اقبال میں سے ان کے ملّی افکار کو کشید کرکے ملّی نشاۃ ثانیہ کے نقوش تلاش کیے ہیں۔ ’’بالِ جبریل‘‘ کی پہلی پانچ غزلوں کی تدوینِ نو سے متعلق اُن کی آرا سے اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ بعض تدوینی منصوبے اُن کے زیر غور ہیں۔ تحقیقی مقالات کے ساتھ ساتھ انہوں نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اور ڈاکٹر سعید اختر درانی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کی کتب کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔
کہنے کو یہ چند مضامین کا مجموعہ ہے، لیکن حقیقتاً اس مختصر کتاب سے ان کے تحقیقی رویوں کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ تحقیق کو قابلِ قرأت بنانا تو ایک بات ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ محققانہ کاموں میں اسلوب کی شگفتگی شامل کرکے اسے تخلیقی سطح پر لے آتے ہیں، لیکن لطف کی بات یہ ہوتی ہے کہ تحقیقی ذمہ داری کو بھی فراموش نہیں کرتے۔ تخلیق میں تحقیق اور تحقیق میں تخلیق ان کا طرہ امتیاز ہے۔ مجھے ان کی تحریروں کو پڑھ کر کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ ان کی ہر تحریر اپنا جواز خود پیش کرتی ہے، اور ان کے مضامین و مقالات کے مطالعے سے نئے نئے موضوعات پر لکھنے کی ترغیب ملتی ہے۔
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے اپنے لیے جو راہ منتخب کی ہے، اس میں خودنمائی یا آرزوئے پذیرائی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ وہ خاموشی کے ساتھ کسی نہ کسی منصوبے پر کام کرتے رہتے ہیں اور پھر اچانک ان کی تصنیف منظرعام پر آتی ہے اور علمی حلقوں میں موضوعِ گفتگو بن جاتی ہے۔ ان کے بعض علمی منصوبوں سے مجھے شناسائی ہے، جن کے منصۂ شہود پر آنے کے بعد، مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کے علمی وقار اور اردو ادب کے اعتبار میں اضافہ ہوگا‘‘۔
شامل مقالات کے عنوانات درج ذیل ہیں:
٭اقبال خاکِ ارجمند میں
٭ کشمیر میں اقبال شناسی… ایک توضیحی مطالعہ
٭بالِ جبریل کی پہلی پانچ غزلوں کی تدوینِ نو
٭مکتوبات ِاقبال میں ملّی نشاۃ ثانیہ کے نقوش
٭موضوع: اقبال اور کشمیر… ایک جائزہ
٭ علامہ اقبال: شخصیت اور فن۔ چند تاثرات
٭اسرارِ خودی (مرتبہ سعید اختر درانی) پر ایک نظر
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کی رائے ہے:
’’متونِ اقبال (نظم و نثر) کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ اقبال ذوقِ یقین کے ہتھیار سے غلامی میں جکڑی ہوئی ملت کی زنجیریں کاٹنے اور اسے اوجِ ثریا کے ہم دوش دیکھنے کے متمنی تھے، وہ اپنے آپ کو شاعرِ فرداستم کے روپ میں پیش کرکے کہتے ہیں:
صفتِ برق چمکتا ہے مرا فکرِ بلند
کہ بھٹکتے نہ پھریں ظلمتِ شب میں راہی
اقبال کی فکرِ بلند (جسے جامع اصطلاح میں فکر ِاسلامی کی تشکیلِ جدید یا اقبال کا تصور ِملّی نشاۃ ثانیہ کہا جاسکتا ہے) کے نقوش خطوطِ اقبال میں بھی موجود ہیں‘‘۔