نثرنگاری بجائے خود ایک مشکل فن ہے، اور اس میں شگفتگی پیدا کرنا اور بھی مشکل ہے۔ لیکن یہ مشکل کام اردو ادب میں خوب ہوتے رہے ہیں۔ بہترین مزاح نگار پیدا ہوئے، بہترین تحریریں وجود میں آئیں، بہت ساری نامی گرامی شخصیات ہیں جن کے ہم سب مرہونِ منّت ہیں۔ دورِ حاضر میں جن ادیبوں کی شگفتہ اور پُرمزاح تحریروں سے ہم سب مستفید ہوتے رہے ہیں ان میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کا نام محتاجِ تعارف نہیں ہے، مگر یہ بات لکھتے ہوئے ہمیں افسوس ہے کہ ڈاکٹر صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ وہ بہت عرصے سے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھے، 20 ستمبر کی شام اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون… اب اسے بھی حسنِ اتفاق ہی کہہ لیجیے کہ ڈاکٹر صاحب کی پیدائش بھی ماہِ ستمبر کی ہے، بس تاریخ میں ذرا سا فرق ہے یعنی 15 ستمبر۔
’’ایک روشن دماغ تھا، نہ رہا‘‘
ڈاکٹر صاحب کراچی کی ادبی محافل کی جان ہوا کرتے تھے۔ نہ جانے کتنی کتابوں کی رسمِ اجرا یا تقریبِ رونمائی میں شریک ہوکر اپنی پُرلطف اور پُرمزاح تقریر سے محفل کو زعفران زار بنایا کرتے تھے۔ اب تو صرف ڈاکٹر صاحب کی یادیں ہی رہ گئی ہیں…
’’جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے‘‘
ڈاکٹر صاحب جو کچھ بھی لکھتے تھے بہت خوب لکھتے تھے۔ پاکستان کا کوئی بھی رسالہ یا اخبار ایسا نہیں جس میں ڈاکٹر صاحب کی تحریر شائع نہ ہوتی ہو۔ ہندوستان کے رسالوں میں بھی ڈاکٹر صاحب شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب تک ڈاکٹر صاحب کی 26 کتابیں شائع ہوچکی ہیں، 16 اردو اور 10 انگریزی زبان میں۔
ڈاکٹر صاحب بہت ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھے۔ ہر کسی سے بہت محبت اور انکسار سے پیش آتے تھے۔ پرانی مثال ہے کہ جس شاخ میں پھل زیادہ ہوتے ہیں وہی جھکتی ہے۔
’صراحی سرنگوں ہوکر بھرا کرتی ہے پیمانے‘
یہی حال ڈاکٹر صاحب کا تھا۔ لفظ ’’غرور‘‘ ڈاکٹر صاحب کی لغت میں ناپید تھا۔ مہمان نوازی کا عالم یہ تھا کہ ہر سال موسمِ سرما میں پائے کی ایک شاندار دعوت کا اہتمام ہوتا تھا۔ احباب سارے سال اس دن کے منتظر رہتے تھے مگر دعوت نامہ انہی خوش نصیبوں تک پہنچتا تھا جن کا نام ڈاکٹر صاحب کی اس سال کی فہرست میں ہوتا تھا۔ ہر سال مہمانوں کے نام تبدیل ہوجاتے تھے سوائے چند کے، جو مخصوص تھے۔ طعام سے قبل اعلیٰ معیار کی ایک ادبی نشست کا انعقاد ہوتا تھا جس میں نامور شعرا، شاعرات اور ادبا ہوتے تھے۔ بات ہورہی تھی پائے کی، تو پائے بے انتہا لذیذ ہوتے تھے۔ پتا نہیں اس میں کمال باورچی کا ہوتا تھا یا ڈاکٹر صاحب کا خلوص اس کی لذت کو دوبالا کردیتا تھا۔
پائے کے بعد ذکر کرتے ہیں ڈاکٹر صاحب کی اعلیٰ پائے کی تحریروں کا۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ اب تک ڈاکٹر صاحب کی 26 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ میں ڈاکٹر صاحب کی ساری کتابوں کا مطالعہ تو نہیں کرسکا، مگر جتنی کتابیں میرے مطالعے میں آئی ہیں وہی میرے لیے بہت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریریں تھکے ہوئے ذہنوں کے لیے اکسیر کا کام کرتی ہیں۔ دلچسپ اندازِ بیان، شگفتہ جملے، موقع کی مناسبت سے موزوں اشعار… یہ ڈاکٹر صاحب کی خصوصیت ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ڈاکٹر صاحب کا دماغ اُردو شاعری کی زنبیل تھا تو بے جانہ ہوگا۔ جب چاہو اور جس شاعر کا کلام چاہو… حاضر ہے۔ میں زنبیل کی جگہ لفظ انسائیکلو پیڈیا بھی استعمال کرسکتا تھا، مگر انسا ئیکلو پیڈیا میں کسی چیز کو تلاش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت تو درکار ہوتا ہے۔ رہ گئی زنبیل، تو ہاتھ اندر گیا اور مطلوبہ چیز باہر آگئی۔
ڈاکٹر صاحب کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور انہوں نے دنیا کی سیر بھی خوب کی تھی۔ ان کی تحریروں میں دنیا جہان کا ذکر ہوتا ہے۔ قاری ان کے شگفتہ جملوں سے محظوظ بھی ہوتا ہے اور اس کی معلومات میں اچھا خاصا اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ’’عمارت کار‘‘ نامی رسالے میں ڈاکٹر صاحب کا ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ عنوان تھا ’’چلتے ہو تو’دمن‘ کو چلیے‘‘ (یہ کوہ و دمن والا دمن ہے)۔ معلوم ہوا کہ امریکہ کے شہر ورجینیا میں ایک غار ہے جہاں ڈاکٹر صاحب بنفسِ نفیس تشریف لے گئے، اور اس کا احوال اپنے مضمون میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:
’’یہ دراصل ایک غار ہے جو ورجینیا کے ایک دور دراز اور چھوٹے سے قصبے ’’یورے‘‘ میں ایک پہاڑی کے دامن میں واقع ہے‘‘۔ اب اس کے آگے کا جملہ توجہ طلب ہے…
’’غار کسی حسینہ کی زلف کی طرح بل کھاتا ہوا سوا میل پر پھیلا ہوا ہے‘‘۔
اسی مضمون میں ڈاکٹر صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’گورا اگر اکیلا بھی ہوگا توکسی دوسرے کا انتظار کرے گا تاکہ لائن لگاکر آگے بڑھے۔ سارے ’’صف شکن‘‘ ہمارے ہی خطے میں پائے جاتے ہیں، خصوصاً وطنِ عزیز میں‘‘… ذرا غور کیجیے کیا اچھا طنز ہے۔
کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی ہو یا رسمِ اجرا… اگر ڈاکٹر صاحب اس کتاب پر تبصرہ کررہے ہیں تو کتاب چاہے کتنی ہی سنجیدہ کیوں نہ ہو، ڈاکٹر صاحب کی شوخیِ تحریر اس میں ایسی شگفتگی اور مزاح پیدا کردیتی تھی کہ سامعین یا قارئین کم از کم مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ محترمہ سعادت نسرین کا رومانی ناول ’’دیا‘‘ جو بے انتہا سنجیدہ پیرائے میں لکھا گیا اور دو محبت کرنے والوں کے درمیان جن مکالموں کی ادائیگی ہوئی ہے ان میں بھی پاکیزگی اور شائستگی کا خاص خیال رکھا گیا۔ اب ملاحظہ فرمائیے ڈاکٹر صاحب کا تبصرہ … فرماتے ہیں:
’’جب میں اس ناول کا مطالعہ کررہا تھا تو کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میں ناول نہیں بلکہ ’بہشتی زیور‘ پڑھ رہا ہوں‘‘۔
بس اسی طرح کے شگفتہ اور برجستہ جملوں نے ڈاکٹر صاحب کی تحریروں کو بے پناہ مقبولیت بخشی ہے۔ حتیٰ کہ کتاب کو کسی کے نام منسوب کرتے وقت بھی ڈاکٹر صاحب کا قلم شوخی سے باز نہیں رہتا۔ شاعر یا ادیب اپنی کتاب اُسی سے منسوب کرتا ہے جس سے وہ بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی محبتوں کا دائرہ بہت وسیع تھا، لہٰذا انہوں نے اپنی انیسویں کتاب ’’لوٹ سیل‘‘ کو ’’ہم سب کے نام‘‘ منسوب کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
’’ہر اُس اعلیٰ پائے کے منافق کے نام جس کا دعویٰ ہے کہ اسے منافقت سے نفرت ہے۔ دوسرے الفاظ میں اکثریت کے نام۔ تیسرے الفاظ میں ہم سب کے نام‘‘
ڈاکٹر صاحب کی بیسویں کتاب ان کے لیے ایک سوالیہ نشان بن گئی۔ سوال تھا ’’اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں؟‘‘ اور اسی عنوان سے یہ کتاب شائع ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کو اپنے سابق باس کی رفاقتوں کا حساب چکانا تھا، لہٰذا یہ کتاب اسی کے نام منسوب کردی گئی۔ انتساب کی سطور ملاحظہ کیجیے:
’’اپنے اس نااہل اور کم ظرف (سابق) باس کے نام جسے دوسری چپت لگانے کی شدید خواہش ہے (پہلی دورانِ ملازمت ایک دن اُس وقت رسید کی تھی… جب میں محوِ خواب تھا)‘‘
ڈاکٹر صاحب کی بیسویں کتاب ’’اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں؟‘‘ کے حوالے سے ایک تقریب میں محترم اطہر ہاشمی نے کیا اچھا جملہ کہا ’’ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی انّیس کتابیں لکھنے کے بعد قارئین سے اب پوچھ رہے ہیں کہ لکھوں کہ نہ لکھوں؟ اگر پوچھنا ہی تھا تو اور پہلے پوچھ لیا ہوتا‘‘۔
کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر صاحب کی بائیسویں کتاب ’’پورب سے یورپ تک‘‘ کی رسمِ اجراء آرٹس کونسل آف پاکستان میں پروفیسر سحر انصاری کی صدارت میں ادا کی گئی ۔ جیسا کہ اس کتاب کے نام سے ظاہر ہے، یہ ایک سفرنامہ ہے۔ سفرنامے تو آپ نے بہت پڑھے ہوں گے۔ مگر… ’’ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں‘‘… ذرا اس سفرنامہ کو بھی پڑھ کر دیکھیے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ…
’’کہتے ہیں قریشی کا ہے اندازِ بیاں اور‘‘
دورانِ مطالعہ آپ یوں محسوس کریں گے گویا آپ سفرنامہ نہیں پڑھ رہے بلکہ خود ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ سفر کررہے ہیں، اور جو شخص سفر میں ڈاکٹر صاحب کا ساتھی ہو اُس کی خوش قسمتی کا کیا کہنا۔
ڈاکٹر صاحب کا اندازِ بیان اوروں سے منفرد ہے، آسان الفاظ میں خوبصورت بات کہنا ڈاکٹر صاحب کا فن ہے۔ ان کا ہرجملہ اپنے اندر معنویت رکھتا ہے، چاہے وہ مزاح کے پیرائے میں کہا گیا ہو یا سنجیدگی سے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے اِردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں کوئی دوسرا ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نظر نہیں آتا، لہٰذا میں مرزا غالب کے اس مصرع کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں:
’’ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے‘‘