پچھلی کئی دہائیوں سے اہلِ پاکستان کی سماعتوں پر ایک ہی موسم ٹھیر سا گیا ہے… ہجرزدہ راتوں کا خالی پن یا خزاں رسیدہ شاموں کی ویرانی۔ امید کی کوئی ہری کونپل نہیں پھوٹتی۔ آس کا کوئی تارہ نہیں چمکتا۔ نئے امکانات کا افق بانجھ پڑا ہے۔ فضا میں خون آشام چڑیلوں کی طرح خبریں گردش کرتی ہیں۔ سفاک قاتلوں کی خبریں، آبرو ریزی کی تفصیلات، رشتوں کی پامالی کی ہولناکیاں۔
خوش خبریاں تو جیسے خواب ہوگئیں… ایسے میں ایک کرم فرما نے نوید سنائی کہ ڈاکٹر معین الدین احمد پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ ٹپ سے بارش کے پہلے قطرے کی طرح یہ خبر میرے کانوں میں اتری تو گویا امید کی، سوکھے چراغ کی لو خودبخود جگمگا اٹھی ہو… ارے واہ… خبر دینے والے مسکرانے لگے۔
مسکراہٹ تو بنتی ہے۔ آنے والے معین الدین احمد امید کی کونپل نہیں بلکہ ہرا بھرا سایہ دار شجرہیں۔ وہ آس کا تارہ نہیں، نئے امکانات کے افق پر طلوع ہونے والا چودہویں رات کا چاند ہیں۔ آپ نہ صرف ایک محب وطن، درد مند پاکستانی سائنس دان ہیں بلکہ اپنے ادبی ذوق کی وجہ سے شعبۂ ادب میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی کتابوں کے مطالعے نے ہی مجھے ان کا مداح اور پرستار بنایا تھا، سو میں ان سے ملاقات کے لیے سرگرداں ہوئی اور بالآخرانہیں جالیا… اور یوں دنیا کے پہلے مسلمان ڈینڈروکرونولوجسٹ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس انتہائی مفید ملاقات میں ہونے والی گفتگو پیش خدمت ہے: