سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا ایک یاد گار انٹریو

شورش کاشمیری ایک بے باک اور جید صحافی، شعلہ بیاں مقرر، بلند پایہ مصنف اور عمدہ شاعر تھے۔ ہفت روزہ ’چٹان‘ لاہور کے مالک اور بانی مدیر تھے۔ اسلام، تحریکِ اسلامی اور سید مودودیؒ کے پرستار تھے۔
انہوں نے ہفت روزہ ’چٹان‘ کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے ایک یادگار انٹرویو لیا تھا جس میں انہوں نے مولانا سے 31 سوالات کیے تھے۔ شورش کاشمیری اس انٹرویو سے پہلے ابتدا میں فرماتے ہیں کہ ’’علامہ اقبال نوراللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا انحصار اس پر نہیں کہ ہم یورپ کی تقلید میں کہاں تک آگے بڑھ سکتے ہیں، اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کہاں تک یورپ کے فکری غلبے سے نجات پاسکتے ہیں … مزید فرمایا کہ مشرق میں مسلمانوں کی ذہنی قیادت اُس شخص کے ہاتھ میں ہوگی جو یورپ کی علمی قیادت کو چیلنج کرسکتا ہو اور جرأت سے یہ کہہ سکے کہ انسانی مصائب کی بوقلمونیوں کا ایک ہی حل ہے، اسلام … مولانا مودودی بلاشبہ اسلام کے ایک عظیم اسکالر ہیں، انہوں نے یورپی نظریات کے سحر پر بڑے یقین و اعتماد کے ساتھ بحث کی، اور ان خیالات کے طلسم کو توڑا ہے جو نئی پود کے ذہن کو مسخر کرچکے ہیں۔ مولانا کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے یورپ کے عالمانہ زعم کا تاروپود بکھیرا، اور نئی پود کو فکر و نظر کی گمراہیوں سے اٹھاکر صراط مستقیم کی دعوت دی ہے۔
ان جوابات سے جو ذیل میں درج ہیں، مولانا کے فہم و نظر کی وسعتوں اور فکر و عقل کا اندازہ ہوتا ہے… یہ انٹرویو ہفت روزہ ’چٹان‘ کے شمارہ نمبر 9 (14 ۔20 اپریل 1969ء) میں شائع ہوا تھا۔
…٭…٭…٭…٭…
سوال نمبر5: اسلام کے نزدیک زمینوں کی ملکیت کا تصور کیا ہے؟
ا۔ کیا اسلام بڑی بڑی زمینداریوں کو جائز قرار دیتا ہے؟
ب۔ کیا زمین اُن کی ملکیت نہیں جو کاشت کریں؟ جیسا کہ امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ کا مسلک ہے۔
ج۔ اس امر کا جواز کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کی دھونس، قانون کی دھاندلی اور استحصالِ زر سے حاصل کی ہوئی زمینیں سیکڑوں مزارعوں کی کاشت کے بعد فردِ واحد یا اس کے خاندان کی ملکیت ہوجاتی ہیں؟ یہ ملکیت کس شرعی یا اخلاقی جواز کی بنا پر جائز ہے؟
جواب: اسلام کے نزدیک زمینوں کی ملکیت کے تصور کو بھی میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ’’مسئلہ ملکیت زمین‘‘ میں بیان کردیا ہے جو شائع ہوچکی ہے اور بازار میں موجود ہے۔ ملکیت کی جن صورتوں کو شریعتِ اسلامی نے حلال قرار دیا ہے اُن میں سے کسی صورت سے بھی جو زمین کسی کی ملکیت قرار پاتی ہو وہ جائز ملکیت ہے، اور جو شریعت کی بیان کردہ صورتوں کے خلاف کسی صورت سے حاصل ہوئی ہو وہ ناجائز ملکیت ہے۔ اسلام میں اس تصور کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے کہ زمین کی شخصی ملکیت سرے سے ناجائز ہے، جو لوگ اس تصور کے حق میں الارض لِلّٰہ سے استدلال کرتے ہیں وہ اوّل تو پوری آیت نہیں پڑھتے جس میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’زمین اللہ کی ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے۔‘‘ (سورۂ اعراف آیت 128)
دوسرے وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر الارض لِلّٰہ کا مطلب وہی لیا جائے جو انہوں نے لیا ہے تو اس سے شخصی اور قومی ملکیت دونوں ہی کی ایک ساتھ نفی ہوجاتی ہے۔ کسی منطق سے بھی یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ جو زمین اللہ کی ہے اُس کا مالک ایک شخص تو نہیں ہوسکتا مگر قوم اس کی مالک ہوسکتی ہے۔
ا۔ اسلام زمینداری کی بڑائی اور چھوٹائی کے لحاظ سے اس کے جواز اور عدم جواز کا فیصلہ نہیں کرتا، بلکہ اس لحاظ سے اس کا فیصلہ کرتا ہے کہ اس کی ملکیت کس طرح حاصل ہوئی ہے۔ جائز طریقے سے حاصل ہوئی ہو تو اس کے متعلق اسلام کا فیصلہ اور ہے، اور ناجائز طریقے سے حاصل ہوئی ہو تو اس کا فیصلہ دوسرا ہے۔ اس کے بعد پھر اسلام اس حیثیت سے زمینداری کے معاملے کو دیکھتا ہے کہ زمیندار خواہ بڑا ہو یا چھوٹا، وہ اپنی زمینداری کا کام کرتا کس طرح ہے۔ اگر وہ کام اُن طریقوں سے کرتا ہو جو قانونِ شریعت کی رو سے جائز ہیں تو اس کی زمینداری قابلِ اعتراض نہیں ہے، اور اگر وہ کام ناروا طریقوں سے کرتا ہو تو وہ سزا کا مستحق ہے، اور اس پر مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں جو اس کے ظلم کے لحاظ سے متعین ہوں گے۔
ب۔ فقہائے اسلام میں سے کسی کا مسلک بھی یہ نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی حدیث یا قرآن مجید کی کسی آیت سے ثابت ہوتی ہے کہ زمین اُن کی ملکیت ہے جو اس پر کاشت کریں۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام شافعیؒ کی طرف اگر کوئی شخص یہ بات منسوب کرتا ہے تو وہ خلافِ واقعہ بات کہتا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا مسلک یہ نہیں ہے کہ وہ بٹائی پر زمین دینے کو مطلقاً ناجائز قرار دیتے ہوں، بلکہ ان کے نزدیک اگر زمین کا مالک صرف زمین ہی دے کر الگ نہ ہوجائے بلکہ تخم، بیل، ہل وغیرہ میں بھی کاشت کار کے ساتھ شریک ہو تو اس صورت میں پیداوار کی بٹائی پر معاملہ کرنا جائز ہے۔ اس کے برعکس امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ بٹائی پر معاملہ کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں اور وہ شرط نہیں لگاتے جو امام ابوحنیفہؒ نے لگائی ہے۔ مذہب حنفی میں فتویٰ امام یوسفؒ اور امام محمدؒ ہی کے قول پر ہے۔ رہا امام شافعیؒ کا مسلک، تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کی زمین پر دوسرے شخص کے کاشت کرنے کی جائز صورتیں دو ہیں جن میں سے کسی ایک کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ مالکِ زمین کاشت کار کی خدمات کسی اجرت پر حاصل کرے۔ اس صورت میں کھیتی مالک کی ہوگی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کاشت کار ایک مقرر معاوضے پر (جس کو آج کل کی اصطلاح میں ٹھیکہ سے تعبیر کرتے ہیں) مالک سے زمین لے لے، اس صورت میں کھیتی کاشت کار کی ہوگی۔ اس کی تفصیل ’’الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
(ج) زمین کی جو ملکیت حکومت کی دھونس یا قانون کی دھاندلی یا کسی اور غیرشرعی طریقے سے حاصل کی گئی ہو وہ سرے سے جائز ملکیت ہی نہیں ہے۔
سوال نمبر 6: بڑے بڑے کارخانے، ملیں اور فیکٹریاں جو موجودہ سرمایہ دار ریاستوں کی طبقہ پروری، قانون پر بالادست طبقے کی حکمرانی اور بینکوں کے سودی نظام کی خواص نوازی کا نتیجہ ہیں، جائز ہیں؟ ان کی انفرادی ملکیت کو شرعاً درست کہا جاسکتا ہے؟ جب کہ شہادت تاریخی طور پر موجود ہے کہ ان سے مذہب کے استحکام اور مملکت کے عوام (بنی نوع انسان) کو عظیم نقصان پہنچتا رہا اور پہنچ چکا ہے، بلکہ یہی نقصان دین و مذہب سے بغاوت کا ذریعہ بن گیا ہے۔
جواب: جدید سرمایہ دارانہ نظام اور ملک کے غلط قوانین اور غلط انتظامی پالیسیوں کی وجہ سے صنعت اور تجارت اور دوسرے وسائلِ ثروت کا جو ارتکاز ایک محدود تر طبقے میں ہوتا جارہا ہے وہ اسلامی شریعت کی رو سے بالکل ناجائز ہے۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس ارتکاز کو باقی رکھا جائے یا نہیں، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کو ختم کرنے کی صورت اگر یہ ہو کہ ان تمام چیزوں کو ضبط کرکے قومی ملکیت بنالیا جائے تو یہ چھوٹی بیماری کا علاج ایک بہت بڑی بیماری سے ہوگا۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ آئندہ کے لیے تو ان تمام حرام طریقوں کو قانوناً ممنوع کردیا جائے جن سے دولت کا یہ ارتکاز واقع ہوتا ہے، اور پہلے جو ارتکاز واقع ہوچکا ہے اس کو مختلف قوانین کے ذریعے سے باقاعدہ توڑا جائے اور اس مرکوز دولت کو بڑے پیمانے پر معاشرے میں تقسیم کرنے کے لیے ایسے طریقے اختیار کیے جائیں جو اصولِ شریعت سے متصادم بھی نہ ہوں اور جن سے مرض کا علاج مرض کے ذریعے سے کرنے کے بجائے مریض (معاشرہ) کی صحت بھی بحال ہوسکے۔
جماعت اسلامی نے اپنے شائع شدہ معاشی پروگرام میں اس دوسرے طریق علاج کے کچھ اصول وضاحت کے ساتھ بیان کردیے ہیں۔ عنقریب ہم تفصیل کے ساتھ یہ بتائیں گے کہ موجودہ معاشی نظام پر ان اصولوں کو کس طرح منطبق کیا جائے جن سے معاشرے میں آزاد معیشت کو برقرار رکھتے ہوئے اس مرض کا علاج ممکن ہے۔ اس بات کو میں نے حال میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ان الفاظ میں بیان کیا تھا کہ اسلام کا نشتر ڈاکٹر کا نشتر ہے جو مریض کی صحت درست کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اگر سرمایہ دار طبقہ اس نشتر کے استعمال کی مزاحمت کرے گا تو پھر اسے ڈاکو کے خنجر سے سابقہ پیش آئے گا، اور اب لامحالہ اسے ان دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہی ہوگا۔
سوال نمبر7: اسلام میں انفرادی ملکیت کا تصور کس حد تک ہے؟
جواب: اسلام میں انفرادی ملکیت کے لیے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے، بلکہ اس کے حصول کے جائز اور ناجائز طریقے بتائے گئے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ حلال طریقوں سے جو دولت بھی انسان کو حاصل ہو وہ اللہ کا فضل ہے، اور اللہ جس پر جتنا چاہے فضل کرے۔ اور حرام طریقوں سے جو مال حاصل کیا جائے اس کا حصول جرم ہے، اور اس جرم کی سزا نوعیتِ جرم کے لحاظ سے اسلام میں تجویز کردی گئی ہے۔ ناجائز ملکیت خواہ چھوٹی سے چھوٹی ہو بہرحال ناجائز ہے، اور جائز ملکیت خواہ بڑی سے بڑی ہو بہرحال جائز ہے۔ اس کے بعد اسلام ملکیت پر تصرف کے طریقوں سے بحث کرتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ ملکیت چھوٹی ہو یا بڑی، تصرف کے تمام غلط طریقوں کو اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے اور اس کی مختلف صورتوں کے لیے مختلف سزائیں تجویز کی ہیں۔ رہے صحیح طریقے، تو ان میں سے بعض کو اس نے لازم کردیا ہے جیسے زکوٰۃ، اور بعض کے لیے ترغیب دی ہے تاکہ فرد خود اپنی رضاکارانہ نیکی کے ذریعے سے اپنے اخلاقی و روحانی ارتقاء کا بھی سامان کرے اور معاشرے میں بھی کشمکش اور نفرت کے بجائے آپس کی محبت اور خیرخواہی پیدا ہو۔
سوال نمبر 8: اس حد سے زائد کی ملکیت پر ریاست قابض ہوسکتی ہے؟
جواب : اوپر نمبر 7 کے جواب پر غور کرنے سے اس سوال کا جواب خودبخود معلوم ہوسکتا ہے۔ ناجائز املاک یا جائز املاک کے ناجائز تصرف کے بارے میں شریعت میں جو قوانین تجویز کیے گئے ہیں ان میں جائداد کی ضبطی تک کی گنجائش ہے۔ علاوہ بریں اسلام میں ایک عادل حکومت کو جو شوریٰ کے طریق پر چلائی جاتی ہو اور جو اپنی آمد و صرف کے متعلق معاشرے کے سامنے جواب دہ ہو۔ افراد پر مختلف قسم کے ٹیکس عائد کرنے کا حق بھی ہے۔ ٹیکس عائد کرنے کی اس پالیسی کے لیے دو اہم رہنما اصول ہمیں قرآن میں ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ دولت دولت مندوں ہی کے درمیان نہ گھومتی رہے۔ دوسرے یہ کہ ٹیکس کا محل وہ دولت ہے جو عفو (زائد از ضرورت) کی تعریف میں آتی ہو۔ ان دو قاعدوں کو ملحوظ رکھ کر منصفانہ طریقوں سے ٹیکس اس طرح عائد کیا جانا چاہیے کہ جس کے پاس جتنی زیادہ دولت ہو وہ معاشرے کی بھلائی کے لیے اتنا ہی زیادہ حصہ ادا کرے۔ مگر اس میں اس بات کو ملحوظ رکھنا ہوگا کہ آدمی کے لیے جائز طریقوں سے حلال دولت کمانے کا محرک (Incentive) بالکل ہی ختم ہوکر نہ رہ جائے۔ میں نے جہاں تک دین کا مطالعہ کیا ہے مجھے اس تصور کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ملی ہے کہ ملکیت کے بجائے خود ایک حد (بلالحاظ اس امر کے کہ وہ جائز نوعیت کی ملکیت ہو یا ناجائز نوعیت کی) مقرر کردی جائے اور اس سے زائد پر ریاست آپ سے آپ قابض ہوجانے کا حق رکھتی ہو۔
سوال نمبر 9: کیا سیاسی مغالطے اور فکری تصادم کی ایک وجہ یہ نہیں کہ یورپ کی جدید اصطلاحوں اور اسلام کی قدیم اصطلاحوں میں ایک بُعد ہے، اور معنوی بُعد صرف اس لیے ہے کہ اسلام اور سوشلزم میں انفرادی ملکیت کا تصور دو مختلف زمانوں کا پیدا شدہ ہے؟ نتیجتاً تصور کا یہ اختلاف تصادم پر منتج ہورہا ہے۔ ورنہ جہاں تک اقتصاد و معیشت کا تعلق ہے اسلام کی اجتماعی روح خود ایک قسم کی اشتراکیت ہے جس میں خدا اور رسول کا تصور اس کی مضرتوں کا قاطع اور اس کی خوبیوں کا مدافع ہے۔
جواب: جس سیاسی مغالطے اور فکری تصادم کی طرف آپ نے اس سوال میں اشارہ کیا ہے اس کی اصل وجہ نہ یہ ہے کہ یورپ کی جدید اصطلاحوں اور اسلام کی قدیم اصطلاحوں میں بُعد ہے، اور نہ یہ کہ اسلام اور سوشلزم میں انفرادی ملکیت کا تصور دو مختلف زمانوں کا پیدا شدہ ہے۔ دراصل اسلام کا تصورِ کائنات اور تصورِ حیات سوشلزم کے تصورِ حیات و کائنات سے بالکل مختلف ہے، اور تصورات کے اس اختلاف کی بنا پر عقیدہ و اخلاق سے لے کر تمدن و اجتماع کی تفصیلات تک دونوں کا راستہ اور منزل بالکل ایک دوسرے سے الگ ہے۔ رہے سیاسی مغالطے، تو وہ اسلام کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ اُن سوشلسٹوں کی طرف سے آرہے ہیں جو فلسفے اور مناہج تو وہ اختیار کررہے ہیں جو اپنی اصل اور روح کے اعتبار سے بالکل اسلام سے مختلف ہیں، مگر طرح طرح کے مغالطے دے کر اس غیراسلامی چیز کو اسلامی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ ’’جہاں تک اقتصاد و معیشت کا تعلق ہے، اسلام کی اجتماعی روح خود ایک قسم کی اشتراکیت ہے جس میں خدا اور رسولؐ کا تصور اس کی مضرتوں کا قاطع اور اس کی خوبیوں کا مدافع ہے‘‘۔ یہ بجائے خود ان مغالطوں میں سے ایک ہے جن کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ اقتصاد و معیشت کے معاملے میں اسلام کی اجتماعی روح یہ ہے کہ ایک طرف فرد کو جائز حدود کے اندر زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے، اور دوسری طرف تعلیم و تربیت کے ذریعے سے اس کو زیادہ سے زیادہ بہتر انسان بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ وہ اپنے اختیار سے خدا اور بندوں کے حقوق خود ادا کرے اور قانونی جبر کا استعمال کم سے کم کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ کسی قسم کی اشتراکیت بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اشتراکیت کا لفظ محض لغوی معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے جو ایک خاص نظام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس نظام کی اجتماعی روح اسلام کی اجتماعی روح کے بالکل برعکس یہ ہے کہ معاشرے کی بھلائی کا پورا کام ایک اجتماعی مشین کرے اور فرد پر اس معاملے میں بالکل اعتماد نہ کیا جائے کہ وہ خود اپنی مرضی سے معاشرے کی بھلائی کے لیے رضاکارانہ کام کرے گا، نہ اس کے ہاتھ میں کوئی اختیار چھوڑا جائے کہ وہ ایسا کرسکے۔ اس نظام میں خدا اور رسولؐ کا تصور خواہ مخواہ داخل کرکے مشرف بہ اسلام کرنے کی حاجت ہی آخر کیا ہے؟ اسلام بجائے خود ایک مکمل نظام ہے جو فرد اور معاشرے کے درمیان بہترین توازن اور عدل و انصاف قائم کرتا ہے، افراد کو فرداً فرداً بہتر انسان بناتا ہے تاکہ وہ معاشرے کے صالح اجزاء بن سکیں، اور معاشرے کو بہترین صالح معاشرہ بناتا ہے تاکہ فرد اس کے اندر زیادہ سے زیادہ روحانی و اخلاقی ارتقاء حاصل کرسکے۔ اس کو ایک قسم کی ’’اشتراکیت‘‘ قرار دینا اس کی توہین ہے۔ اشتراکیت میں اگر خدا اور رسولؐ کا تصور داخل کرنے کی کوشش کی جائے تو شاید مارکسزم کا وہ قرآنی ایڈیشن تیار ہوجائے گا جسے آج کل ایک صاحب نے ’’نظام ربوبیت‘‘ کا خوشنما عنوان دیا ہے۔
سوال نمبر 10: آپ کو اسلامی سوشلزم کی اصطلاح میں کون سی قباحت نظر آتی ہے، جب کہ آج کے بین الاقوامی معاشرے میں ہم سیکڑوں یورپی اصطلاحین قبول کرچکے ہیں اور ان سے متمتع ہورہے ہیں؟
جواب: جدید اصطلاحوں کو استعمال کرنے کے معاملے میں یہ اصول ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ کون سی اصطلاحیں ایسی ہیں جن کے اصل مفہوم اسلامی نقطہ نظر سے صحیح ہیں، اور کون سی اصطلاحیں ایسی ہیں جو اسلامی نقطہ نظر سے غلط ہیں۔ صحیح اصطلاحوں کو ہم بلاتکلف استعمال کرسکتے ہیں اور غلط اصطلاحوں کو استعمال کرنے سے ہم کو قطعی اجتناب کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ بعض اصطلاحیں ایسی بھی ہیں جن کے مفہوم کا ایک حصہ صحیح ہے اور دوسرا حصہ غلط۔ ان کو استعمال کرتے ہوئے ہمیں ان کے ساتھ لازماً لفظ اسلامی کا اضافہ کرنا چاہیے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ ہم اس اصطلاح سے اس کا وہ مفہوم مراد لے رہے ہیں جو اسلام سے مطابقت رکھتا ہے۔ میری اس تشریح سے آپ یہ بات بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اسلامی سوشلزم کی اصطلاح کو کیوں غلط سمجھتے ہیں اور اسلامی جمہوریت کی اصطلاح کے استعمال کو کیوں صحیح سمجھتے ہیں۔ سوشلزم ایک اصطلاح ہونے کی حیثیت سے ایک خاص نظام کا نام ہے جو عیسائیت اور بدھ ازم وغیرہ کی طرح عقیدے اورعمل کے لحاظ سے ایک پورا مذہب ہے۔ اس کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ کا لفظ بڑھا کر ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کہنا اسی طرح غلط ہے جس طرح عیسائیت اور بدھ ازم کے ساتھ لفظ اسلامی کا اضافہ کرکے ’’اسلامی عیسائیت‘‘ یا ’’اسلامی بدھ ازم‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔ بخلاف اس کے جمہوریت کا یہ مفہوم اسلام کے مطابق ہے کہ حکومت لوگوں کی مرضی سے بنے، چلے اور بدلے۔ اور اس کا یہ مفہوم اسلام کے خلاف ہے کہ جمہور خود حلال و حرام کے مختار ہوں اور کسی خدا اور رسول کے مقرر کردہ حدود کے پابند نہ ہوں۔ اس بنا پر ہم ’’مغربی جمہوریت‘‘ کے مقابلے میں ’’اسلامی جمہوریت‘‘ کی اصطلاح بجاطور پر استعمال کرسکتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم جمہوریت سے اس کا وہ مفہوم مراد لے رہے ہیں جو اسلام سے مطابقت رکھتا ہے۔
سوال نمبر 11: اس اصطلاح کو صرف اس لیے قبول کرلینے میں عیب کیا ہے؟ کیا اس سے سرمایہ دارانہ استحصالات کی نفی کا تصور اپنی تمام تر معنویت کے ساتھ ذہن میں فی الفور راسخ نہیں ہوجاتا ہے؟
جواب: سوال نمبر 10 کے جواب میں مَیں یہ بات واضح کرچکا ہوں کہ اسلامی سوشلزم کی اصطلاح کو قبول کرنے میں کیا عیب ہے۔ سوشلزم محض سرمایہ دارانہ استحصالات کی نفی کا نام نہیں ہے بلکہ ایک نظام کا نام ہے جو ایک چیز کی نفی کے ساتھ ایک دوسری چیز کا اثبات بھی کرتا ہے، اور اس کی اس نفی و اثبات کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے جس وقت ہم ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا لفظ ادا کریں گے تو اس سے فی الفور ذہن میں سرمایہ دارانہ استحصالات کی نفی کے ساتھ ساتھ سوشلزم کے اثبات کا تصور بھی راسخ ہوجائے گا۔ زیادہ سے زیادہ لفظ ’’اسلامی‘‘ کے اضافے سے جو مطلب نکل سکتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سوشلزم کے مختلف مسالک (Schools of Thought) ہی میں سے کوئی ایک مسلک ہے، یا باالفاظ دیگر اسلام کا کوئی نیا ایڈیشن ہے جو کچھ چیزیں اسلام کی اور کچھ چیزیں سوشلزم کی لے کر تیار کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز سوشلزم سے لے کر اس نئے ایڈیشن میں اسلام کے ساتھ شامل کی گئی ہیں ان کی نوعیت کیا ہے؟ اگر ان کی نوعیت یہ ہے کہ اسلام میں کوئی نقص تھا جس کو دور کرنے کے لیے کچھ ایسی چیزیں سوشلزم سے لے کر شامل کی گئی ہیں جو اسلام میں نہ تھیں تو میری رائے میں ایسے مذہب کو ماننے کا کوئی جواز نہیں ہے جس کو ہم ناقص سمجھتے ہوں۔ اس ناقص مذہب کو چھوڑ کر جو لوگ کوئی مرکب مذہب بنانا چاہتے ہیں جس میں خدا اور رسول کے تصور کا اضافہ کرکے اشتراکیت کے اصول اختیار کرلیے گئے ہوں، انہیں چاہیے کہ وہ مسلمانوں میں رہ کر عام مسلمانوں کو دھوکا نہ دیں بلکہ بہائیوں کی طرح سیدھے طریقے سے ایک الگ مذہب بنائیں اور اس کی طرف دنیا کو دعوت دینا چاہیں تو دیں، لیکن اگر وہ اس بات کے پابند ہیں کہ جو چیزیں بھی لی جائیں وہ قرآن و سنت سے مطابقت رکھتی ہوں اور اس کے خلاف نہ ہوں تو اسے آخر سوشلزم کہنے کی ضرورت ہی کیا ہے! جو کچھ قرآن و سنت کے مطابق ہے وہ تو خود اسلام ہی ہے۔ اسلام آخر کب سے ایسا دیوالیہ ہوا ہے کہ اس کا سکہ دنیا میں کسی دوسرے مذہب کا ٹھپہ لگائے بغیر نہ چل سکتا ہو!
سوال نمبر 12: آپ سوشلزم کے تصور کو خطرناک سمجھتے ہیں یا جن لوگوں کے ہاتھ میں اس کی عنان ہے؟
جواب: میں دونوں ہی کو خطرناک سمجھتا ہوں اور یہ کہنا میرے لیے مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے زیادہ خطرناک کون ہے، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ سوشلزم چونکہ خود خطرناک ہے اس لیے اُس کو چلانے کا کام انہی لوگوں کے ہاتھ میں جاتا ہے جو خطرناک ہوتے ہیں۔ پھر جب خطرناک تصور خطرناک ہاتھوں میں جاتا ہے تو دونوں ایک دوسرے کو خطرناک تر بناتے چلے جاتے ہیں، اور یہ کہنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون کس کو خطرناک بنارہا ہے۔ یہ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ایک مسلک اگر پاکیزہ ہو تو برے لوگوں کا کسی مسلک کی طرف توجہ کرنا اور آگے بڑھ کر اس کو ہاتھ میں لینا خود اس بات کی علامت ہے کہ اس مسلک کے مزاج میں کوئی بنیادی خرابی ہے جس کی وجہ سے خدا کے نیک بندے اس سے دور بھاگتے ہیں اور برے بندے اس کی طرف لپکتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ تقابل کرکے دیکھیں کہ اسلام کو لے کر اٹھنے والا کس قدر پاکیزہ انسان تھا اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے والے کس سیرت و کردار کے لوگ تھے۔ اور اس کے برعکس مارکس کس قسم کا انسان تھا اور اس کی دعوت پر جو لوگ لبیک کہہ کر آگے بڑھے اور جنہوں نے آگے چل کر اُس کے مسلک کو عملاً رائج کیا وہ کس سیرت و کردار کے انسان ہیں۔ جب تک کسی انسان کی بنیادی انسانی اقدار مائوف نہ ہوچکی ہوں وہ ان دونوں کو ایک درجے میں نہیں رکھ سکتا۔ اور وہ شخص تو بدترین اخلاقی مریض ہی ہوگا جو مارکس اور مارکسیوں کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحابؓ پر ترجیح دے۔
سوال نمبر 13: آپ موجودہ سرمایہ دار سوسائٹی کے کس حصے، شق، تصور اور سانچے سے متفق ہیں؟ متفق ہیں تو کیوں اور کس لیے؟
جواب: موجودہ سرمایہ دارانہ سوسائٹی کو تو میں ایک پھوڑا سمجھتا ہوں۔ اس کے کسی حصے، شق، تصور یا سانچے سے اتفاق کے بجائے مجھے تو اس کے علاج کی فکر ہے، اور علاج کے لیے جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں میں ڈاکو کے خنجر کے بجائے ڈاکٹر کا نشتر ہی استعمال کرنے کو صحیح اور برحق سمجھتا ہوں۔
سوال نمبر 14: ہم مسلمان اللہ کو کائنات کا مالک و خالق سمجھتے ہیں، تمام انسان اس کی مخلوق ہیں اور یہ مخلوق عیال اللہ ہے۔ تو پھر عیال اللہ، جو اشرف المخلوقات بھی ہے، اس کائنات کے ذرائع پیداوار کی اجتماعی مالک کیوں نہیں؟ پھر اس حقیقت کی نفی سے انفرادی ملکیت کا تصور یا جواز کیوں کر پیدا کیا جاسکتا ہے؟ جب مسلمانوں کا معاشرہ اعتقادات و عبادات میں محمود و ایاز کے فرق کو تسلیم نہیں کرتا تو اقتصادیات و معاشیات میں جو زندگی بسر کرنے کا ذریعہ ہیں، اختلافات اور فاصلے پیدا کرنا کس رو سے جائز ہوسکتا ہے؟
جواب: ہم مسلمان اللہ کو اس کائنات کا محض خالق و مالک ہی نہیں سمجھتے بلکہ حاکم بھی مانتے ہیں، اور حاکم کی حیثیت سے ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف اسی کا یہ حق ہے کہ ہمارے لیے وہ اپنی پیدا کردہ اشیاء (جن کے اندر خود ہمارا جسم اور اس کی قوتیں اور قابلیتیں بھی شامل ہیں) کے استعمال کا قانون اور ضابطہ بھی مقرر کرے۔ ہمارا یہ عقیدہ بھی ہے کہ وہ قانون اور ضابطہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہمیں دیا ہے۔ اس قانون کی رو سے اگر ہماری زندگی کے لیے اصول یہ بتایا گیا ہوتا کہ تمام ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں ہونے چاہئیں اور انفرادی ملکیت میں نہیں ہونے چاہئیں تو مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کی پابندی کرنا ہمارا فرض ہوتا اور ہمارے رسولؐ اور ان کے خلفائے راشدین نے پوری معاشی زندگی کو اجتماعی ملکیت میں چلا کر دکھایا ہوتا، تاکہ بعد کی نسلوں کے لیے وہ نمونہ بنے۔ لیکن جو شخص بھی قرآن اور سنت کو پڑھے گا اُسے یہ معلوم ہوجائے گا کہ نہ ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لینے کا کوئی تصور وہاں موجود ہے، اور نہ عہدِ رسالت اور عہدِ خلافتِ راشدہ میں ایسا کوئی نظام قائم کیا گیا تھا، بلکہ اس کے برعکس وہاں پوری معاشی زندگی کا نقشہ ایک پابندِ حدود آزاد معیشت کا نقشہ نظر آتا ہے جس میں ذرائع پیداوار کو افراد کی ملکیت میں رکھ کر تمیزِ حلال و حرام، انفاق فی سبیل اللہ، زکوٰۃ، وراثت، وصیت وغیرہ کے احکام دیے گئے ہیں۔ مزید برآں قرآن و سنت میں عبادات (جن کے اندر زکوٰۃ اور حج بھی شامل ہیں)، اخلاق، معاشرت اور سیاست و تمدن کا جو نظام پیش کیا گیا ہے، اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظام اجتماعی ملکیت کے بجائے انفرادی ملکیت کے ساتھ ہی مناسبت رکھتا ہے، اور اس نظام میں فرد کی اخلاقی و روحانی ترقی اس کے بغیر ہو نہیں سکتی کہ وہ اپنی معیشت میں آزاد ہو اور قانونی جبر کے بجائے اپنے دلی جذبے سے اپنی دولت کو خدا اور اس کے دین اور والدین اور رشتے داروں اور ہمسایوں اور سائل و محروم اور پورے معاشرے کے حقوق ادا کرنے میں صرف کرے۔ اس کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک طرف عہدِ رسالت سے لے کر اس دور تک تمام فقہاء اور محدثین اور مفسرین انفرادی ملکیت ہی کا تصور پیش کررہے ہیں، اور دوسری طرف اجتماعی ملکیت کے نظام کا یہ نیا تصورِ ملکیت مغرب کے کچھ ایسے لوگوں نے پیش کیا ہے جو نہ صرف یہ کہ خدا اور رسولؐ کی طرف رہنمائی حاصل کرنے کے لیے رجوع نہیں کرتے، بلکہ سرے سے خدا اور رسالت کے منکر ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ استحصال کرنے والے طبقوں نے اپنی اغراض کے لیے خدا اور رسالت اور وحی کا افسانہ گھڑا ہے تاکہ غریب عوام کو افیون کھلا کر سلادیں اور جو پیداواری نظام ان کی اغراض کے لیے مفید ہے اس کو مذہبی سند فراہم کریں۔ اب آخر یہ بات کوئی عقل مند کیسے تصور کرسکتا ہے کہ قرآن کا اصل منشاء ان لوگوں نے سمجھا ہو اور عہدِ رسالت سے لے کر آج تک پوری امت قرآن کے اس منشاء تک پہنچنے میں ناکام رہی ہو؟
سوال نمبر 15: پاکستان میں اُن لوگوں کی تعداد کیا ہوگی جو سوشلزم اور کمیونزم کے لیے مخفی و جلی کوششوں میں سرگرمِ کار ہیں؟
جواب: آپ کے اِس سوال کا جواب اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کم از کم جلی گوشوں میں ان لوگوں کی مردم شماری ہوجائے اور مخفی گوشوں میں ان کی تلاش و جستجو کرکے ان کی تعداد معلوم کی جائے۔ رہا اندازہ اور تخمینہ، تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اصلی سوشلسٹ اور کمیونسٹ جو سوچ سمجھ کر علمی حیثیت سے مطالعہ کرنے کے بعد اس فلسفے پر ایمان لائے ہوں، ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ زیادہ تر جو لوگ ان کے بھرّے میں آکر اشتراکیت کا دم بھرتے ہیں وہ چار قسموں پر مشتمل ہیں۔ ایک وہ جو فیشن کے طور پر ہر نئے نعرے کے پیچھے دوڑنے والے ہیں۔ دوسرے وہ جنہوں نے مجمل طور پر بس یہ سمجھ لیا ہے کہ موجودہ سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام کی زیادتیوں سے نجات کا مجرب نسخہ وہ سوشلزم ہے جو معاشی مساوات کا نعرہ بلند کرتا ہے۔ تیسرے وہ جو دراصل اسلام کی اخلاقی قیود سے آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ چوتھے مزدوروں اور کسانوں وغیرہ کا وہ عنصر جسے کمیونسٹوں نے یہ سبز باغ دکھایا ہے کہ ان کی رہنمائی میں توڑپھوڑ اور گھیرائو جیسے ہتھکنڈے استعمال کرکے وہی کارخانوں اور زمینوں کا مالک ہوجائے گا، لیکن اس بات سے وہ بے چارا بے خبر ہے کہ یہ سبز باغ آخرکار کالا باغ ثابت ہوگا۔ یہ چاروں طبقے بھی بہ حیثیتِ مجموعی ہمارے معاشرے میں ایک بہت ہی چھوٹی اقلیت ہیں۔ عام مسلمان خواہ اپنے اعمال میں کیسا ہی بگڑا ہوا ہو، بہرحال وہ ان دینی تعلیمات اور اقدار پر یقین رکھتا ہے جو اسے اللہ اور اس کے رسولؐ سے ملی ہیں۔ خود مزدوروں اور کسانوں کی اکثریت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
سوال نمبر16: کیا یہ واقعہ نہیں کہ ملک کا نشریاتی، اطلاعاتی اور مطبوعاتی نظام بڑی حد تک لادین عناصر باالفاظِ دیگر Fellow Travellers کے ہاتھ میں رہا ہے، اور انہوں نے ہماری نئی پود کے ذہن میں تہذیبی انتشار اور دینی تنفر پیدا کیا ہے؟
جواب: مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے اور اس پر میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ ہمارے ملک کا غیراسلامی تعلیمی نظام بھی اس میں مددگار ثابت ہورہا ہے۔
سوال نمبر 17: آپ باور کرتے ہیں کہ کسی کو اس غرض سے غیرملکی امداد مل رہی ہے؟
جواب: میرے پاس یہ معلوم کرنے کے ذرائع نہیں ہیں کہ ان لوگوں کو کوئی غیرملکی امداد مل رہی ہے یا نہیں۔ میں کسی ذریعے و علم کے بغیر کسی پر کوئی الزام لگانے کا عادی نہیں ہوں۔
سوال نمبر 18: اس الزام کا مصنف اور محرک کون ہے کہ جماعت اسلامی کو امریکہ امداد دے رہا ہے؟ اس کے پس منظر، پیش منظر اور تہہ منظر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب: یہ الزام ہمارے اوپر ایک مدت سے لگایا جارہا ہے اور اس کا مصنف اور محرک کوئی ایک نہیں ہے بلکہ مختلف گوشوں سے یہ الزام اُن تمام لوگوں نے لگایا ہے جنہیں ہماری وہ کوششیں ناگوار ہیں جو اسلامی نظام قائم کرنے کے لیے ہم 29 سال سے کررہے ہیں۔ وہ ہر جھوٹے سے جھوٹا الزم لگانے کے لیے آزاد ہیں، کیونکہ انہیں اس امر کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے کہ کوئی الزام کسی پر لگانے کی بازپرس بھی کہیں ہوتی ہے اور کوئی خدا بھی ہے جس کے سامنے ان کو کبھی اپنے اقوال و اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔ ان کے لیے یہ بالکل حلال ہے کہ کسی شخص یا گروہ کو نیچا دکھانے کے لیے جو الزام بھی کارگر ہوتا نظر آئے، بے تکلف لگادیں، قطع نظر اس سے کہ اس کی کوئی بنیاد ہو یا نہ ہو۔ اب سے چند سال پہلے جب خان حبیب اللہ خان اُس وقت کے وزیر داخلہ نے عَلانیہ یہ الزام ہم پر لگایا تھا اس موقع پر میں نے ڈھاکہ میں تقریر کرتے ہوئے چند باتیں کہی تھیں جن کو یہاں دہرا دینا میں کافی سمجھتا ہوں۔ میں نے اس تقریر میں کہا تھا:
’’ایک ملک کے ذمہ دار وزیر کے لیے یہ نہایت شرمناک بات ہے کہ وہ بغیر کسی ثبوت کے اپنے ملک کی کسی جماعت یا کسی شخص کے بارے میں اس طرح کا الزام لگائے۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ اگر کسی کے پاس اس کا کوئی ذرہ برابر بھی ثبوت ہے تو وہ لے کر آئے، کسی عدالت میں پیش کرے اور اس الزام کو ثابت کرے‘‘۔
یہ بات میں نے 24 نومبر 1963ء کو ڈھاکہ میں پلٹن میدان کے ایک جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہی تھی، اور یہ تقریر اُسی زمانے میں ڈھاکہ کی جماعت اسلامی نے پمفلٹ کی شکل میں شائع بھی کردی تھی۔ اس میں یہ چیلنج میں نے اس بنا پر دیا تھا کہ ملک میں پولیٹکل پارٹیز ایکٹ موجود تھا اور اب بھی موجود ہے، جس کی رو سے کوئی ایسی پارٹی اس ملک میں ازروئے قانون کام نہیں کرسکتی جو کسی بیرونی طاقت سے مدد لیتی ہو۔ نیز میں نے یہ چیلنج وزیر داخلہ کو دیا تھا کیونکہ اُن سے زیادہ کسی کے پاس بھی ایسے ذرائع موجود نہیں ہوسکتے تھے کہ اس الزام کو ثابت کریں اگر اس کی کوئی حقیقت ہو۔ آگے چل کر اس تقریر میں مَیں نے یہ بھی کہا تھا:
’’میری نظر میں یہ الزام نہ صرف شرمناک ہے بلکہ یہ ملک کی آبرو مٹادینے والی چیز ہے۔ دنیا کی قومیں سوچیں گی کہ پاکستان کے لوگ ایسے ہیں کہ ان کے اندر ہر ایک بکائو مال ہے، باہر کی جو قوم چاہے ان کے ہاں کی کسی جماعت کو خرید لے یا کسی لیڈر کا سودا کرلے۔ کیا یہ ملک کی عزت کو خاک میں ملادینے والی بات نہیں ہے کہ آپ ساری دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں سارے کے سارے بکائو مال ہیں اور غیروں کو یہ امید دلاتے ہیں کہ وہ یہاں آکر لوگوں کو خریدتے پھریں؟ میں پوچھتا ہوں کہ اگر باہر کے لوگ مجھ کو اور جماعت اسلامی کو خرید سکتے ہیں تو آخر جناب نے کیوں نہ خرید کر دکھادیا؟ اس سولہ سال کی مدت میں کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھے یا جماعت اسلامی کو خرید سکا ہے۔ بہت سے بکائو مال اس ملک میں پڑے ہوئے ہیں جو حکمرانوں کے ہاتھ بکے ہیں، اور سب کو معلوم ہے کہ کون کون بکے ہیں، لیکن جماعت اسلامی خدا کے فضل سے آج تک کسی کے ہاتھ نہیں بکی ہے۔ اگر جماعت اسلامی کو باہر کے لوگ خرید سکتے تھے تو سب سے پہلے گھر والے کیوں نہیں خرید کر دکھادیتے؟‘‘
جو کچھ میں نے اس تقریر میں کہا تھا وہی آج بھی کہتا ہوں۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ جسے نہ خدا کی شرم ہو، نہ خلق کی، اس کی زبان دنیا میں کون بند کرسکتا ہے!
سوال نمبر 19: ہمارے ملک کے کچھ لیڈر عدم تشدد پر یقین نہیں رکھتے اور کھلے بندوں تشدد کی تلقین کرتے اور خانہ جنگی کی دھمکیاں دے رہے ہیں، ہم ان سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں؟ کیونکر؟
جواب: ہم ان سے صرف اسی طرح عہدہ برآ ہوسکتے ہیں کہ عوام اور تعلیم یافتہ لوگوں کے خیالات درست کریں اور اسلام اور غیراسلام کا فرق واضح طور پر انہیں سمجھائیں۔
سوال نمبر 20: جماعت اسلامی میں اتنی طاقت ہے کہ ان کا مقابلہ کرسکے؟
جواب: جماعت اسلامی نے کبھی اپنی طاقت پر بھروسہ نہیں کیا، اس کا بھروسہ ہمیشہ سے اللہ اور اس کے دینِ حق کی طاقت پر ہے۔
سوال نمبر 21: ایسا ممکن ہے کہ اسلام پسند طاقتیں اکٹھی ہوں؟
جواب: یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ ایسا ہونا چاہیے۔ اگر اِس وقت وہ اکٹھے نہ ہوئے تو پھر اور کون سا وقت آئے گا، جب وہ اکٹھے ہوں گے!
سوال نمبر 22: ممکن ہے تو ان کے اتحاد کی صورت کیا ہوگی؟
جواب: اتحاد کی عملی صورتیں بہت سی ہوسکتی ہیں جن کو باہمی مشورے سے اختیار کیا جاسکتا ہے، لیکن شرطِ اوّل یہ ہے کہ جو لوگ بھی یہاں اسلام چاہتے ہیں وہ اخلاص کے ساتھ صرف اسلام اور خالص اسلام کی سربلندی کے لیے متحد ہوں اور اپنے شخصی اور گروہی تعصبات کو خدا اور اس کے دین کی خاطر دل سے نکال دیں۔
سوال نمبر 23: کیا یہ واقعہ نہیں کہ پاکستان میں اسلام دوستوں کی بے پناہ اکثریت ہے لیکن ان میں اتفاق نہیں۔ اتفاق نہ ہونے کا باعث کیا ہے؟ کیا انہیں کوئی طاقت استعمال کررہی ہے یا ان کی اپنی نظر فروعات میں الجھی ہوئی ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور سبب ہے؟
جواب: اتفاق نہ ہونے کے بہت سے اسباب ہیں۔ کچھ لوگوں کی نظر فروعات میں الجھی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ طرح طرح کے تعصبات میں مبتلا ہیں۔ کچھ لوگ اسلام کے معاملے میں پوری طرح مخلص نہیں ہیں اور اسلام کے ساتھ غیراسلام کا جوڑ لگانا مناسب یا ضروری سمجھتے ہیں لیکن صاف صاف اس کو ظاہر کرنے سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ رہا آپ کا یہ سوال کہ کیا کسی گروہ کو کوئی طاقت استعمال کررہی ہے، تو اس کے بارے میں میرے پاس کوئی ذریعۂ معلومات نہیں ہے، اور میں قرآن کے اس ارشاد پر ایمان رکھتا ہوں کہ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْم’‘
سوال نمبر 24: مغربی اور مشرقی پاکستان میں کمیونسٹوں کے اثرات کا سرچشمہ کہاں ہے؟ یعنی وہ کون کون سے ادارے، گوشے اور کمین گاہیں ہیں جہاں سے انہیں نشوونما پانے کی آب و ہوا میسر آرہی ہے؟
جواب: برصغیر ہند و پاکستان میں ظاہر ہے کہ کمیونزم باہر سے آیا ہے۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ دنیا میں متعدد ملک ایسے ہیں جن کے اندر کمیونسٹ نظام قائم ہے، اور کم از کم دو بڑی طاقتیں ایسی ہیں جو تمام دنیا میں کمیونزم کو پھیلانے اور کمیونسٹ انقلاب برپا کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس بات سے بھی کوئی ناواقف نہیں ہے کہ غیرکمیونسٹ ممالک میں جہاں بھی کمیونسٹ بالائے زمین یا زیرزمین کام کررہے ہیں ان کو پارٹی لائن باہر ہی سے ملتی ہے جس کے مطابق ان کی پالیسیاں بنتی اور بدلتی ہیں۔ اس کے بعد میں اب آپ کو کیا بتائوں کہ ہمارے ملک میں کمیونزم کے اثرات کا سرچشمہ کہاں ہے؟
سوال نمبر 25: آپ کو معلوم ہے کہ کمیونسٹ ہر کہیں اقلیت میں ہوتے ہیں۔ اشتراکی انقلاب کے لیے عوام کے اذہان میں تنفر پیدا کرتے، ملک میں بدامنی پھیلاتے، نوجوانوں کو نعروں کی دلفریبی سے مسحور کرتے، بڑے بڑے تصادمات کی راہ کھولتے، ملک کی حکومت سے جمہوری عناصر کو مرواتے، ان پر قاتلانہ حملے کرواتے، ان کے اداروں کو تاراج کرتے، جھوٹ بولتے، جھوٹ پھیلاتے، جھوٹ کو سچائی کا لبادہ اوڑھا کر ایک زبردست بحران پیدا کرتے اور تب حکومت پر قابض ہوکر اپنی سیادت کا نقش جماتے ہیں۔ ان کی جارحانہ اقلیت ہمیشہ اسی رنگ ڈھنگ سے کسی ریاست پر قبضہ کرتی اور اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد مخالفوں کا قتل عام کرتی ہے۔ یہی فضا یہاں پیدا کی جارہی ہے۔ پاکستان میں کوئی لیڈرشپ یا کوئی تنظیم اتنی طاقتور ہے جو ان کا مقابلہ کرسکے؟
جواب: پاکستان میں کوئی لیڈر شپ یا کوئی تنظیم ان کے مقابلے کی طاقت رکھتی ہے یا نہیں، اس کے بارے میں تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن میرا خیال یہ ہے کہ پاکستان کے عام مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے اثرات اتنی گہری جڑوں سے جمے ہوئے ہیں کہ اِن شاء اللہ یہاں کمیونسٹوں کے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ میں نے دنیا کے مختلف مسلمان ممالک کا مطالعہ کیا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ تین ملک ایسے ہیں جن میں اسلام کے اثرات کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں اور ان کا مقابلہ کمیونسٹ اپنے کسی ہتھکنڈے سے نہ کرسکیں گے۔ ایک پاکستان، دوسرے ترکی، اور تیسرے سوڈان۔
سوال نمبر 26: اسلام پسند انقلابی طاقتوں کو جو اس ملک میں واقعی اسلام لانا چاہتی ہیں، کن طریقوں سے لادین عناصر کی اس کھیپ کا مقابلہ کرنا چاہیے؟
جواب: اسلام پسند انقلابی طاقتیں جو اس ملک میں واقعی اسلام لانا چاہتی ہیں، ان کا مزاج چونکہ اسلامی ہے، اور اسلام زور زبردستی یا زیرِزمین کام کرنے کے بجائے تبلیغ و تلقین کے ذریعے کھلم کھلا اصلاحِ حق کی کوشش کرنے کا طریقہ بتاتا ہے، اس لیے وہ ہر بے دین تحریک کا مقابلہ انہی طریقوں سے کریں گی، اور ہمیں یقین ہے کہ آخرکار یہی طریق کار کارگر ثابت ہوگا۔ اگر ہم اپنے ملک کے عوام اور خواص کی عام رائے کو اس بات پر مطمئن کردیں کہ ان کے تمام مسائل کا بہترین حل اسلام میں موجود ہے اور دوسرے تمام طریقے ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے اور زیادہ الجھا دینے والے ہیں تو کوئی طاقت انہیں گمراہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے گی اور کسی طاقت کی زبردستی بھی نہ چل سکے گی۔
سوال نمبر 27: کیا یہ ممکن ہے کہ اشتراکیوں کی ذہنی یلغار کے مقابلے میں وہ تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوجائیں جو اسلام کے وسیع تر حلقے میں ہیں، اور جن کے سامنے نظریۂ پاکستان کی اساس ہے؟
جواب: جی ہاں یہ ممکن ہے، اور نہ صرف ممکن ہے بلکہ ایسا ہونا چاہیے۔
سوال نمبر28: کیا یہ ضروری نہیں کہ ہم تعلیمی اداروں، نشریاتی شعبوں اوراخباری تنظیموں سے کمیونسٹوں کے اخراج پر زور دیں تاکہ ہماری نئی نسل کو وہ ان ذرائع سے گمراہ نہ کرسکیں؟
جواب: جی ہاں یہ ضروری ہے۔ ان لوگوں کا عمل دخل مذکورہ بالا اداروں میں جس حد تک رہا ہے، اس کے بدترین نتائج پچھلے دنوں ہمارے سامنے آچکے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر اس مرض کے علاج کی فکر نہ کی گئی تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ آگے اور کن نتائج سے ہمیں دوچار ہونا پڑے گا۔
سوال نمبر 29: سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کی متشددانہ کارروائیوں، خانہ جنگی کو ہوا دینے والی تقریروں اور بیانوں کے سدباب کا طریق کیا ہے؟ ان سے کیونکر نپٹا جائے؟ واضح رہے کہ کمیونسٹوں کے نزدیک اخلاق اور اس کے ضوابط کوئی معنی نہیں رکھتے۔ صداقت محض ایک مفروضہ ہے۔
جواب: ہم تشدد کے مقابلے میں تشدد اختیار کرنے کو صحیح نہیں سمجھتے، کیونکہ اس سے وہ مقصد آپ سے آپ پورا ہوجائے گا جوخانہ جنگی کی دعوت دینے والوں کے پیش نظر رہا ہے۔ ہمارے نزدیک اسلام کی حامی طاقتوں کو صرف مدافعت پر اکتفا کرنا چاہیے جس کا انہیں بہرحال حق حاصل ہے، اور ان کی زیادتیوں کا جواب تشدد سے دینے کے بجائے ملک کی عام رائے کو جمہوری طریقوں سے اسلام کے حق میں ہموار کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔
سوال نمبر 30: اس ملک میں کارخانے داروں اور جاگیرداروں کی اجتماعی ذہنیت کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟
جواب: افسوس ہے کہ ان کی اجتماعی ذہنیت اسلام کی راہ سے منحرف ہے۔ جن اسباب نے اس ملک میں غیراسلامی نظریات کے فروغ کی راہ ہموار کی ہے اس میں بہت بڑا حصہ انہی لوگوں کی غلط روش کا ہے۔
سوال نمبر 31: اس لیڈر شپ سے جو ملک کے جمہوری محاذ سے پیدا ہوئی، کیا آپ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی نظریاتی سرحدوں کو تحفظ دے سکتی ہے؟
جواب: اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کو تحفظ صرف وہی لیڈرشپ دے سکتی ہے جو اخلاص اور صحیح فہم و ادراک کے ساتھ اسلام کے برحق ہونے کا یقین بھی رکھتی ہو اور یہ بھی سمجھتی ہو کہ اسلام اور صرف اسلام ہی پاکستان کے وجود میں آنے کا اصل سبب ہے، اسی کی بدولت ایک ہزار میل کا فاصلہ ہونے کے باوجود اس ملک کے دونوں بازو ایک ملک بنے ہیں، وہی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اصل حدِّ فاصل ہے اور اسی کی روحِ جہاد تھی جس نے اس عظیم خطرے سے ملک کو بچایا جو 1965ء کی جنگ میں پیش آیا تھا۔