فیصل آباد:مہنگائی کے خلاف جماعت اسلامی کا مظاہرہ

آبادی اور کاروبار کے لحاظ سے فیصل آباد ملک کا ایک بڑا صنعتی شہر ہے، مگر یہ شہر ہر حکومت کے دور میں نظرانداز رہا۔ آبادی میں مسلسل اضافے کے باعث چاہیے تو یہ تھا کہ شہر کی منصوبہ بندی کے لیے کوئی لائحہ عمل بنایا جاتا، مگر کسی بھی صوبائی اور مرکزی حکومت کے دور میں شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا فیصل آباد تجاوزات کی زد میں آکر کہیں کھو گیا ہے۔ آٹھ بازاروں کا یہ شہر نقشے کے اعتبار سے تو انتہائی خوبصورت ہے، مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس کی تنظیمِ نو پر توجہ نہیں دی جارہی، کسی کو بھی احساس نہیں کہ یہ شہر کس قدر تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے شہر کے مرکزی میدان دھوبی گھاٹ کو جلسے کے لیے لوگوں سے بھرنا ایک چیلنج ہوا کرتا تھا، اب تو دھوبی گھاٹ تجاوزات کی نذر ہوکر سگریٹ کی ڈبیا سے بھی چھوٹا ہوگیا ہے۔ شہر کی آبادی بڑھی ہے تو ٹریفک بھی بڑھ گیا ہے، شہر کے آٹھوں بازار، سرکلر روڈ سمیت چھوٹی آبادیوں سے مرکزِ شہر آنے والی ہر سڑک پر تجاوزات ہیں… اور ٹریفک ایک جانب، تجاوزات کے باعث فٹ پاتھ غائب ہوجانے سے پیدل چلنا مشکل اور دشوار ہوگیا ہے۔ یہ شہر چونکہ کپڑے کے کارخانوں کے لیے مشہور تھا، اور ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کپڑے کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی ایک بہت بڑی تعداد ٹی بی اور دمہ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوئی، رہی سہی کسر آلودگی اور ٹریفک کے دھویں نے پوری کردی ہے۔ شہر میں ایک ٹی بی ہسپتال ہے جو گرد و غبار اور آلودگی میں گھرا ہوا ہے، ایسے میں ٹی بی اور دمہ کے مریض کیسے تندرست ہوسکتے ہیں! این جی اوز ہوں، سیاسی جماعتیں ہوں یا شہری تنظیمیں… سب خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں سلطان دائودی نے انجمن بہبودِ مریضاں بنائی ہوئی تھی، وہ ہر سال عید کے موقع پر مریضوں میں پھول اور مٹھائی تقسیم کیا کرتے تھے، اب عرصہ ہوا کہ اُن کے انتقال کے بعد کوئی ایسی سرگرمی نہیں دیکھی گئی۔ شہر کی آج کی نسل کو سلطان دائودی کے نام سے بھی کوئی واقفیت نہیں ہوگی۔ ضیاء الحق کے دور میں شہر کا نام لائل پور سے تبدیل کرکے فیصل آباد رکھا گیا تو فیصل آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی بھی قائم کی گئی، بریگیڈیئر اسداللہ اس کے سربراہ تھے، سعودی عرب نے اُس وقت شہر کی تعمیرو ترقی کے لیے ایک بہت بڑا فنڈ دیا تھا۔ یہ فنڈ کہاں لگا؟ کسی کو علم نہیں۔ البتہ ایف ڈی اے کی پارکنگ نئی گاڑیوں سے بھر گئی تھی۔ یہاں محمود بٹ ڈپٹی کمشنر گزرے ہیں، بہت ہی فرینڈلی شخصیت تھے، ان کے بعد اب ڈپٹی کمشنر چودھری محمد علی شہر پر بہت توجہ دے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ڈپٹی کمشنر علی شہزاد نے شہر بھر کا طویل دورہ کیا اورشہریوں کو محکمہ مال کی سروسزکی فراہمی کے عمل، پارکنگ پلازہ کی تعمیر کے امور، پروین شاکر کمپلیکس میں سہولیات،گورنمنٹ جنرل ہسپتال حسیب شہید کالونی کی اپ گریڈیشن، سرفس واٹر ٹریٹمنٹ پراجیکٹ کے تحت پینے کے پانی کی فراہمی، جی او آر تھری کی مجوزہ سائٹ اور سدھار منڈی میں سبزیوں و پھلوں کی بولیوں کے عمل کی مانیٹرنگ کی۔ ڈپٹی کمشنر نے بیرون چنیوٹ بازار پارکنگ پلازہ کی تعمیر کے مقام کا دورہ کیا اور منصوبے کی تازہ ترین پیش رفت پر بریفنگ لی۔ انہوں نے متعلقہ محکموں سے پارکنگ پلازہ کی فائلیں طلب کی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے پروین شاکر کمپلیکس کا تفصیلی دورہ کیا اور صفائی کی صورت حال چیک کی، اور گورنمنٹ جنرل ہسپتال حسیب شہید کالونی کا دورہ کرکے آؤٹ ڈور مریضوں کو فراہم کی جانے والی طبی سہولیات چیک کیں۔ انہوں نے سبزی منڈی سدھار کا بھی دورہ کیا۔ یہ منڈی کسی زمانے میں شہر میں ڈگلس پورہ کے قریب ہی ہوتی تھی،1993ء کے قریب اسے شہر سے باہر منتقل کیا گیا تھا۔
شہر میں دوسری بڑی سیاسی سرگرمی جماعت اسلامی کی جانب سے مہنگائی کے خلاف مظاہرہ تھا۔ اس مظاہرے کی اپیل جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کی تھی۔ جماعت اسلامی فیصل آباد شہر کے امیر اور دیگر رہنمائوں نے مظاہرے کی قیادت کی۔
پروفیسر محبوب الزماں بٹ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کا عدلیہ، الیکشن کمیشن اور میڈیا پر بیک وقت وار بدترین آمریت کی نشانی ہے، اداروں سے تصادم کی پالیسی سابق حکمرانوں کی طرح عمران حکومت کے بھی گلے کی ہڈی ثابت ہوگی۔
جڑانوالہ میں سابق چیئرمین مارکیٹ کمیٹی اسد نواز کلیار کی رسم چہلم ہوئی جس میں سابق گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر، سابق وزیر مملکت طلال چودھری، سرفراز تارڑ، طاہر حبیب، رائے شہباز کلیار، سابق ایم پی اے رائے عثمان کھرل ، رائے شاہ جہاں کھرل، رائے اعجاز کھرل اور رائے احمد حیات خان کلیار، علی نوازکلیار، ملک شاہد اقبال اعوان، سہیل کھٹانہ، میاں قاسم فاروق، رائے خالد کلیار نے شرکت کی۔ آخر میں مرحوم کے بیٹے رائے اویس بہاول کلیار اور رائے مراد شیر کلیار کی دستار بندی کی گئی۔
اس شہر کے بارے میں ایک ایسی اطلاع ہے جس کا ماضی میں کبھی تصور تک نہیں تھا، فیصل آباد میں عدالتی ریکارڈ کے مطابق اِس سال اب تک پچیس سو شادیاں کورٹ میرج کے ذریعے ہوئی ہیں، فیصل آباد میں ایسی تبدیلی ماضی میں کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔