حکومت فوج کی ہو یا سیاسی جماعتوں کی ملک پر چند خاندان قابض

گوجرانوالہ کراچی اور فیصل آباد کے بعد پاکستان کا تیسرا بڑا صنعتی شہر ہے، اور قومی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ پانچ فی صد کے برابر ہے۔ اسے پہلوانوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ سماجی کلچر یہ ہے کہ یہاں کے لوگ کھانوں کے بہت شوقین ہیں۔ سیاسی لحاظ سے یہ ہمیشہ دائیں بازو کی قوتوں کا شہر رہا ہے۔ تاہم پیپلزپارٹی کا بھی یہاں ووٹ بینک رہا ہے۔ اب مسلم لیگ(ن) کا زور ہے، مگر کنٹونمنٹ بورڈ کے حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار یہاں سے زیادہ تعداد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ملک کے بہت سے نامور علمائے کرام کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ یہ شہر جی ٹی روڈ پر واقع ہے، اور یہاں کا چاول اور گندم دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ تاریخی طور پر یہ شہر جلیانوالہ باغ میں ہونے والے خونیں تصادم کے خلاف ایک بڑا مزاحمتی مرکز بن کر سامنے آیا تھا، اور مزاحمت روکنے کے لیے یہاں انگریز سرکار نے بہت ظلم کیے تھے۔ شہر میں کشمیری، آرائیں اور جاٹ کے علاوہ راجپوت سمیت دیگر برادریاں آباد ہیں۔ ماضی میں یہاں پیپلزپارٹی اور پاکستان قومی اتحاد نے بڑے تاریخی جلسے کیے ہیں، آج بھی یہ شہر سیاسی سرگرمیوں سے خالی نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق تین روزہ دورے پر گوجرانوالہ پہنچے۔ یہ دورہ شہر کی سب سے بڑی سیاسی سرگرمی تھی۔ اپنے دورے کے دوران امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے تاجروں، کھلاڑیوں، جماعت اسلامی کے کارکنوں، مزدوروں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کی۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام کھیالی میں پیرا اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والے حیدر علی اور پہلوانوں کے اعزاز میں تقریب ہوئی جس میں سراج الحق مہمانِ خصوصی تھے۔ انہوں نے انٹرنیشنل پلیئرز کے اعزاز میں ناشتے کی تقریب میں شرکت کی اور گفتگو کرتے ہوئے ملک میں کھیلوں کی سرگرمیوں کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی جانب سے دورئہ پاکستان منسوخ کرنے کے اقدام پر انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے انڈیا اور امریکہ کی سازش قرار دیا، انہوں نے اس امر پر بھی دکھ کا اظہار کیا کہ ملک کا وزیراعظم ایک کھلاڑی ہے، مگر اس کے دورِ اقتدار میں دوسرے شعبوں میں تو کیا، کھیلوں میں بھی کوئی بہتری نہیں آئی۔ ملک میں کرپشن کا راج ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ ایک عام مزدور اور شاہ محمود قریشی ایک جیسا ٹیکس دیتے ہیں! پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی میں کوئی فرق نہیں۔ سراج الحق نے کہا کہ مفادات کے اسیر اور محلات کے مقیم حکمران عوامی مسائل کا ادراک کرنے اور انھیں حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں، ملکی معیشت اور اداروں کو برباد کرنے والوں کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ حکمران اشرافیہ کا یوم حساب قریب آگیا، وزیراعظم بتائیں ایک کروڑ نوکریاں کس کو دیں اور پچاس لاکھ گھر کہاں تعمیر کیے؟ مدینہ کی ریاست کدھر ہے اور تبدیلی کے نعروں کا کیا بنا؟ عوام مزید مہنگائی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ حکومت قوم کو مزید امتحان میں مبتلا نہ کرے۔ معیشت کو سود سے آزادی اور آئی ایم ایف سے چھٹکارا دلائے بغیر چارہ نہیں۔ حکومت فوری طور پر اشیائے خورونوش، ادویہ، پیٹرول، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کم از کم 35سے 50فیصد کمی کرے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ سرمایہ داروں، وڈیروں، چودھریوں، جاگیرداروں کو آئندہ الیکشن میں مسترد کردیں، جماعت اسلامی کو ووٹ دیں، ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اللہ کی تائید و نصرت اور لوگوں کے اعتماد سے ملک کو ترقی کے راستے پر ڈالیں گے۔ سراج الحق نے گوجرانوالہ میں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف مظاہرے سے بھی خطاب کیا۔ گوجرانوالہ میں عوامی اجتماع سے نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر ابراہیم، سیکریٹری جنرل امیرالعظیم، امیر صوبہ پنجاب وسطی جاوید قصوری و دیگر قائدین نے بھی خطاب کیا۔ سراج الحق نے گوجرانوالہ میں مزدور کنونشن سے بھی خطاب کیا اور کہاکہ مزدور کی کم از کم تنخواہ میں مزدور تنظیموں کے مطالبات کے مطابق اضافہ کیا جائے، پرائیویٹ سیکٹر میں کام کے اوقات طے کیے جائیں، مزدوروں کی سوشل سیکورٹی اور دیگر مراعات کو یقینی بنایا جائے۔ دورانِ کام جاں بحق ہونے والے مزدوروں کے بچوں اور فیملی کی نگہداشت کے اقدامات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، مگر سرمایہ دار حکمرانوں نے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی۔ پی ٹی آئی کے دور میں مزدور، چھوٹے کسان، چھوٹے تاجر، دہاڑی دار طبقہ مکمل طور پر پس کر رہ گئے ہیں، جماعت اسلامی ملک بھر کے مزدوروں اور دیگر طبقات کو منظم اور متحد کرے گی۔ انہوں نے شرکاء سے اپیل کی کہ وہ فلاحی اسلامی پاکستان کے قیام کے لیے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر جدوجہد کریں۔ سراج الحق نے گوجرانوالہ میں پی پی 57میں الیکشن آفس کا افتتاح کیا اور جماعت اسلامی کے کارکنان کو ہدایات دیں کہ وہ پورے عزم اور ہمت کے ساتھ قرآن و سنت کا پیغام لوگوں تک پہنچائیں اِن شاء اللہ الیکشن میں سرپرائز دیں گے، جماعت اسلامی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اہل اور دیانت دار قیادت کو آگے لائے گی اور نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جائیں گے۔ سراج الحق نے اپنے دورے کے دوران الخدمت فاؤنڈیشن کے زیراہتمام یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت کے لیے آغوش سینٹر کا بھی افتتاح کیا، اور الخدمت کی فلاحی سرگرمیوں کی تعریف کی۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ محدود ذرائع کے باوجود جماعت اسلامی ملک و قوم کی خدمت جاری رکھے گی، جماعت اسلامی معاشرے کی تشکیل قرآنی تعلیمات کے مطابق کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کررہی ہے، ہمارا یہ عزم ہے کہ پاکستان کو وہ منزل دلوائیں گے جس کی خاطر اسلامیانِ برصغیر نے قائداعظم کی رہنمائی میں قربانیاں دیں اور جدوجہد کی۔ انہوں نے کہا کہ حکمران طبقہ یہ جان لے کہ عوام ان سے تنگ آچکے ہیں۔ اب لوگوں کو مزید بے وقوف نہیں بنایا جا سکے گا۔ وقت بدل گیا، اِن شاء اللہ فتح حق اور سچ کی ہوگی اور اللہ کا نظام اللہ کی زمین پر قائم ہوگا۔ انہوں نے جے آئی یوتھ کے زیراہتمام گوجرانوالہ میں یوتھ کنونشن اور گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کیا۔ امیر وسطی پنجاب مولانا جاوید قصوری، امیر ضلع مظہر اقبال رندھاوا، صدر جے آئی یوتھ پاکستان زبیر گوندل، صدر وسطی پنجاب جبران بٹ، صدر ضلع گوجرانوالہ بشارت صدیقی بھی اس موقع پر موجود تھے۔
سراج الحق کی دوسرے روز کی مصروفیات میں عزمِ نو کنونشن اور علماء کنونشن میں شرکت اور خطاب تھا۔ انہوں نے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا اور بعدازاں جمعیت طلبہ عربیہ کے قائدین اور کارکنان سے ملاقات کی۔ سراج الحق نے کہا کہ صاحبانِ اقتدار یوم حساب کو مت بھولیں۔ قوم اشرافیہ کی جانب سے زیادتیوں کا بدلہ ووٹ کی طاقت سے لے گی۔ نوجوان ملک کو بوسیدہ نظام سے چھٹکارا دلانے کے لیے پُرامن جمہوری جدوجہد کا آغاز کریں۔ ہم ملک بھر میں نوجوانوں کو منظم کررہے ہیں۔ مینارِ پاکستان پر ایک لاکھ سے زیادہ نوجوان اکٹھے کرکے ملک میں اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھیں گے۔ مشکلات ضرور ہیں مگر اللہ پر بھروسا ہے، اِن شاء اللہ پاکستان عظیم ریاست بن کر ابھرے گا۔ سراج الحق نے مختلف اجلاسوں سے خطاب کرتے ہوئے ان عوامل کا ذکر کیا جن کی وجہ سے پاکستان آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی جانب جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قوم نے گزشتہ 73 برسوں میں مارشل لا، صدارتی و پارلیمانی نظاموں کے تجربات بھگت لیے۔ حقیقت میں چند خاندان ہی ملک پر قابض ہیں۔ یہ خاندان ملک پر اقتدار کی وراثت کو اگلی نسل میں منتقل کردیتے ہیں۔ عوام کو جان بوجھ کر وسائل اور ترقی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی میں بھی پاکستان کے ہزاروں دیہات بجلی، گیس، پانی کی بنیادی ضروریات تک سے محروم ہیں، اب عوام کو اور خصوصی طور پر نوجوانوں کو اپنے حق کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی، جماعت اسلامی کا پلیٹ فارم اس کے لیے سب سے بہترین پلیٹ فارم ہے۔ ہمارا ماضی اور حال سب کے سامنے ہیں، ہمارے پاس اہل اور ایمان دار لوگ ہیں اور ہمارا مقصد صرف اور صرف اسلامی فلاحی پاکستان کی منزل کا حصول ہے۔ اپنے دورے کے دوران انہوں نے علماء کنونشن سے بھی خطاب کیا اور حکمرانوں کو شعائر اسلامی کے خلاف قانون سازی کرنے سے باز رہنے کا مشورہ دیا، انہوں نے خبردار کیا کہ اسلامیانِ پاکستان اور جماعت اسلامی اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کرے گی۔ پاکستان کی اساس نظریاتی ہے، اس سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے علماء کو اتحادِ امت کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ عزمِ نو کنونشن میں امیر جماعت اسلامی نے نئے اراکین سے حلف لیا اور بزرگ ارکین جماعت اسلامی کی تحریک کے لیے خدمات اور پاکستان میں نظامِ اسلام کے لیے جدوجہد کو زبردست الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا۔ سراج الحق نے کارکنانِ جماعت اسلامی پر زور دیا کہ وہ اپنے علاقے میں ہر فرد پر محنت کریں اور اسے جماعت اسلامی کے پیغام سے روشناس کرائیں، جماعت اسلامی سے وابستہ افراد قوم میں امید کی شمع روشن کریں۔ اِن شاء اللہ جماعت اسلامی کی محنت رنگ لائے گی اور پاکستان عظیم اسلامی ریاست بنے گا۔ سراج الحق نے تاجروں کے وفود سے بھی ملاقات کی۔ اس موقع پر نائب امراء میاں محمد اسلم، پروفیسر محمد ابراہیم، امیر پنجاب وسطی جاوید قصوری اور امیر ضلع مظہراقبال رندھاوا بھی موجود تھے۔ سراج الحق نے تاجروں سے خطاب میں کہا کہ ملک قرضوں سے نہیں چلتے، اہل قیادت قوموں کو خود انحصاری کی منزل کی جانب لے کر جاتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات اور عوامی مفادات میں ٹکراؤ ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے قول و فعل میں بھی تضاد ہے۔ ان کے کرپشن کے خلاف مہم جوئی کے وعدے کو ہی دیکھ لیجیے، ملک آج بھی اس سرطان کی جکڑ میں ہے۔ مدینہ کی ریاست کی باتیں مگر سودی معیشت اور شعائرِ اسلامی سے متصادم قانون سازی۔ پی ٹی آئی نے عجیب ڈگر اپنائی ہے۔ اس حکومت کے دور میں تاجر طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ تین برسوں میں مافیائوں نے خوب پیسے بنائے ہیں، ایمان دار کاروباری حضرات کے کاروبار تباہ ہوگئے۔ ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے، اسٹاک ایکسچینج دبائو کی زد میں ہے۔برآمدات نہیں بڑھ رہیں۔ حکومت کو کورونا سے متاثرہ طبقات کو مکمل مراعات اور مختلف پیکیج دینا چاہیے تھے مگر نجانے کورونا فنڈز کے اربوں روپے کدھر گئے! حکومت ٹیکس اصلاحات کے لیے تاجر طبقے کی بات سنتی تو حالات بہتر ہوتے۔ مختلف محکمے بزنس مینوں کو ہراساں کرتے ہیں، یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ تاجر خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا۔ ہمارے مطالبات واضح ہیں: شفاف الیکشن، سود سے آزاد معیشت۔ ہم ملک کو کرپشن فری بنانا چاہتے ہیں۔ ہم تاجروں، کسانوں، مزدوروں سمیت ہر طبقے کو مستحکم کریں گے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی بڑی وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ حکومت نے پرائیویٹ سیکٹر اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے کبھی مشاورت نہیں کی۔ حکمران اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں۔ کشمیر ہو یا خارجہ پالیسی کی تشکیل.. معیشت ہو یا تعلیم.. صحت ہو یا پولیسنگ… ہر میدان میں حکومت ناکام ہوئی۔ پاکستان وسائل سے مالامال مگر ایسی ایلیٹ کے نرغے میں ہے جن کو بس اپنے مفادات عزیز ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں پر قابض یہ ٹولہ ملک کے وسائل اور قوم کے ارمانوں سے کھیل رہا ہے۔ ان کو مزید مہلت دینا ملک کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ ایک طرف دوفیصد طبقہ زندگی کی تمام سہولیات سے مالامال محلات میں مقیم ہے، جبکہ دوسری طرف کروڑوں عوام صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ سب کچھ ہونے کے باوجود حکمرانوں نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ بڑے بڑے منصوبوں میں اربوں کی کرپشن ہوتی ہے، ملک پر قرضوں کا ایک اور پہاڑ مسلط ہوجاتا ہے، اور یہی کچھ سالہاسال سے چل رہا ہے۔ اب اس سسٹم کو بدلنا ہوگا۔