پاکستان کی خارجہ پالیسی کا امتحان نئی عالمی جنگ کے خطرے کی گھنٹی

عالمی امن کے مرکز اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک نئی عالمی جنگ کے خطرے کی گھنٹی بجائی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے 76ویں سالانہ اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے خطرے کی نشان دہی کرتے ہوئے اپنی بے بسی کا بھی اظہار کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے وزیراعظم عمران خان سمیت عالمی سیاست کے بڑے بڑے کردار بنفس نفیس یا آن لائن مخاطب تھے۔ حالیہ اجلاس ماضی کی روایت سے مختلف ثابت ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹریس نے دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کردیا ہے: ’’چین اور امریکہ کے درمیان امکانی نئی سرد جنگ پہلے کے مقابلے میں زیادہ تباہ کن ہوسکتی ہے، پہلی سرد جنگ میں دونوں فریقوں کو ایٹمی تباہ کاری کے خطرات کا ادراک تھا، جبکہ فی الوقت بحران سے نمٹنے کا کسی کے پاس کوئی تجربہ نہیں۔ ہر قیمت پر سرد جنگ سے بچنا ہوگا، کیونکہ یہ ماضی سے مختلف ہوگی اور غالباً زیادہ خطرناک ہوگی، جسے سنبھالنا بہت مشکل ہوگا۔‘‘
غالباً یہ تنبیہ تائیوان کے معاملے پر کی گئی ہے جس پر چین کا اپنا مؤقف ہے۔ اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم سے روایات کے برعکس سیکرٹری جنرل کی امریکہ اور چین کو یہ وارننگ بہت غیر معمولی اور دنیا بھر کی حکومتوں، سفارتی دنیا اور عالمی امن واستحکام پر علمی و تحقیقی کاوشیں کرنے والے تھنک ٹینکس کے لیے بہت توجہ طلب ہے۔ عالمی سطح پر اس اہم ترین پیش رفت اور حقائق کے تجزیے کے لیے پاکستان کی پارلیمنٹ، حکومت اور دفتر خارجہ کی ذمے داریاں بڑھ گئی ہیں، مگر حالت یہ ہے کہ دفتر خارجہ میں پسند ناپسند کی بنیاد پر تقرریاں کی جارہی ہیں، اور پارلیمنٹ کا تو عالم یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے اس کے اجلاس کورم نہ ہونے کے باعث ملتوی کیے جاتے رہے۔ متعدد بار ایسا ہوا کہ ارکانِ اسمبلی کو اجلاس کے لیے اسلام آباد بلالیا گیا مگر اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ ہمارے ملک میں روایت یہی رہی ہے کہ حکومت کسی بھی سیاسی جماعت کی ہو، پارلیمنٹ کسی بھی خاکے میں رنگ بھرنے کے قابل نہیں سمجھی جاتی، اس کے ارکان کی اکثریت ترقیاتی فنڈز کے لیے پارٹی قیادت کی خوشامد کرتی رہتی ہے۔ پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کے امور پر بھرپور تجزیہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کے محلِ وقوع خوشحال معیشت کے لیے کیسے بروئے کار لایا جاسکتا ہے، اور حکومت اپنے وسائل معیشت کی مضبوطی کے لیے کیوں استعمال میں نہیں لا رہی؟ یہ خطہ ایک ارب سے زیادہ انسانوں کی بستی ہے، پارلیمنٹ میں یہ بحث کیوں نہیں ہوتی کہ بھارت جیسے امن دشمن کو لگام ڈالنے کے لیے دفتر خارجہ عالمی سطح پر کامیاب سفارت کاری کے لیے کیا اصول اپنائے؟ ہمارے وزیر خارجہ ہر ہفتے ملتان میں نالیوں، گلیوں کی تعمیر کے مسائل میں الجھے ہوتے ہیں، یہ کام حکمران جماعت کی یہاں مقامی تنظیم اور ضلعی انتظامیہ کے سپرد کیوں نہیں کیے جاتے؟
اسلام آباد میں حکومت کے ایوانوں سے ایک اہم نکتہ بیان ہوا ہے جس پر یقیناً توجہ کی ضرورت ہے۔ امور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے تجویز کیا ہے کہ علاقائی معیشت پر توجہ دی جائے۔ یہ تجویز پارلیمنٹ کی طرف سے آنی چاہیے تھی۔ پارلیمنٹ کو ادراک کرنا چاہیے کہ وہ عوام کی منتخب کردہ اسمبلی ہے اور ملک کے اندر اور باہر کے حالات کیا ہیں؟ سچ یہ ہے کہ ہمارے اردگرد حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں، نئے اتحاد بن رہے ہیں اور نئے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں کہ چند مسلم ملکوں کو مسمار کرنے کے بعد اب کس کی باری ہے؟ افغانستان سے تبدیلی کی پو پھٹنے کے بعد ہر بڑے یا چھوٹے ملک کی خارجہ پالیسی ایک نئی سمت میں نکل پڑی ہے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اپنی معیشت سدھاری جائے اور سرحدوں کو بند کرکے تارکین وطن یا پناہ گزینوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ مغربی ملکوں کی سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور میں انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ تعلیم اور روزگار کی فراہمی اب بڑا مطالبہ بن رہا ہے۔ اس خطے میں جہاں پاکستان ایک اہم ملک ہے، روس اور چین قریب ہورہے ہیں اور بھارت کے لیے امریکہ کی قربت ایک بڑا امتحان بن رہی ہے۔ روس اور بھارت میں ماضی جیسی گرم جوشی نہیں رہی، خطے کا اہم ملک ایران امریکی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے اور تجارتی اور اقتصادی مسائل کے حل کی راہ تلاش کررہا ہے۔ بھارت نے ایران کے ذریعے افغانستان میں اپنا مفاد دیکھنے اور اسے تحفظ دینے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم چین کی ایران میں تجارتی سرمایہ کاری بھارت کے لیے رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ چین خطے کا پہلا ملک ہے جس نے افغانستان کے لیے بڑی مالیاتی امداد دینے کی پیش کش کی ہے، اس کے بدلے میں چین کی خواہش ہوسکتی ہے کہ کوئی مسلم ملک اور گروہ سنکیانگ کے مسائل پر گفتگو نہ کرے۔ چین کو خدشہ ہے کہ طالبان کی فتح سے سنکیانگ میں مشرقی ترکستان اسلامی تحریک یا ETIM دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔ چین کا اصل ہدف اور مفاد ون روڈ ون بیلٹ منصوبے کی تکمیل میں ہے۔ افغانستان میں سرمایہ کاری کا مقصد یہی ہے۔ دوسری وجہ افغانستان میں تانبا اور قدرتی معدنیات ہیں جن میں چین کی دلچسپی بہت زیادہ ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے توڑ کے لیے امریکہ نے امارتِ اسلامی افغانستان سے معاہدہ کیا جس کا مطلب ہے کہ افغانستان میں طالبان کے حقِ حکمرانی کو تسلیم کیا گیا۔ لہٰذا اب قانونی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے طالبان پر عائد پابندیوں کا خاتمہ اور افغانستان کی معاشی و سماجی بحالی میں تعاون امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کی ذمہ داری ہے۔ اس تناظر میں امریکی وزارتِ خزانہ نے طالبان سے لین دین کی اجازت دے دی ہے۔ امریکی وزارتِ خزانہ نے دو لائسنسوں کے ذریعے سے امریکی حکومت، این جی اوز اور اقوام متحدہ سمیت مخصوص عالمی تنظیموں کو طالبان حکومت کے ساتھ خوراک، ادویہ اور طبی آلات کی برآمد سے متعلق محدود لین دین کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے، لیکن افغان حکومت کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد رکھنے کا کوئی جواز نہیں، لہٰذا انہیں بھی فوری بحال کیا جانا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے آن لائن خطاب میں عالمی برادری کو اسی جانب توجہ دلائی ہے، لیکن واشنگٹن کی اپنی سوچ اور پالیسی ہے۔ امریکی انتظامیہ میں مصر، شام اور عراق میں فوجی تنصیبات کو بند کرنے اور افواج کو واپس بلانے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے، اب امریکہ غیر مسلم ممالک کے ساتھ نئے معاہدے کرے گا- آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ سودا منسوخ کرکے امریکہ اور برطانیہ سے 18 آبدوز خریدنے کا جو فیصلہ کیا ہے یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اقوام عالم میں نئے اتحادوں کے بلاکس کے بعدافغانستان میں جاری انسانی تباہی کا مسئلہ دب کر رہ گیا ہے جہاں ساڑھے پانچ لاکھ خاندان بے گھر ہوکر عارضی خیموں میں رہتے ہیں، جہاں 42 فیصد آبادی کو بھوک کا سامنا ہے، جہاں 40 لاکھ بچے کم غذائیت کا شکار ہیں، جہاں ملک کے تمام صوبوں میں بینکوں کا کام تقریباً رک گیا ہے، جہاں ملک کو چلانے کے لیے بجٹ ہی نہیں ہے، بلکہ جو تھوڑا بہت پیسہ تھا اسے بھی امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے منجمد کر رکھاہے، اور کہا جارہا ہے کہ ملک چلائو۔ امریکی اتحادیوں کی یہ پالیسی بہت سوچی سمجھی ہے، یہ سب کچھ ایک نئی صف بندی کے باعث ہورہا ہے۔ دنیا میں ہونے والی نئی صف بندی نے کروڑوں عوام کو ایک نئے مخمصے میں ڈالا ہے، خاص طور سے مسلم دنیا کو، جو ہر نئی عالمی صف بندی یا ہر نئے اتحاد کا بہر حال نشانہ ہوتی ہے۔ خطے میں یہ وقت ملک کی خارجہ پالیسی کا بہت بڑا امتحان ہے۔ فی الحال تو پاکستان کی افغان پالیسی کا رخ صحیح اور منطقی ہے۔ افغانستان کے لوگوں کے لیے یہ ایک مثبت پالیسی ہے۔ ماضی میں اسلام آباد سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ امریکہ کے ساتھ جا کھڑا ہونا بہت بڑی غلطی تھی، لیکن اب اسلام آباد کو افغانستان کی تعمیر نو کے لیے تعاون کرنا ہوگا۔ ماضی کے تجربات اور حال کی تلخیوں کے باعث پاکستان کی افغان پالیسی بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ ایک طرف امریکہ ہے جو اپنی شکست کے زخم چاٹ رہا ہے اور اس سے تنقید برداشت نہیں ہورہی، دوسری جانب بھارت اپنے زخم سہلا رہا ہے۔ امریکہ اور بھارت دونوں ہمیشہ کی طرح آج بھی ایک پیج پر ہیں، اور اس ماحول کے باعث پاکستان ایک مشکل صورت ِحال سے دوچار ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی کوشش اور خواہش ہے کہ ملک میں امن رہے اور تشدد کو ہوا نہ ملے۔