مغرب: انسانی زندگی کی قیمت جانوروں سے بھی کم؟

مغرب میں بنیادی انسانی حقوق سے لےکر جانوروں تک کے حقوق کا جو شور و غوغا ہے، اور مغرب میں جس طرح ان کا پرچار ہے اُسے دیکھ کر لگتا تو یہ ہے کہ مغرب مہذب ترین لوگوں پر مشتمل ہے۔ لیکن آئے دن کوئی نہ کوئی خبر اس کی تردید کردیتی ہے، اور مغرب کا ایک اور چہرہ ہمارے سامنے آتا ہے۔ افغانستان میں فوج کشی کرتے ہوئے جو نعرے بلند کیے گئے اُن میں دہشت گردوں کی پناہ گاہ، انسانی حقوق کی ابتر صورت حال کا نعرہ سب سے بلند تھا۔ اس کے بعد افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔ لیکن اس کا المناک اور شرمناک ترین پہلو یہ تازہ خبر ہے کہ برطانوی افواج نے افغانستان میں 286 بے گناہ افغانوں کی موت کی باضابطہ تصدیق کی ہے، جو کہ برطانوی افواج کے ہاتھوں مختلف آپریشنز میں ہلاک ہوئے تھے جن میں 86 بچے بھی شامل تھے۔ برطانوی وزارتِ دفاع کی یہ دستاویز اُس وقت سامنے آئی جب ”جاننے کی آزادی“ (Freedom of Information) کے قانون کے تحت مختلف درخواستیں دائر کی گئیں، جس پر برطانوی وزارتِ دفاع نے ان دستاویزات کو متعلقہ درخواست گزاروں کے حوالے کیا۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں برطانوی افواج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے بے گناہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ 286 وہ لوگ ہیں جن کے اہلِ خانہ نے بے گناہ ہلاکت کی درخواست دائر کی، جس پر برطانوی حکومت نے ان کو خون بہا ادا کیا، ان ہلاک شدگان میں معصوم بچوں سے لے کر خواتین تک شامل ہیں۔ ان دستاویزات کا المناک ترین پہلو یہ ہے کہ خون بہا کی ادائیگی اتنی کم ہے کہ جس پر خود برطانوی میڈیا نے حکومت پر تنقید کی ہے۔ دسمبر 2009ء میں غلطی سے مارے جانے والے چار افغان بچوں کے قتل کا ہرجانہ صرف 4233 برطانوی پاؤنڈ ادا کیا گیا۔ کچھ ہلاکتوں کے ہرجانے کی مد میں صرف چند سو پاؤنڈ کی ادائیگی کی گئی۔ دسمبر 2009ء میں ایک آپریشن میں مارے جانے والے دس سالہ افغانی بچے کے والدین کو 586 پاؤنڈ کی ادائیگی کی گئی۔ چند دن قبل ہی امریکی افواج نے ڈرون حملے میں دس بے گناہوں کی ہلاکت کی تصدیق کی جن میں سات بچے بھی شامل تھے۔ Action on Armed Violence نامی تنظیم کے اعداد وشمار کے مطابق افغانستان میں 20 سالہ امریکی جارحیت میں 20 ہزار سے زائد عام شہری ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ فوجیوں کی تعداد اس کے علاؤہ ہے۔ موصولہ اعداد وشمار کے مطابق 289 افغان باشندوں کے خونِ ناحق پر 688,000 برطانوی پاؤنڈ کی ادائیگی بطور ہرجانہ 2006ء سے 2013ء کے درمیان کی گئی ہے۔
ان تمام اعداد وشمار میں انسانی زندگی کی بے وقعتی نہ صرف صاف ظاہر ہے بلکہ مغرب کے اپنے دہرے معیار کا اعتراف بھی ہے، جہاں انسانی زندگی کا فی کس ہرجانہ پانچ سو پاؤنڈ ادا کیا گیا وہیں ایک اور آپریشن میں مارے جانے والے گدھوں کا ہرجانہ بھی تقریباً 650 پاؤنڈ ادا کیا گیا، جبکہ پراپرٹی اور دیگر املاک کی تباہی کا ہرجانہ اس سے بھی زیادہ ادا کیا گیا۔ یہ اعداد و شمار بھی برطانوی حکومت نے ازخود جاری نہیں کیے، بلکہ قانون کے تحت بار بار درخواست دائر کرنے پر یہ دستاویزات حوالے کی گئیں، جو کہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ حکومت ازخود ان آپریشنز کی تباہ کاریوں کو چھپا رہی ہے۔ آزاد ذرائع اس بات کا بار بار دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں نیٹو افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ اب یہ اعداد و شمار اس کی تصدیق کررہے ہیں۔ ابھی بھی درست اعداد وشمار تک رسائی نہیں ہے، کیونکہ بہت سے پورے خاندان ہی ان آپریشنز میں جاں بحق ہوگئے، لہٰذا ان کی جانب سے ہرجانے کا دعویٰ کرنے والا کوئی زندہ باقی ہی نہیں بچا۔
اب ذرا مغرب میں انسانی حقوق، اور جانوروں کے حقوق سے لے کر ماحولیات اور دیگر حقوق کا مطالعہ کریں تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ مغرب کا معیار اپنے لیے کچھ، اور دوسروں کے لیے کچھ اور ہے۔ افغانستان میں بامیان کے بتوں کو توڑنے کے طالبان کے عمل پر جو پروپیگنڈا پوری دنیا کے میڈیا میں کیا گیا، اسی طرح افغان خواتین کی تعلیم، پردے اور اُن کے روزگار پر جو آوازیں مغرب سے بلند ہوتی رہیں وہ آوازیں آج تقریباً 300 معصوم افغان شہریوں (جن میں 86 معصوم بچے بھی شامل ہیں) کی ہلاکت کے باضابطہ اعتراف پر اٹھتی نظر نہیں آتیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرنے والے کیونکہ مغربی افواج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے لہٰذا ان کی ہلاکت محض انسانی غلطی ہے، لیکن اگر یہی کام کوئی اور کرے تو وہ سنگین نوعیت کا جرم ہے! اس کو کچھ دیر کے لیے غلطی (باقی صفحہ 41پر)
اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو اس سے سنگین بات یہ ہے کہ جرم کے اعتراف کے بعد انسانی زندگی کے ہرجانے کی قیمت یورپ میں موجود ایک کتے کی قیمت سے بھی کم ہے۔ یہ ہیں وہ اقوام جو دنیا میں اپنے آپ کو انسانی حقوق کے علَم بردار کے طور پر پیش کرتی ہیں، لیکن ان کا عمل یہ ثابت کررہا ہے کہ ان کے نزدیک انسان کے معیار پر صرف اور صرف اُن کی نسل کے لوگ پورے اترتے ہیں، اُن کے سواانسانوں کی حیثیت اُن کے نزدیک کتوں سے بھی کم ہے۔ افریقیوں کو غلام بناکر منڈیوں میں بیچنے کی روش جنھوں نے پروان چڑھائی تھی وہی آج انسانی حقوق کے علَم بردار بن کر بیٹھے ہیں۔
اقبال نے مغربی جمہوریت پر جو تبصرہ کیا اس کا دوسرا مصرع آج بھی اس تہذیب میں جھلکتا ہے:
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر