امریکہ اور برطانیہ نے مل کر آسٹریلیا سے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت آسٹریلیا کو جوہری آبدوزیں فراہم کرنے کے علاوہ اُسے جوہری آبدوزیں بنانے کے قابل بھی بنایا جانا ہے۔ اس ڈیل نے فرانس کو ناراض کیا ہے، کیونکہ ایک معاہدے کے تحت وہ آسٹریلیا کو آبدوزیں فراہم کرنے والا تھا۔ آسٹریلیا نے یہ معاہدہ نوٹس کے بغیر ختم کردیا۔
فرانس نے معاہدہ اس طور ختم کیے جانے کو غداری سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ فرانس نے امریکہ کے صدر جوزف بائیڈن کو اُن کے پیش رَو ڈونلڈ ٹرمپ سے کمتر قرار دیتے ہوئے امریکہ اور آسٹریلیا سے سفیر واپس بلائے ہیں۔ اس نوعیت کے اقدامات بڑی طاقتوں کے مابین کم ہی ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین طے پانے والے معاہدے پر چین زیادہ برہم نہیں، جبکہ یہ سب کچھ بظاہر اُس کی راہیں مسدود کرنے کی خاطر ہی کیا جارہا ہے۔
اس معاملے میں فرانس کا اس قدر برہم ہونا ایک خاص حد تک تو سمجھ میں آتا ہے۔ ہاں، فرانس کے ردِعمل سے سرد جنگ کے عہد کے بعد کے سب سے اہم اتحاد کے ممکنہ اثرات دھندلا گئے ہیں۔ جوہری آبدوزوں کے سودوں کے نام پر امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان AUKUS کے نام سے نیا اتحاد قائم کیا گیا ہے۔ یہ گویا اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکہ اب ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے پر توجہ دینے والا ہے، اور اس کا مقصد بظاہر چین کی راہیں مسدود کرنا ہے۔ اس کا تصور سب سے پہلے بارک اوباما کے دور میں ابھرا تھا، تاہم اس حوالے سے عملی سطح پر کچھ زیادہ نہیں کیا گیا تھا۔
فرانس اب تک امریکہ کا اہم اتحادی رہا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت آسٹریلیا سے 66 ارب ڈالر کے جوہری آبدوزوں کے معاہدے کی تنسیخ سے قبل اُسے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا۔ اگر واشنگٹن یا کینبرا کی طرف سے کوئی نوٹس ملا ہوتا تو فرانس نے یقینی طور پر اس معاہدے کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہوتی۔ اور دوسری طرف اس نے آسٹریلیا کو امریکہ اور برطانیہ کی طرف جانے سے روکنے کی بھرپور کوشش بھی کی ہوتی۔
فرانس ایک زمانے میں غیر معمولی نوعیت کی نوآبادیاتی طاقت کا درجہ رکھتا تھا۔ وہ عالمی سطح پر بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور کر گزرتا تھا۔ مغربی افریقا میں اس کی نوآبادیات رہی ہیں۔ اب بھی فرانسیسی قیادت کی خواہش ہے کہ فرانس کا عالمی کردار کسی نہ کسی طور برقرار رہے۔ تین چار عشروں کے دوران امریکہ کے ساتھ برطانیہ نے یورپ کے سب سے بڑے نمائندے کی حیثیت سے کام کیا ہے۔ ایسے میں فرانس کے لیے کچھ کر گزرنے کی گنجائش زیادہ نہیں رہی۔ فرانس کے سابق لیڈر چارلس ڈیگال کے زمانے سے فرانس سلامتی کے معاملات میں اپنی مرضی کی راہ پر گامزن رہا ہے۔ آسٹریلیا کو ہائی ٹیک ہتھیاروں کی فروخت کا معاملہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ فرانس اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے۔ آسٹریلیا کو آبدوزیں فروخت کرنے کا معاہدہ اصلاً اس لیے تھا کہ فرانس کی اپنی پوزیشن مستحکم ہو۔ فرانسیسی قیادت وسیع تر تناظر میں پورے یورپ یا مغرب کے لیے کسی نئے دفاعی معاہدے یا اتحاد کی راہ ہموار نہیں کرنا چاہتی تھی۔
امریکہ میں کم ہی لوگوں کو اندازہ ہے کہ چین کے ہاتھوں امریکہ کو ٹیکنالوجی، تجارت اور مالیات کے شعبوں میں غیر معمولی نوعیت کے خطرات لاحق ہیں۔ ایسے میں امریکی قیادت کا وہ سب کچھ کرنا کم و بیش لازم سا ہے جو وہ کررہی ہے۔ معاملہ ٹیکنالوجی کا ہے۔ فرانس ڈیزل سے چلنے والی آبدوزیں تیار کرتا ہے۔ بعض حالات میں اعلیٰ درجے کی ڈیزل آبدوزیں چھوٹے فاصلوں کے لیے جوہری آبدوزوں سے بہتر اور آواز کیے بغیر کام کرتی ہیں۔ آسٹریلیا اپنے آپ میں ایک برِاعظم ہے، اس لیے وہ ایسے جہاز چاہتا ہے جو اس کے ساحلوں پر مہینوں تک اس حالت میں سفر کرتے رہیں کہ اُن کا سراغ نہ لگایا جاسکے۔
آسٹریلیا کو بہت پہلے اندازہ ہوجانا چاہیے تھا کہ جب تک وہ اپنے آپ کو بہتر طور پر تیار کرے گا تب تک چین سلامتی کے حوالے سے اپنی پوزیشن مستحکم تر کرتے ہوئے آسٹریلیا کے پاس موجود ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کا توڑ ضرور تلاش کرچکا ہوگا۔ آسٹریلیا کو اپنی کمزوری کا علم کچھ تاخیر سے ہوا ہے۔
امریکہ اور برطانیہ ایشیا و بحرالکاہل کے خطے میں چین کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے انہیں کچھ مدت کے بعد تائیوان کے معاملے پر چین کے مقابل بھی آنا پڑے۔ ایسی کسی بھی صورتِ حال میں فرانس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ امریکہ اور باقی یورپ کا ساتھ دینے کے لیے آگے بڑھے گا۔ امریکہ کے لیے چین کا سامنا کرنے کے معاملے میں آسٹریلیا زیادہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ چین اور فرانس کے درمیان تجارت بھی وسیع پیمانے پر جاری ہے۔ ایسے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ فرانس اپنے تجارتی مفادات کو داؤ پر لگاکر چین کے سامنے کھڑا ہوگا۔
آسٹریلیا اور چین کے تعلقات میں دو معاملات پر کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔ آسٹریلوی حکومت نے چین کو کورونا وائرس پیدا کرکے باقی دنیا میں پھیلانے والا ملک قرار دیا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیت سے روا رکھے جانے والے ناپسندیدہ سلوک پر بھی تنقید کی ہے۔ یہی سبب ہے کہ آسٹریلیا کو چین کی طرف سے تنقید اور مخاصمت ہی نہیں بلکہ معاشی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ علاوہ ازیں آسٹریلیا اُن چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے سب سے پہلے چین کی فائیو جی ٹیلی کام ٹیکنالوجی کو اپنے بنیادی ڈھانچے سے، سلامتی کو لاحق خطرات کی بنیاد پر، نکال دیا۔ اس کے جواب میں چین نے آسٹریلیا سے کوئلے سے شراب تک بہت کچھ خریدنا چھوڑ دیا ہے۔ چین میں آسٹریلیا کے حوالے سے رائے عامہ بھی متاثر ہوئی ہے۔
کچھ مدت کے دوران چین نے اپنی عسکری قوت میں اضافے اور اس کا معیار بلند کرنے پر خاص توجہ دی ہے۔ اس کے نتیجے میں اب وہ مغربی بحرالکاہل کے خطے میں امریکہ کے برابر آچکا ہے۔ چین نے اپنی فوج کو دورِ جدید کے تقاضوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے پر غیر معمولی توجہ دی ہے اور اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس وقت چین کی بحریہ بہت بڑے حجم کی ہے، اور اس کا آبدوزوں کا بیڑا بھی بہت بڑا ہے۔ امریکہ کے پاس اب بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے خطے میں چین کا سامنا کرنے کے قابل ہونے کے لیے اس کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا کہ خطے کے ممالک سے مل کر اتحاد قائم کیے جائیں۔ اِسی صورت امریکہ اس خطے میں اگر برتر حیثیت کا حامل نہ بھی ہوپائے تو کم از کم برابری پر تو آہی سکتا ہے۔ ایسے میں اگر خطے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہوئی تو صرف امریکہ کو موردِ الزام نہیں ٹھیرایا جائے گا۔
امریکہ میں عوام بہت حد تک اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں سلامتی کے حوالے سے سوچنے والوں کی سوچ پر ایک بار پھر عسکریت پسندی مسلط ہورہی ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں نائب معاون وزیر دفاع کے منصب پر خدمات انجام دینے والے ایلبرج اے کولبی نے اپنی تازہ کتاب ’’دی اسٹریٹجی آف ڈینائل: امریکن ڈیفنس اِن این ایج آف گریٹ پاور کانفلکٹ‘‘ میں لکھا ہے کہ امریکہ میں عوام اب تک یہ نہیں سوچ رہے کہ چین سے کس حد تک خطرات لاحق ہیں، تاہم امریکی پالیسی میکرز کو اندازہ ہے کہ ایشیا میں امریکہ کی بالادستی برقرار رکھنے کی خاطر لازم ہے کہ چین کا راستہ روکا جائے۔ ایلبرج کولبی لکھتے ہیں ’’چین کی طاقت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب ناگزیر ہے کہ امریکہ اُس سے براہِ راست مقابلے کے لیے پوری طرح تیار رہے۔ چین کا سامنا کرنا اب امریکہ کے لیے اوّلین ترجیح کا درجہ رکھتا ہے، اس لیے اس کی خاطر نئے اتحاد قائم کیے جائیں اور سلامتی کے معاملے میں اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے۔‘‘
امریکہ آخر ایشیا کو اس قدر ترجیح کیوں دے رہا ہے؟ امریکہ میں دونوں بڑی جماعتیں اس سوچ کی حامل ہیں کہ اب کئی عشروں تک ایشیا ہی عالمی سیاست و معیشت کا مرکز رہے گا اور یہاں ہونے والے فیصلے پوری دنیا پر غیر معمولی حد تک اثرانداز ہوں گے۔ مغرب سے یہ بات اب ہضم نہیں ہو پارہی کہ کوئی اور خطہ اُس کی علمی، فنی، معاشی اور سیاسی برتری کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آئے۔
امریکہ کے لیے اس وقت اسٹرے ٹیجک نقطۂ نظر سے تائیوان اور جنوبی بحیرۂ چین کا خطہ سب سے اہم ہے، اور وہاں کی صورتِ حال میں رونما ہونے والی کوئی بھی منفی تبدیلی ہنگامی حالت کا درجہ رکھتی ہے۔ چین تائیوان کو اپنا باغی صوبہ قرار دیتا ہے اور وہ بارہا کہہ چکا ہے کہ تائیوان پر اپنے دعوے سے وہ نہ صرف یہ کہ دست بردار نہیں ہوگا بلکہ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر اگر اسے طاقت استعمال کرنے پر مجبور ہونا پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ میں نے اپنی کتاب ’’ایوری تھنگ انڈر دی ہیونز: ہاؤ دی پاسٹ ہیلپس شیپ چائناز پُش فار گلوبل پاور‘‘ میں خاصی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ چین کو اب عالمی سطح پر کوئی واضح کردار مطلوب ہے، وہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ عالمی درجے کی قوت ہے اور کھیل کو اپنی مرضی کے مطابق جاری رکھ سکتا ہے۔ وہ اس معاملے میں علاقائی ممالک کو خوف زدہ رکھنے سے بھی گریز نہیں کررہا۔ اس نے جنوبی بحیرۂ چین کی حدود سے نکل کر خطے کے دیگر آبی راستوں پر بھی اپنی بالادستی یقینی بنانے کی خاطر کام شروع کردیا ہے۔
بحرِ اوقیانوس کے خطے کے بہت سے ممالک میں عوام کو اب تک اندازہ نہیں کہ آنے والے چند برسوں کے دوران انہیں کس نوعیت کے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایلبرج کولبی نے جو کچھ لکھا ہے اس کی بنیاد پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان ممالک کے عوام کو بحرانی کیفیت کا سامنا ہوسکتا ہے۔ حد یہ ہے کہ خود امریکہ میں بھی عوام کی اکثریت کو کچھ اندازہ نہیں کہ تائیوان کے معاملے پر امریکہ اور چین کے درمیان ٹھن گئی اور معاملہ براہِ راست عسکری تصادم تک پہنچا تو کس نوعیت کی بحرانی کیفیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکہ اور چین کے درمیان بنیادی فرق سیاست و معیشت کی ساخت کا ہے۔ اس وقت عجیب صورتِ حال یہ ہے کہ دو طاقتور ترین ممالک کی سیاسی و معاشی ساخت بالکل مختلف ہے۔ ایسے میں رواں صدی کے دوران امریکہ اور چین کے درمیان کسی بڑے مناقشے کے نہ ہونے کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ امریکہ اور چین نے بھی اب اپنی اپنی سلامتی یقینی بنائے رکھنے کے حوالے سے سوچنا بھی شروع کردیا ہے۔
بارک اوباما نے ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی) کے حوالے سے سوچنا شروع کردیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو پیچھے ہٹا لیا۔ اب پھر معاملات وہیں پہنچ گئے ہیں جہاں بارک اوباما کے دور میں تھے۔ موجودہ امریکی صدر نے اب تک ٹی پی پی کی بحالی یقینی بنانے یا اس حوالے سے سوچنے کو ترجیح نہیں دی ہے۔ اس کے نتیجے میں چین کا حوصلہ اتنا بڑھا ہے کہ اب وہ جاپان اور ٹی پی پی کے دیگر ارکان کی طرف سے قائم کیے جانے والے گروپ دی کمپری ہینسیو اینڈ پروگریسیو ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ (سی ٹی پی پی پی) کی رکنیت کا بھی خواہاں ہے اور اس کے لیے اُس نے درخواست بھی دے دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چین کی سیاست و معیشت میں وہ آزادی اور کُھلا پن نہیں جو اس گروپ کی رکنیت کے لیے درکار ہے۔
ایسے میں امریکہ نے جس انداز سے AUKUS تشکیل دیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی یہ سوچ سکتا ہے کہ امریکہ بھیانک غلطی کررہا ہے۔ واشنگٹن اب بھی اس بات پر یقین رکھتا دکھائی دے رہا ہے کہ تمام مسائل صرف طاقت کے ذریعے حل کیے جاسکتے ہیں۔ جب انسان طے کرلے کہ ہر معاملے میں صرف ہتھوڑا استعمال کرنا ہے تو پھر ہر معاملہ کیل جیسا دکھائی دینے لگتا ہے۔ مشکل صرف یہ ہے کہ مشرقی ایشیا میں کیلیں بموں سے جڑی ہوئی ہیں!
Looming Over the AUKUS Deal Is the Shadow of War
Howard W. French
Wednesday, Sept. 22, 2021