ہندوستانی وزیراعظم نریندرا مودی کا تین روزہ دورئہ امریکہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دوران مودی جی نے اتحادِ اربعہ یا QUAD Allianceکے سربراہی اجلاس میں شرکت کی، امریکی صدر، نائب صدر اور ٹیکنالوجی کی پانچ بڑی کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ یہ ہندوستانی وزیراعظم کی امریکی صدر جوبائیڈن سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون نے نائب صدر کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور شریمتی کملا دیوی ہیرس کی والدہ ڈاکٹر شیمالاگوپلان، چنائے (تامل ناڈو، ہندوستان) سے امریکہ آئی تھیں، اور اس اعتبار سے کملا صاحبہ کو امریکہ کی پہلی بھارت نژاد نائب صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
جناب مودی نے اس دورے کی تیاری بہت عرصہ پہلے شروع کردی تھی۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرح جناب مودی اپنے ایجنڈے، مؤقف اور ذاتی تشہیر کے لیے ٹویٹر استعمال کرتے ہیں۔ یہ تو قارئین کو یقیناً معلوم ہوگا کہ جناب ٹرمپ کا ٹویٹر اکائونٹ انتظامیہ نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر معطل کردیا ہے۔ ٹویٹر پر شری مودی کے مداحوں یا followersکی تعداد 7کروڑ 14 لاکھ سے زیادہ ہے۔ دورے سے پہلے جناب مودی نے ٹویٹر پر اپنے مداحوں کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا اور کواڈ کے سربراہان کو انفرادی ٹویٹس بھیجے، جس میں آنے والی سربراہ کانفرنس کے بارے میں غیر معمولی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا۔
مالی معاملات کو شفاف ثابت کرنے کے لیے 18 ستمبر کو وہ تمام تحائف نیلام کیے گئے جو بطور وزیراعظم انھیں دوسرے ممالک سے عطا ہوئے ہیں۔ نیلامی کا آغاز 17 ستمبر کو مودی جی کے جنم دن سے ہوا۔ فروخت کا یہ سلسلہ اکتوبر کے پہلے ہفتے تک جاری رہے گا، اور نیلام سے حاصل ہونے والی آمدنی دریائے گنگا کی صفائی اور کناروں کی آرائش پر خرچ ہوگی۔ افتتاحی تقریب میں وزیراعظم مودی خود شریک ہوئے۔ معمول کی ایک سرگرمی کی اتنے بڑے پیمانے پر تشہیر کا مقصد قوموں کی برادرای میں ایک قد آور و دیانت دار رہنما کی حیثیت سے ہندوستانی وزیراعظم کے ملائم چہرے یاsoft imageکو نمایاں کرنا تھا۔
20ستمبر کو سعودی وزیرخارجہ فرہان السعود کے دورئہ ہندوستان کو بھی جناب مودی نے اپنے ٹویٹر پر نمایاں کیا۔ خیال ہے کہ سعودی ارامکو، تیل ریفائنری اور دوسری اہم تنصیبات پر ہندوستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ اپنے ٹویٹس میں ہندوستانی وزیراعظم نے ہندوستان کو کاروبار کے لیے انتہائی پُرکشش اور سرمایہ کاروں کی جنت قرار دیا۔
امریکہ روانگی سے ایک دن پہلے جناب مودی نے فرانس کے صدر ایمانویل میخواں سے فون پر گفتگو کی، جس میں افغانستان کی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ فرانسیسی ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں متنوع (Inclusive) حکومت کے قیام اور خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ ستم ظریفی کہ جس وقت افغان خواتین کی ”حالتِ زار“ پر فکرمندی کا اظہار ہورہا تھا اُس وقت ممبئی کے مضافاتی علاقے دمبیولی میں پندرہ سال کی ایک معصوم بچی پر مجرمانہ حملے کی بھیانک واردات نے سارے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس بدنصیب کو تیس سے زیادہ اوباش 8 مہینے تک درندگی کا نشانہ بناتے رہے۔
22 ستمبر کو خصوصی طیارے کی براہِ راست پرواز کے ذریعے نریندرامودی امریکہ روانہ ہوئے۔ افغانستان نے اپنی فضائی حدود کو غیر ملکی پروازوں کے لیے بند کردیا ہے اور غیر ملکی جہاز خاص اجازت کے بعد ہی افغان فضائی حدود میں داخل ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ پاکستان سے فضائی حدود کے استعمال کی درخواست کی گئی۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے پاکستان نے بھارتی جہازوں کو اپنی حدود سے گزرنے کے لیے خصوصی اجازت کا پابند کردیا ہے، اور ماضی میں اسلام آباد نے کم از کم تین بار صدر رام ناتھ کووند اور وزیراعظم مودی کے طیاروں کو اپنی فضائی حدود سے نہیں گزرنے دیا، تاہم اِس بار پاکستان نے مودی جی کو اپنی فضائی راہداری استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ سفر کے دوران ہندوستانی وزیراعظم کی جہاز پر کام کرتے کئی تصاویر ٹویٹر پر جاری کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ جناب مودی اپنی جنتا کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں اور اپنا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتے۔
22 ستمبر کو واشنگٹن آمد پر ان کا امریکہ میں مقیم ہندوستانی شہریوں نے پُرتپاک خیرمقدم کیا تو سیاہ پرچموں کے ساتھ بڑی تعداد میں کشمیری اور سکھ باشندے بھی وہاں موجود تھے۔ اس دوران مودی کے حامیوں اور سکھوں کے درمیان نعرے بازی کا مقابلہ بھی ہوا۔
گزشتہ بار کی طرح اِس مرتبہ بھی وزیراعظم مودی نے اپنے قیام کا ایک دن کارپوریٹ امریکہ سے ملاقات کے لیے مختص رکھا، اور 23 ستمبر کو وہ سارا دن بڑی امریکی کارپوریشنوں کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کرتے رہے۔ دو سال پہلے ان کا ہدف توانائی، خاص طور سے LNG تھی، جبکہ جمعرات کو وزیراعظم مودی نے جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری فراہم کرنے والے اداروں کے سربراہان سے تفصیلی ملاقاتیں کیں۔
سب سے اہم نیم موصل پتری (Semi-Conductor Chip) بنانے والے ادارے کوال کام (Qualcom) کے سربراہ کرسٹینو امون (Cristano Amon) سے گفتگو تھی۔ اس وقت ساری دنیا میں چپس کی شدید قلت ہے، حتیٰ کہ امریکہ میں گاڑیاں بنانے والی سب سے بڑی کمپنی جنرل موٹرز نے چپس کی عدم دستیابی کی بنا پر اپنے کئی کارخانوں میں پیداوار روک دی ہے، اور فورڈ موٹر کمپنی کی پیدوار ایک تہائی رہ گئی ہے۔ یورپ اور ایشیا میں بھی چپس کی شدید قلت ہے۔ چند ہفتے پہلے چپس بنانے والے اداروں کی پیداوار بڑھانے کے لیے امریکی کانگریس نے اربوں ڈالر کی امدادی رقم منظور کی ہے۔ کوال کام کی خوبی یہ ہے کہ ادارہ موبائل فون کے 5-G کے لیے چپس بناتا ہے۔ ملاقات کے بعد جناب امون نے بتایا کہ ہندوستانی وزیراعظم نے چپس کا کارخانہ ہندوستان میں لگانے کی دعوت دی جس پر کوال کوم کی قیادت سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔
ٹیکنالوجی کمپنی اڈوبی (Adobe)کے قائد شنتانو نارائن جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے فارغ التحصیل ہیں۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنمائوں نے ہندی میں بات کی۔ اڈوبی کھیلوں کی الیکٹرانک مشینیں بھی بناتی ہے اور شنتانونارائن نے وزیراعظم سے کہا کہ ان کی کمپنی ہر ہندوستانی بچے تک ان مشینوں کی رسائی یقینی بنانا چاہتی ہے۔
وزیراعظم مودی نے قابلِ تجدید خاص طور سے شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی بنانے والی کمپنی سن پاور المعروف فرسٹ سولر کے سربراہ مارک ودمر کو ہندوستان میں سولر پینل بنانے کی دعوت دی۔
جوہری آبدوز، غیر مرئی (Stealth) بحری جہاز، جنگی طیارے اور جدید ترین ہتھیار بنانے والے جنرل ڈائنامکس کے ذیلی ادارے جنرل اٹامکس (General Atomics) کے سی ای او ویوک لال سے جناب مودی نے تین گھنٹے سے زیادہ دیر بات کی۔ جناب لال بھارت نژاد انڈونیشی ہیں۔ جنرل اٹامک عسکری اور شہری استعمال کے ڈرون کے علاوہ ریڈار، جوہری ایندھن استعمال کرنے والے انجن اور دوسرے حفاظتی آلات بناتا ہے۔ جناب لال نے بھی ہندوستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا۔
دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرنے والے ادارے بلیک اسٹون کے سربراہ اسٹیفن شوارزمین نے بھی وزیراعظم مودی سے ملاقات کی۔ بلیک اسٹون ہر سال مختلف اداروں میں 35 سے 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ہندوستان میں سعودی ارامکو کی ریفائنری کے لیے بلیک اسٹون سرمایہ کاری کرے گا۔
کارپوریٹ رہنمائوں سے ملاقاتوں کے بعد نریندرا مودی نے اسی شام آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکاٹ موریسن اور اپنے جاپانی ہم منصب یوشیدا سوگا سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ اس دوران افغانستان کے تناظر میں ہند و بحرالکاہل (Indo-Pacific) کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔ ہندوستان کا خیال ہے کہ افغانستان میں اب چین کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے، اور بیجنگ اپنی مواصلاتی مہم المعروف BRI کا سلسلہ افغانستان کے راستے وسط ایشیا تک وسیع کرنا چاہتا ہے۔
نائب صدر کملا دیوی ہیرس سے ملاقات خاصی دلچسپ رہی۔ وزیراعظم نے امریکی نائب صدر کو ہندوستان کی بیٹی قرار دیتے ہوئے انتہائی پُرجوش لہجے میں ”وطن“ کے دورے کی دعوت دی، لیکن کملا جی کا رویہ نسبتاً سرد تھا۔ نائب صدر ڈیموکریٹک پارٹی کے لبرل و سیکولر دھڑے سے تعلق رکھتی ہیں جسے بھارت میں مذہبی انتہاپسندی اور ہندوتوا کے فروغ پر سخت تشویش ہے۔ کیلی فورنیا سے رکن کانگریس روکھنہ اور محترمہ پرمیلا جے پال بھی اس معاملے کو اٹھاتے رہی ہیں۔
واشنگٹن کے سفارتی ذرائع کے مطابق گفتگو کے دوران امریکی نائب صدر نے کہا کہ ساری دنیا میں جمہوریت کو اندرونی خطرات کا سامنا ہے اور اس کا مقابلہ جمہوری اقدار پر سختی سے عمل کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اُن کا مؤقف تھا کہ جمہوری ممالک کو انسانی حقوق اور شرفِ انسانی کے حوالے سے دنیا کے لیے مثال بننا چاہیے۔ امتیازی قوانین، اقلیتوں سے برا سلوک اور مذہبی اکائیوں کے درمیان کشیدگی جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں۔ شریمتی ہیرس صاحبہ نے شہریت کے نئے بھارتی قوانین کے مضمرات سے ہندوستانی وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ انھوں نے آرٹیکل 370کی منسوخی اور کشمیر کی نیم مختار حیثیت ختم کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
جمعہ کی صبح ہندوستانی وزیراعظم نے قصرِ مرمریں میں صدربائیڈن سے ملاقات کی۔ جناب بائیڈن ہندوستان امریکی رفاقت کے معمار سمجھے جاتے ہیں۔ دلی اور واشنگٹن کی حالیہ قربت کا آغاز صدر اوباما کے دور سے ہوا جب 2012ء میں امریکہ کی نئی فوجی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے سابق امریکی صدر نے بحرالکاہل اور بحرہند کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دیا۔ جب ایک صحافی نے اس نظرکرم کی وجہ دریافت کی تو امریکی صدر نے فرمایا کہ یہ ایک مصروف تجارتی شاہراہ ہے اور اس آبی راستے کی نگرانی ہماری سلامتی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ واشنگٹن کے عسکری حلقوں کا خیال ہے کہ روس کے زوال کے بعد دنیا کی اسلامی قوتیں امریکہ کے لیے خطرے کا باعث تھیں لیکن گزشتہ دس بارہ سالوں میں اسلامی مزاحمت کچلی جاچکی ہے۔ عرب دنیا کی اسلامی تحریکیں زبردست عوامی حمایت کے باوجود دفاعی پوزیشن پر ہیں، اور شمالی افریقہ و مشرق وسطیٰ میں ابھرنے والی نئی قیادت امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے کےموڈ میں نہیں۔ چنانچہ امریکہ کی توجہ اب چین کی جانب ہے جو معاشی دوڑ میں بہت آگے نکل چکا ہے اور بلااستثنیٰ دنیا کی چھوٹی بڑی ہر منڈی میں ”میڈ اِن چائنا“ مصنوعات کا غلبہ نظر آتا ہے۔ صدر اوباما کا خیال تھا کہ چین کے گھیرائو کے لیے بحرالکاہل سے بحرہند کو ملانے والی آبنائے ملاکا کی نگرانی اور خلیج بنگال پر گرفت مضبوط رکھنا امریکہ کی ضروت ہے، اور یہ کام ہند نائو سینا (بحریہ) کے سوا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس عسکری اتحاد کو بہتر، مؤثر اور ہمہ جہت بنانے کی ذمہ داری صدر اوباما نے اپنے نائب صدر کو سونپی تھی۔
ہندوستانی وزیراعظم کا استقبال کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے یاد دلایا کہ 2008ء کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ 2020ء میں ہندوستان اور امریکہ دنیا کے دو انتہائی گہرے دوست اور شراکت دار ہوں گے۔ جواب میں مودی صاحب نے کہا کہ ہماری اس بے مثال دوستی کی بنیاد گاندھی جی کا فلسفہِ اہمسا ہے۔ اس ملاقات میں افغانستان کے مسئلے پر تفصیلی گفتگو ہوئی اور طالبان سے سفارتی سطح پر ”نبٹنے“ کی تدبیر، ترکیب اور حکمتِ عملی پر غور کیا گیا۔ ملاقات کے اختتام پر معزز مہمان کو ہندوستانی تاریخ و ثقافت پر مبنی قیمتی نوادرات کا تحفہ پیش کیا گیا جو ہندوازم، بودھ مت اور جین مذاہب سے متعلق نادر تصاویر، مورتیوں، پوشاک اور دوسرے آثار پر مشتمل ہے۔ یہ نوادرات امریکہ بھر کے عجائب گھروں اور تاریخی مراکز سے جمع کیے گئے ہیں۔
اس دورے کا سب سے اہم پروگرام معاہدئہ اربعہ کی کورونا وبا کے بعد پہلی براہِ راست چوٹی کانفرنس تھی۔ اس سال مارچ میں سربراہ اجلاس سمعی و بصری رابطے (Virtual)پر ہوا تھا۔ امریکہ، ہندوستان، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل یہ اتحاد 2007ء میں قائم ہوا، جس کا سرکاری نام Quadrilateral Security Dialogue المعروف QUADہے۔ سرکاری مسودے کے مطابق معاہدئہ اربعہ کا مقصد بحرالکاہل اور بحرہند میں بلاروک ٹوک جہازرانی کو یقینی بنانا ہے، لیکن درحقیقت چین کی بحری نقل وحرکت پر نظر رکھنا کواڈ کی روح ہے۔ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے حال ہی میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے آکس (AUCUS) اتحاد بھی تشکیل دیا ہے جس کے تحت بحرجنوبی چین میں گشت کے لیے امریکہ آسٹریلیا کو جوہری آبدوز فراہم کررہا ہے۔ آکس کی ہیئت اور اس کے نتیجے میں آسٹریلیا اور امریکہ سے فرانس کی ناراضی پر ایک تفصیلی مضمون ہم گزشتہ ہفتے نذرِ قارئین کرچکے ہیں۔
اجلاس کے صدر جناب جوبائیڈن نے آغاز میں رسمی گفتگو کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے ویکسین برآمد کے اعلان کو انسانیت کی عظیم خدمت قرار دیا، اور اس پر نریندرا مودی کی قائدانہ صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے سب سے پہلے انھیں خطاب کی دعوت دی۔ اپنے مختصر خطاب میں وزیراعظم مودی نے امید ظاہر کی کہ چار ملکوں کا یہ اتحاد ہندوبحرالکاہل میں امن و خوش حالی کو یقینی بنائے گا۔ اپنی اختتامی تقریر میں جوبائیڈن نےکہا کہ چاروں جمہوریتیں کورونا اور آب و ہوا میں تبدیلی کے مشترکہ چیلنج پر قابو پانے کے لیے ایک ساتھ آئی ہیں، اور مستقبل کی صورت گری کے لیے ہمارے پاس ایک مشترکہ تصور ہے۔
چوٹی اجلاس میں ہند بحرالکاہل خطے تک تمام اقوام کی آزادانہ رسائی اور آبی شاہراہوں کو پُرامن تجارتی سرگرمیوں کے لیے پابندیوں سے پاک رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اُس میں کہا گیا ہے کہ کواڈ اتحادی قانون کی حکمرانی، آزاد و بلاروک ٹوک جہازرانی، تنازعات کے پُرامن حل، جمہوری اقدار کے فروغ اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے پُرعزم ہیں۔ مشترکہ اعلامیے میں چین کا نام لیے بغیر بحرالکاہل کے چھوٹے جزیروں میں آب و ہوا کی تبدیلی کے منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ کواڈ قائدین کو بحرجنوبی چین میں عسکری مقاصد کے لیے چین کی جانب سے تعمیر کیے جانے والے مصنوعی جزائر پر سخت تحفظات ہیں۔ اعلامیے کے مطابق کواڈ کا سربراہی اجلاس اب ہر سال ہوگا۔ اس اجلاس کا دورانیہ صرف دو گھنٹے تھا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گفتگو چند نکات تک محدود رہی، اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس عرصے میں بحث و مباحثے کا محور چین و افغانستان تھے، اور اس حوالے سے پاکستان، چین، روس اور ترکی پر مشتمل ایک نئے غیر رسمی اتحاد کی سرگرمیوں اور ممکنہ عزائم پر بھی غور کیا گیا۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ ابھرتے ہوئے اس نئے اتحاد کا ملائشیا، ویت نام، قطر، عراق اور لیبیا بھی دلچسپی سے جائزہ لے رہے ہیں۔
کواڈ اجلاس کے دوسرے روز شری نریندرا مودی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا۔ دوسرے تمام رہنمائوں کی طرح ہندوستانی وزیراعظم کا خطاب بھی روایتی نوعیت کا تھا، اور حسبِ توقع ان کی تقریر مَیں، میرا اور مجھے کے گرد گھومتی رہی جس میں خودستائی کا پہلو نمایاں تھا۔ انھوں نے اپنے پڑوسی کو متنبہ کیا کہ دہشت گردی کو پالیسی بنانے والے خود بھی اس مشکل کا شکار ہوسکتے ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مودی جی کے دورے اور کواڈ سربراہی اجلاس میں چین اور افغانستان ہی کلیدی نکات تھے، اور جن مقاصد کے لیے کواڈ تشکیل دیا گیا ویسا ہی ہدف اب افغانستان کے لیے طے کیا گیا ہے، یعنی کابل حکومت کو ہر قیمت پر ناکامی سے دوچار کیا جائے۔ باقی رہی ماحولیات اور کورونا پر گفتگو… تو یہ محض موذیوں کا منہ بند کرنے کی ایک کوشش تھی۔
کواڈ اتحادی افغانستان میں طالبان کی غیر معمولی اور برق رفتار بلکہ چشم کشا کامیابی پر اب تک صدمے میں ہیں جہاں امریکہ کے 30 کھرب، جاپان کے 6.8 ارب، آسٹریلیا کے ڈیڑھ اور ہندوستان کے 3 ارب ڈالر ڈوب گئے۔
کواڈ کو سب سے زیادہ تشویش چین کے BRI منصوبے کی وسط ایشیا تک ممکنہ توسیع پر ہے۔ ہندوستان نے ایران کی چابہار (Chabahar) بندرگاہ اور وہاں سے افغان ایران سرحد پر زارنج تک جدید ترین چار رویہ شاہراہ تعمیر کی ہے جو تمام موسموں میں قابلِ استعمال ہوگی، لیکن طالبان نے زارنج کی خشک بندرگاہ کو عملاً معطل کرکے اس سارے منصوبے پر خطِ تنسیخ پھیر دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گوادر BRIکا جنوب میں نقطہ آغاز ہوگا۔ مودی جی نے گفتگو کے دوران بحرجنوبی چین اور آبنائے ملاکا کے ساتھ بحرعرب اور بالخصوص گوادر پر نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
خبر ہے کہ اس حوالے سے چاروں ملکوں کے ماہرینِ سلامتی کا اجلاس بھی ہوا جس میں قومی سلامتی کے لیے وزیراعظم مودی کے مشیر اجیت دوال نے علاقائی صورت حال اور افغانستان پر طالبان کے اقبال سے جنم لینے والے خدشات و خطرات کا جائزہ پیش کیا۔ ان سرگرمیوں اور پیش بندیوں سے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں جہاں آبنائے ملاکا، بحر انڈمان، خلیج بنگال اور بحرہند کی ساتھ بحر عرب کے شمال مغربی کنارے پر بھی کشیدگی بڑھے گی وہاں دوسری طرف افغانستان کو یکہ و تنہا کرکے دیوار سے لگانے کی مہم بھی علاقائی امن کو سنگین خطرات سے دوچار کرسکتی ہے۔
صاحبِ نظراں!! نشّہِ طاقت ہے خطرناک
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔