مستقبل میں کشمیر، افغانستان سے زیادہ اہم

پروین ساہنی بھارت کے ایک معروف دانشور، فوج کے سابق افسر اور ’’فورس‘‘ میگزین کے ایڈیٹر ہیں۔ چند دن قبل انہوں نے مقبوضہ وادیٔ کشمیر کا دورہ کرکے انتظامی اور اعلیٰ افسروں، فوجی عہدیداروں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقاتیں کرکے کشمیر کے حال اور مستقبل کے حوالے سے ایک اہم تجزیہ کیا۔ پروین ساہنی نے جھیل ڈل کے کنارے سے اپنے مشاہدات اور تاثرات پر مبنی ساڑھے اٹھارہ منٹ کی ایک وڈیو بھی ریکارڈ کی، جس سے کشمیر کے اندرونی حالات اور بیرونی پرتوں کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے۔ پروین ساہنی کے مطابق اُن کی تمام ملاقاتوں کا حاصل یہ تھا کہ ہر فرد یہ تسلیم کررہا ہے کہ کشمیر ایک کانفلیکٹ زون ہے۔گویا کہ یہاں سب اچھا نہیں۔ کشمیر کے لوگ پاکستان سے شدید ناراض ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے پانچ اگست کے بعد سے کچھ نہ کچھ تو کیا مگر وہ بھارت کا ہاتھ روکنے اور جواب دینے کے لیے اور زیادہ کرسکتا ہے۔ گویا کہ کشمیریوں کو دغا دئیے جانے کا قلق ہے، اور پاکستان سے ان کی مایوسی کی وجہ کوئی براہِ راست کشمکش نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ پاکستان نے انہیں بھارت سے بچانے اور اس کے پنجے سے چھڑانے کے لیے زیادہ منظم حکمت عملی اختیار نہیں کی۔کل اگر پاکستان اپنی پالیسی میں جان ڈالے گا تو کشمیریوں کا یہ گلہ دور ہوجائے گا۔ تیسری اہم بات یہ کہ اب کشمیریوں کی تمام امید چین سے وابستہ ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ چین انہیں حق دلانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم اُٹھائے گا۔ یہ تینوں نکات بہت اہم ہیں اور بھارت نے کشمیر کو فوجی لحاظ سے اپنے قبضے میں رکھنے کے لیے کئی اقدامات اُٹھائے ہیں۔ پانچ اگست کو بھارت کو جو کچھ کرنا تھا وہ اُس نے کرلیا، اور یوں اپنے تمام کارڈ پھینک دئیے ہیں۔ اب بھارت کو کشمیر پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے کوئی قدم اُٹھانا باقی نہیں رہا۔ اب گیند چین کے کورٹ میں ہے۔ پانچ اگست کا قدم کشمیریوں کے لیے اچھی خبر اور خود بھارت کے لیے بری خبر ثابت ہوا ہے۔ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ بھارت نے شملہ معاہدے کے تحت بننے والے دوطرفہ مسئلے کو جیوپولیٹکل مسئلہ بنا دیا ہے۔ چین اور پاکستان جیسے دو اسٹرے ٹیجک پارٹنرز کو مزید گرم جوشی دکھانے کے لیے محاذ دے دیا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ لداخ میں اس کی سرحدوں کا تعین نہیں ہوا۔ گویا کہ وہ جہاں تک آگے بڑھنا چاہے، بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان بھی کشمیر کو کور ایشو بنائے ہوئے ہے۔ دنیا یونی پولر رہتی ہے یا نہیں، مگر مستقبل میں کشمیر افغانستان سے بڑا فلش پوائنٹ بنے گا۔ چین نے کشمیر کے حوالے سے فرنٹ سیٹ سنبھال لی ہے۔ افغانستان میں چین کی دلچسپی صرف اتنی ہے کہ اسے وہاں ملیٹنسی رکھنے کی جگہ مل گئی، یا بیلٹ اینڈ روڈ کو آگے لے جانے کا راستہ مل گیا، مگر کشمیر میں چین کی سلامتی کو چیلنج کیا گیا، اور وہ اس راستے پر آگے بڑھتا جائے گا۔
پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ بھارت نے کشمیر سے جو کچھ چھینا ہے وہ اسے وادی کے مسلمان لیڈروں کو لوٹائے گا نہیں، بلکہ ریاست کا درجہ بحال ہونے کے بعد بھارت کی کوشش ہوگی کہ انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ جموں سے آئے۔کیونکہ اس وقت کشمیر میں اوپر سے نیچے تک تمام انتظامیہ بھارت سے لائی گئی ہے اور وہ اسی مقصد کے لیے کام کررہی ہے۔
آخر میں تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ بھارت کو پاکستان سے بات چیت کرنا ہوگی اور چین کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک باج گزار نہیں بلکہ خودمختار ریاست ہے، اس لیے بھارت کو پاکستان سے بات کرنا ہوگی تاکہ مستقبل کی دومحاذوں کی جنگ کو ٹالا جا سکے۔
بھارت کے معروف دانشور کے ان خیالات کے آئینے میں حکومت و ریاستِ پاکستان کو اپنی کشمیر پالیسی کا جائزہ لینا ہوگا۔کشمیری عوام کی ناراضی اور مایوسی پر دھیان دینا ہوگا، اور یہ دیکھنا ہوگا کہ آخر وہ کیا اقدامات تھے جو پانچ اگست کے فوری بعد اُٹھائے جا سکتے تھے مگر اُٹھائے نہیں گئے جس سے میچ فکسنگ کی باتیں بھی ہوتی رہیں۔ یہ تجزیہ نریندر مودی کے خوابوں کو چکنا چور کررہا ہے جو کشمیر کو جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنانے کا تصور لیے بیٹھا ہے۔گیند کے چین کے کورٹ میں جانے کی بات میں اس لحاظ سے وزن ہے کہ کلکتہ کے اخبار ’’ٹیلی گراف‘‘ نے ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ چین لداخ، ارونا چل پردیش اور اتراکھنڈ میں بھارتی سرحد کے قریب دس نئے ائر بیس تعمیر کرچکا ہے۔ ان علاقوں میں اضافی فوجی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، اور بھارتی فوج کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کے لیے واچ ٹاورز سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جا چکے ہیں۔ چین بھارت کے ساتھ مذاکرات کو لداخ میں اپنی فوجی پوزیشنوں کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ چین لداخ میں گلوان وادی، پنگانگ جھیل اور گوگرا میں جتنا پیچھے ہٹا ہے بھارت کو بھی چارو ناچار اتنا ہی پیچھے ہٹنا پڑا ہے حالانکہ بھارت اس علاقے کو اپنا حصہ سمجھتا تھا اور چین کو درانداز قراردیتا تھا، مگر حالات کا جبر تھا کہ بھارت کو اپنا یہ مؤقف ترک کرنا پڑا۔ خطے میں چین کے کشمیر پر ہراول دستہ بننے کی پروین ساہنی کی بات کے تناظر میں اس ساری صورتِ حال کو دیکھا جائے تو بھارت ایک دلدل میں دھنستا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔