سعودی عرب کی کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنس دانوں نے نمکین پانی اور دھوپ کے ذریعے ٹھنڈک پیدا کرنے والا ایک ایسا نظام ایجاد کرلیا ہے جسے بجلی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فی الحال یہ نظام تجرباتی مرحلے میں ہے اور اسے مختصر پیمانے پر کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس نظام کی تیاری میں ’’حالت کی تبدیلی‘‘ (فیز چینج) کہلانے والا ایک قدرتی مظہر استعمال کیا گیا ہے۔ اس مظہر کے تحت نمک کی ٹھوس قلمیں (سالڈ کرسٹلز) پانی میں حل ہونے کے دوران توانائی جذب کرتی ہیں۔ یعنی گرم پانی میں نمک کی قلمیں شامل کرنے پر وہ تیزی سے ٹھنڈا ہوجائے گا۔ کئی طرح کے نمک استعمال کرنے کے بعد ماہرین کو معلوم ہوا کہ ٹھنڈک پیدا کرنے کے معاملے میں ’’امونیم نائٹریٹ‘‘ کہلانے والے ایک نمک کی کارکردگی سب سے زیادہ ہے۔
یہ پانی میں بہت تیزی سے حل ہوتا ہے، لہٰذا اس میں ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت نوشادر (امونیم کلورائیڈ) سے چار گنا زیادہ ہے، جو اس موازنے میں دوسرا سب سے بہتر نمک ثابت ہوا تھا۔ ابتدائی تجربات کے دوران جب امونیم نائٹریٹ اور پانی کو دھاتی کپ میں رکھا گیا تو صرف 20 منٹ بعد ہی پانی کا درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم ہوکر 3.6 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد بھی تقریباً 15 گھنٹوں تک اس دھاتی کپ کا درجہ حرارت 15 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رہا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امونیم نائٹریٹ کا استعمال بڑے پیمانے پر مصنوعی کھاد بنانے میں ہوتا ہے، جبکہ یہ بہت کم خرچ بھی ہے۔ لہٰذا ٹھنڈک پیدا کرنے والے کسی نظام میں اس کا استعمال بھی بہت آسان رہے گا۔ اب ماہرین اس نظام کو مزید بہتر بناکر ایسی صورت میں لانا چاہ رہے ہیں کہ جس میں سورج کی گرمی سے پانی کو بھاپ بنا کر اُڑا دیا جائے اور بچ رہنے والے امونیم نائٹریٹ کو ایک بار پھر سے استعمال کرلیا جائے۔ خشک اور صحرائی علاقوں میں پانی بچانے کےلیے اسی نظام کے ساتھ اضافی طور پر شمسی قرنبیق (solar stills) بھی لگائے جاسکتے ہیں جو بھاپ جمع کرکے اسے پانی میں تبدیل کریں اور دوبارہ سے اس نظام میں بھیج دیں۔ تکنیکی طور پر ایسا ممکن ضرور ہے لیکن اس کے لیے ماہرین کو درجنوں، بلکہ شاید سیکڑوں ڈیزائن آزمانے ہوں گے تاکہ ایک ایسا مؤثر نظام وضع کیا جاسکے جو نہ صرف بڑے پیمانے پر کارآمد ہو بلکہ کم خرچ بھی رہے۔