موجودہ زمانے میں ’’بچہ‘‘ میں شخصیت کا جلد پیدا ہوجانا اچھی بات سمجھا جاتا ہے، نئے بچوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اتنی چھوٹی عمر میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کے بزرگوں کو اچھی خاصی بڑی عمر تک معلوم نہیں ہوسکیں۔ ایسے بچے جن میں شخصیت جلدی پیدا ہوجائے انہیں ذہین سمجھا جاتا ہے، اور ماں باپ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اپنے دوستوں کو اُن کی ذہانت کے کرتب دکھلاتے ہیں۔ ایسے بچوں کی ذہانت میں کوئی کلام نہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ وقت سے پہلے ’’قیدی‘‘ بن چکے ہوتے ہیں۔ بچوں ہی کو نہیں، بڑوں کو بھی قیدی بنانے کی ترکیبیں ہمیں معلوم ہوچکی ہیں۔ ہماری حکومتیں اعزازات اور تمغے دیتی ہیں، پبلسٹی کے ادارے تصویریں چھاپتے ہیں، اور تاجر حضرات ریڈیو اور ٹیلی وژن پر گا گا کر ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ اگر ہم نے ان کی مصنوعات استعمال کیں تو ہر طرح کی پسندیدگی اور کامیابی ہمارے گرد چکر لگائے گی۔
میں نے کہا شخصیت کا ڈیزل وہ پسندیدہ تصورات ہیں جو بچہ اپنے ماں باپ یا ماحول سے اخذ کرتا ہے، استادوں اور کتابوں سے سیکھتا ہے، مشاہدے اور مطالعے سے حاصل کرتا ہے۔ یہ شخصیت کا مثبت پہلو ہے۔ شخصیت کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔ منفی پہلو شخصیت ان روایتی معنوں میں پسندیدہ تصورات کے برعکس عمل کرتی ہے۔ ایسے بچے ان مسلم اقدار و تصورات کے خلاف ہوتے ہیں جو گھر اور معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ وہ ان کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ اس عمل سے ڈاکو اور انقلابی استاد، یا کوئی اور شفیق بزرگ، معاشرے کی کامیاب شخصیتیں بالعموم ’’مثبت‘‘ اور ناکام شخصیتیں بالعموم منفی ہوتی ہیں۔ میں تو جب کسی منفی شخصیت کو دیکھتا ہوں تو سب سے پہلے اس کے ماں باپ کے ’’ابتدائی ماحول‘‘ کے بارے میں سوچتا ہوں۔ موجودہ معاشرے میں بغاوت کا جو عام رجحان چلا ہوا ہے اس کا آغاز ہمارے گھروں میں ہوا ہے۔ بعض شخصیتیں مثبت اور منفی عمل کا آمیزہ ہوتی ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک تضاد اور کشمکش بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیشہ ایسی شخصیتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان کی ابتدائی زندگی میں ماں باپ کے معیاراتِ پسندیدگی مختلف تھے، یا جہاں سے بھی انہوں نے یہ معیارات اخذ کیے ہیں ان کے سرچشموں میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ کبھی کبھی یہ کشمکش اتنی شدید ہوتی ہے کہ انسان کسی قسم کے عمل ہی کے ناقابل ہوجاتا ہے، اور بعض اوقات اس کا نتیجہ اختلافِ ذہنی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔
(سلیم احمد۔ ”عسکری حسن اور غالب اقبال“)
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
آج امتِ مسلمہ کی زبوں حالی دیکھیں تو کل سے بڑھ کر آج یہ شعر حقیقت کی نمائندگی کررہا ہے کہ درجنوں ملکوں کے مالک ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنادیا گیا ہے۔ آج بغداد، دمشق اور طرابلس کی آبادیوں کو ویرانے بنادیا گیا ہے، لاکھوں مسلمانوں کو جرم بے گناہی میں نیست و نابود کردیا گیا ہے، اور مسلمانوں کا اپنا حال یہ ہے کہ رب کائنات کی آخری آسمانی کتاب جیسا ہدایت بھرا نورانی کلام چھوڑ کر مغربی غلامیوں میں ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔ ان کے ایمانی جذبے ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں، ان کے وجود عموماً راکھ کے ڈھیر کا منظر پیش کررہے ہیں۔