کشمیر پر جب سے بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا ہے، کشمیری مسلمان ظلم و ستم کے کئی ادوار سے گزر چکے ہیں۔ انہیں مسلسل بھارتی حکومت اور مسلح افواج کے ظالمانہ اقدامات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، مگر آفرین ہے کشمیری مسلمانوں پر کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی، ہزاروں نوجوانوں کی عقوبت خانوں میں منتقلی، مائوں بہنوں کی عصمتوں کی پامالی، اور اب دو سال سے زیادہ عرصے سے لاک ڈائون اور کرفیو وغیرہ کی ناقابلِ برداشت پابندیوں کے باوجود انہوں نے کسی بھی مرحلے پر جذبۂ حریت کو ماند ہونے دیا ہے اور نہ تحریکِ آزادی کو سرد پڑنے دیا ہے۔ تاہم ایک وقت تھا کہ کشمیری مسلمانوں کی اس جدوجہدِ آزادی کو کم و بیش تمام مسلم اور حریت پسند اقوام کی حمایت حاصل تھی، مگر بدقسمتی سے گزشتہ دو عشروں کے دوران ایسے حکمران نصیب ہوئے، کشمیر کی آزادی جن کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی، اور انہوں نے بانیِ پاکستان کے اس فرمان کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ کو فراموش کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے نت نئے فارمولے پیش کرکے جدوجہد آزادی کو شدید نقصان پہنچایا، اور کشمیری مسلمانوں میں بھی پاکستان سے متعلق مایوسی کے جذبات کو فروغ حاصل ہوا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ سید علی گیلانیؒ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے جنہوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ نہایت حکمت و بصیرت اور دوراندیشی سے حالات کا مقابلہ کیا اور مقبوضہ کشمیر کے عوام میں آزادی کے لیے تڑپ میں کمی نہیں آنے دی، البتہ ہمارے حکمرانوں کی سردمہری اور لاتعلقی، اور دوسری جانب بھارتی حکومت کی جارحانہ حکمت عملی و سفارت کاری کا نتیجہ اس صورت میں سامنے آیا کہ آج اکثر مسلمان ممالک اور آزادی پسند غیر مسلم ممالک بھی اپنا مؤقف تبدیل کرچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا منشور کشمیر کے عوام کو مسلح جدوجہدِ آزادی کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ آزاد خطے کے لوگوں کو اپنے مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کا حق بھی حاصل ہے، مگر اسے ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی ہی کہا جائے گا کہ آج دنیا آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مدد کو مداخلت قرار دیتی ہے، بلکہ اسی پالیسی کے سبب پاکستان کو آج ایف اے ٹی ایف کی جکڑ بندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے عالمی دبائوکے تحت بھارت کو کنٹرول لائن کے ساتھ ساتھ آہنی باڑ لگانے کا موقع بھی فراہم کیا ہے، مگر اس سب کے باوجود پاکستان پر الزامات اور دبائو کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا۔
بھارت نے صورتِ حال کو اپنے حق میں سازگار بنانے کے بعد 5 اگست 2019ء کو اپنے آئین کی دفعات 370 اور 35 اے ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا ہے، اور اب مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی واضح اکثریت کو ختم کرنے کے لیے سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں عوام کو ہر طرح کے بنیادی حقوق سے محروم کرکے کرفیو اور لاک ڈائون کے ذریعے ان کی زندگی اجیرن بنادی گئی ہے، مگر اس تمام ظلم و ستم کے باوجود ترکی اور ایک آدھ دوسرے ملک کے سوا کسی جانب سے صدائے احتجاج بلند کی گئی ہے، نہ ہی بھارتی اقدامات کی مذمت میں کوئی آواز سنائی دی ہے، جب کہ بہت سے اہم مسلمان ممالک بھارت سے تجارت اور دوستانہ تعلقات تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔ ظاہر ہے اسے ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ اس افسوس ناک صورتِ حال میں یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ پاکستان کے اربابِ حل و عقد نے بھی اپنی خارجہ حکمت عملی پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے، چنانچہ ٹھوس سمعی و بصری شواہد پر مشتمل ایک یادداشت تیار کرکے اس کی مؤثر تشہیر اور متعلقہ حلقوں تک پہنچانے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ 131 صفحات پر مشتمل اس یادداشت (ڈوزیئر) میں بھارت کے جنگی جرائم اور مسلمہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ یادداشت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، رکن ممالک کے مستقل مندوبین، انسانی حقوق کونسل، برطانوی ایوانِ نمائندگان، یورپی پارلیمان، امریکی کانگریس اور متعلقہ کمیٹیوں، اسلامی تعاون تنظیم اور ستّر سے زائد ممالک کے سفارتی مشنز تک پہنچائی گئی ہے۔ دفتر خارجہ نے پاکستان میں موجود غیر ملکی سفیروں، ہائی کمشنرز اور دیگر سفارت کاروں کو اس ضمن میں بریفنگ بھی دی ہے۔ دفتر خارجہ کی جانب سے اس سنجیدہ اور جارحانہ سفارت کاری کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں، اور مختلف عالمی اداروں اور کئی ممالک کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے دبائو میں اضافہ ہوا ہے، جس سے افغانستان میں ہزیمت سے دوچار ہونے والے بھارتی حکمرانوں کی پریشانیوں میں یقیناً اضافہ ہوا ہے۔ ادھر افغانستان میں قائم ہونے والی عبوری حکومت نے اپنے ابتدائی ایام ہی میں جن عالمی امور پر اپنا مؤقف واضح کیا ہے اُن میں مسئلہ کشمیر سرفہرست ہے۔ افغان عبوری حکومت کے نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک تازہ بیان میں کشمیر، میانمر اور فلسطین کے مظلوم بھائیوں کی سیاسی و سفارتی مدد و حمایت کے طالبان کے مؤقف کا اعادہ کیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کشمیر میں بھارتی مظالم بند کرائے۔ بین الاقوامی برادری اور خصوصاً افغان طالبان کی جانب سے کشمیری مسلمانوں کی حمایت میں یہ سازگار فضا غنیمت ہے۔ ہماری حکومت کی جانب سے بھارت پر اس دبائو میں اضافے کے لیے کوششوں کو جاری رکھنے اور مزید مربوط و مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
(حامد ریاض ڈوگر)