اُردوکا چرخہ اور ہماری چَرَّخ چُوں

ہمارے ’ہم کالم‘ بھائی خورشید احمد ندیم اچھی اردو لکھتے ہیں۔ ہم ان کے کالموں کا مطالعہ صرف رواں، رسیلی اور شستہ اردو سے لطف اندوز ہونے کی لالچ میں کرتے ہیں۔ پُرکھوں نے سچ کہا ہے: ’لالچ بری بلا ہے‘۔ کبھی بلائے جان اور کبھی ’بلائے بیان‘ بن جاتی ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ ہفتے (11 ستمبر 2021ء کو) اُن کا کالم بعنوان ’’اُردو یا انگریزی‘‘ روزنامہ ’دنیا‘میں شائع ہوا۔گو کہ مضمون میں ہمارے مطلب کی اور بھی باتیں ہیں، جن پر گفتگو ضروری ہے۔ تاہم ایک اہم نکتہ، بڑی دل گرفتگی اور دل سوزی سے، انھوں نے یہ بیان کیاکہ
’’وہ کلچر اب باقی نہیں جس سے تشبیہ و استعارہ اُٹھے تھے۔ چرخہ اب کہیں نہیں ہے۔ نئی نسل نے چرخہ دیکھا نہ اس کی کوک سنی۔‘‘
آخری فقرہ پڑھ کر تو ہم بھی کُوکنے لگے۔ لوجی! ’ایں ہم بچّۂ شتر است‘۔ یہ بزرگوار بھی نئی نسل کے نکلے۔ ’چرخہ‘ انھوں نے بھی نہیں دیکھا۔ خیر، چرخہ نہیں دیکھا تو’چرخی‘ تو ضرور ہی دیکھی ہوگی، جس پر پتنگ باز مانجھا لپیٹ رکھتے ہیں۔ چرخی چلانے کو آدمی الگ سے مقرر کیا جاتا ہے۔ پیچ پڑ جائے تو ہر ڈھیل اور ہر کھچائی کے ساتھ، مانجھا چھوڑنے اور لپیٹنے کو مردِ مذکور اپنی گردن اورچرخی گھماتا رہتا ہے۔ اسی پر چرخے کو قیاس کیجیے۔ ’چرخہ لفظ ’چرخی‘ کی تکبیر ہے، بلکہ ’تکبیر مسلسل‘۔ اسے ہاتھ سے گھمایا اور ہاتھ سے چلایا جاتا، تاکہ تشبیہ، استعارہ اور سوت کاتا جاسکے۔ سوت کات کر گاندھی جی اپنی دھوتی اور شال خود بُن لیا کرتے۔ یہ مشقت وہ انگریزوں سے’عدم تعاون‘کے لیے اُٹھاتے تھے۔ اُن کی قید تو بامشقت ہوتی ہی تھی، آزادی بھی کم بامشقت نہ تھی۔ برقی صفحات پر شاید گاندھی جی کی چرخہ چلاتی تصویریں آج بھی دیکھنے کو مل جائیں۔ خیر صاحب، قصہ مختصر کیجیے، چرخہ بے چارا ’چرّخ چوں‘ تو کرسکتا ہے مگر کُوک نہیں سکتا۔ گرمیوں کی دوپہر میں آم کے باغات میں کوئل کُوکتی ہے۔ آوازسُریلی اور سیٹی جیسی تیز ہوتی ہے، سحرؔ لکھنوی کا دل دہلا دیتی ہے:
فزوں تیر سے کُوک کوئل کی ہے
نہ پوچھو جو حالت مرے دل کی ہے
(فُزُوں کا مطلب ہے بڑھی ہوئی، زیادہ) فاختہ اور قُمریاں بھی ’کُوکُو‘ کرتی پھرتی ہیں۔ پپیہے کی پُکار بھی کُوک کہلاتی ہے۔ شب بیدار چوکی دار بھی ایک دوسرے کو بیدار رکھنے کے لیے کُوک مارا کرتے تھے۔ ’’کُو اُو اُؤ‘‘ جیسی سُریلی آواز نکالا کرتے۔ گھڑی یا کسی کھلونے میں جو چابی بھری جاتی ہے، اُس کو بھی کوک بھرنا کہتے ہیں۔ چابی ختم ہوجاتی، گھڑی رُک جاتی تو کہا جاتا ’کوک اُتر گئی‘۔ چرخے میں چابی بھرتی ہے، نہ بھونپو بجتا ہے۔ غلط فہمی شاید اس وجہ سے ہوئی کہ وہ جو حضرت مولانا اسمٰعیلؔ میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ فرماگئے ہیں کہ
نہر پر چل رہی ہے پن چکی
دُھن کی پوری ہے کام کی پکی
تو جب یہ چکّیاں چلتی تھیں توکام کی دُھن میں ’کُوکنے‘ لگتی تھیں۔ اُن کی کُوک دُور تک سنائی دیتی۔ مشین چلنے پر ’’کُوہُو … کُوہُو‘‘ کی جو تیز آواز آتی تھی وہی کُوک کہلاتی تھی۔ بعض چکیاں پانی کے زور سے نہیں، ہوا کے زور سے چلائی جاتی تھیں۔ ہوا سے چلنے والی چکی کو ’پَن چکی‘ کی جگہ ’پَوَن چکی‘ کہا جاتا تھا۔ ان چکیوں سے اناج پیسنے کا کام لیا جاتا۔ پن چکی انگریزی میں Water Mill اور پون چکی Wind Mill کہلاتی تھی۔ اسمٰعیلؔ میرٹھی مرحوم کی پن چکی غالباً آٹا پیسنے پر مامور تھی تاکہ شاعر، اُس کی شاعری اور لوگوںکا پیٹ بھر سکے:
پیسنے میں لگی نہیں کچھ دیر
تُو نے جھٹ پٹ لگا دیا اِک ڈھیر
لوگ لے جائیں گے سمیٹ سمیٹ
تیرا آٹا بھرے گا کتنے پیٹ
’پن چکیاں‘ بالعموم نہر کے کنارے کھیتوں میں نصب کی جاتی تھیں۔ اُردو کے افسانوں میں اس قسم کے رُومانوی فقرے اکثر پڑھنے کو ملتے ہیں: ’’دُور کہیں کھیتوں میں چلتی پَن چکّی کی کُوک ماحول میں گونج رہی تھی…‘‘ حاصلِ کلام یہ کہ ’چرخے کی کُوک‘ توکبھی پرانی نسل نے بھی نہیں سنی، نئی نسل کیا سنے گی! پُرانی نسل بچاری چرخہ کاتتے کاتتے خود چرخہ ہوگئی۔ ’چرخہ ہوجانا‘ اردوکا محاورہ ہے۔ انجر پنجر ڈھیلا ہوجانے، خستہ حال، کمزور، ضعیف اور لاغر ہوجانے کو کہتے ہیں۔ ’انجر پنجرڈھیلا ہوجانے‘ والے معنوں کو استعمال کرتے ہوئے اُس شخص کو، جس کے دماغ کی چُولیں ڈھیلی ہوگئی ہوں ’اُلّو کا چرخہ‘ کہا جاتا ہے۔ مراد ہے نہایت بے وقوف اور احمق شخص۔ اپنے اِردگرد نظر دوڑائیے، کوئی نہ کوئی نظر آہی جائے گا۔ کوئی نظر نہ آئے تو آئینے پر نظر ڈال لیجیے۔ کام چل جائے گا۔
بھگت کبیرؔداس نے زمین و آسمان کو بھی چکی کے دو پاٹ قرار دیا۔ قرار دیتے ہی حسبِ عادت رونے بیٹھ گئے:
چلتی چکی دیکھ، دیا کبیراؔ روئے
دُوئی پاٹن کے بیچ، ثابت بچا نہ کوئے
سنا ہے کہ اس گرو کے کسی چیلے نے اس دوہے کے جواب میں کہا:
اِلّا پکڑے جو، ثابت بچا ہے ووئے
اتنا تو سب ہی کو پتا ہوگا کہ چکی کے دو پاٹ بھاری بھاری پتھروں کے پاٹ ہوتے ہیں، جن کی باہمی رگڑ سے اُن کے بیچ میں ڈالا جانے والا اناج پستا ہے۔ اوپری پاٹ کو گھمانے کے لیے، کسی کنارے سے پتھر کاٹ کر ایک کھونٹا ٹھونک دیا جاتا ہے۔ اس کھونٹے کو ’اِلّا‘کہتے ہیں۔ اگر ’اِلّا‘کے نچلے حصے کے خلا میں کوئی دانہ پھنس جائے تو وہ پِس نہیں پاتا۔ شارحین نے اس مصرعے میں ’اِلّا‘ کو ذوالمعنین یعنی دو معنوں والا قرار دیا ہے۔ دوسرے معنی ’اِلّا اللہ‘ سے لیے گئے ہیں۔ جس نے ’اِلّا اللہ‘ کا کھونٹا پکڑلیا وہ پسنے سے بچ گیا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’ذُومعنی‘ کا مطلب ہوتا ہے: ’معنی والا یا معنی خیز‘۔ اس کا مطلب ایک لفظ کے دو معنی نہیں، جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں، اور ذوالمعنَین کے معنوں میں صرف ذُومعنی بولتے ہیں۔ ’ذُو‘ کامعنٰی’والا‘ ہوتا ہے، جیسے ذو الجلال کا مطلب جلال والا۔
ہمارے بچپن میں ہماری گلی میں ایک نابینا فقیر آیا کرتا تھا۔ بڑی درد بھری پُکار سے کہتا: ’انکھیاں والو! انکھیاں بڑی نِیامت ہیں‘۔ اُس زمانے میں ہم پر اصلاحِ تلفظ کا بھوت سوار نہیں ہواتھا۔ ہوا ہوتا تو شاید وہ ’دھاکڑ‘ بابا ہمیں بھی بھوت بنا دیتا۔ بہر حال اُسی بابا کی پیروی یا پیروڈی کرتے ہوئے یہ کہنے کا جی چاہتا ہے کہ’رونے والو! رونا بڑی نیامت ہے‘۔ کبیرؔداس تو بات بات پر رو دیا کرتے تھے، خواہ وہ بات ہنسنے ہی کی کیوں نہ ہو۔ مثلاً:
رنگی کو نارنگی کہیں اور بنے دودھ کو کھویا
چلتی کو گاڑی کہیں یہ دیکھ کبیراؔ رویا
اُردو کا رونا رونے میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر غازی علم الدین اور جناب رضا علی عابدی سمیت آج کل بہت سے لوگ مصروف ہیں۔ ہمیں اور برادر خورشید ندیم کو بھی انھیں اہلِ گریہ میں ڈال لیجیے۔ مگر رونا کاہے کا؟ اُردو کی فتوحات تو بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اُردو کا جادُو (کسی بھوت کی طرح) لوگوں کے سر چڑھ چکا ہے اور وہیں چڑھے چڑھے (اُردو) بول رہا ہے۔ اُردو کی ہمہ جہتی کے موضوع پر اور برادر خورشید ندیم کے کالمانہ خیالات پر گفتگو تو آج رہ ہی گئی۔ آج ہم اپنی طُرفہ طبیعت کے ہاتھوں مشقِ سخن کے ساتھ ساتھ چکی کی مشقت کرتے اورکوک بھرا چرخہ ہی چلاتے رہ گئے۔ چلیے پھر کبھی سہی۔ فی الوقت تو اپنی چَرَّخ چُوں یہیں بند کرتے ہیں۔