محفل ِ دیرینہ

کتاب
:
محفل ِ دیرینہ
مصنف
:
ڈاکٹر ظفر حسین ظفر
صفحات
:
151 قیمت:375 روپے
ناشر
:
نشریات، اردو بازار ، لاہور
فون
:
0321-4589419
ڈسٹری بیوٹرز
:
کتاب سرائے، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار لاہور، فضلی بک سپر مارکیٹ، اردو بازار کراچی

021-32212991

پروفیسر ڈاکٹر ظفر حسین ظفر صاحب دینی ذہن رکھنے والے محبِ وطن پاکستانی کشمیری استاد ہیں۔ صاحبِ تصنیف ہیں۔ اس کتاب سے پہلے درج ذیل کتب تصنیف و مرتب کرچکے ہیں:
’’تذکار رفیع‘‘ (ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)، ’’سید مودودیؒ کے خطوط، ’’وادیٔ گل پوش‘‘، ’’سوئے حرم‘‘، ’’مکاتیب رفیع الدین ہاشمی بنام ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر‘‘ (ترتیب)، ’’سیر کشمیر مولانا غلام رسول مہر‘‘ (ترتیب)، اقبال اور خاکِ ارجمند
اس کتاب میں ڈاکٹر ظفر صاحب نے اپنے دورِ طالب علمی اور جوانی کی چند یادیں رقم کی ہیں۔ ان کا دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رہا ہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں:
’’امتدادِ زمانہ سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ زمانے نے ایسی قیامت کی چال چلی ہے کہ ہر شے کی نوعیت اور انداز و اطوار تبدیلی کی زد میں ہیں۔ باہم رابطوں کے لیے جدید اور تیز تر ذرائع نے ہزاروں میل کی دوری کو بہ ظاہر ختم کردیا ہے، لیکن دلوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں۔ کہنے کو تو یہ سوشل میڈیا ہے، لیکن حقیقت میں اس سوشل میڈیا نے سماجی ارتباط کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
سوشل میڈیا کی خودنمائی کی دوڑ میں ’’دیدۂ دل‘‘ وا کرنے کی فرصت کسے ہے؟ دل کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے بصارت سے زیادہ بصیرت مطلوب ہے، اور بصیرت کے لیے نہاں خانۂ دل میں ایمان اور یقین کی کوئی شمع روشن کرنا پڑتی ہے، جو دلوں کے زنگ اتارتی ہے۔
پچھلے دنوں ہمارے دورِ طالب علمی کے بعض احباب نے Pioneer کے نام سے ایک Whatsapp گروپ تشکیل دے کر کھوئے ہوئوں کی جستجو شروع کی تو بات کچھ آگے بڑھی۔ اللہ اللہ! کیسے کیسے نام اور اُن کے ’کارہائے نمایاں‘ لوحِ ذہن پر دستک دینے لگے۔ کسی دوست نے ایک پوسٹ لگائی کہ احباب اپنی تازہ تصاویر اس گروپ میں شیئر کریں۔ سچ جانیے ان تازہ تصاویر کو دیکھ کر تو ہمارے ہوش ہی اڑ گئے۔ یہ کھنڈرات تو 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کو بھی مات دے گئے ہیں۔ خدایا! کیسی صورتیں کھنڈرات میں بدل گئی ہیں۔
دورِ طالب علمی میں ہم نے کوئی خاص معرکہ تو نہیں سر کیا تھا، البتہ سال کے 365 دنوں میں نصابی سے زیادہ ’’ہم نصابی‘‘ سرگرمیاں ہمیں مضطرب اور بے چین رکھتی تھیں۔ اُس دور میں یونیورسٹی میں مختلف طلبہ تنظیموں سے وابستہ کوئی بیس، پچیس ’نفوس‘ ایسے تھے جنہیں کسی پَل چین نصیب نہیں ہوتا تھا۔ سکون اُن کی زندگی میں محال تھا۔ بس اُن کی زندگیاں حرکت سے عبارت تھی۔ پورے دورانیے میں نہ خود آرام کیا، نہ اوروں کو آرام سے رہنے دیا۔ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے کی مانند ایک اضطراب اور بے قراری اُن ’نفوس‘ کے وجود سے ٹپکتی تھی۔
وہ دور واقعتاً ایک طوفان کی مانند تھا، جس سے ہر لحظہ ہم معرکہ آرا تھے۔ اس کتاب میں قارئین کو انہی چیدہ چیدہ واقعات و حوادث کی کچھ جھلکیاں ملیں گی۔ اس پورے ہنگامی دور میں اٹھنے والی تحریکات اور دیگر سرگرمیوں کو احاطۂ تحریر میں لانا میرے لیے مشکل ہے۔ بس آغاز کردیا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ یقین ہے کچھ اور دوست بھی اپنے تجربات اور مشاہدات کو قلم بند کریں گے تو ایک عہد کی کہانی کسی حد تک مکمل ہوجائے گی۔
قارئین! آئندہ سطور میں جو کچھ آپ پڑھیں گے، یہ دراصل ہمارے ’نامۂ سیاہ‘ کا ایک باب ہے، لیکن ’نقل بمطابق اصل‘ کی توقع نہ رکھیے، کچھ نہ کچھ تحریفات کی ’بدعتِ حسنہ‘ تو زیبِ داستان کے لیے کرنا ہی پڑتی ہے۔
زرعی یونیورسٹی راولاکوٹ کی مہکتی یادوں کے علاوہ اس کتاب میں چار اور تحریریں بھی ہیں جن میں دبستانِ سردار بہادر علی خان اور ڈگری کالج عباس پور کے روز و شب کا احوال ہے۔ ایک مضمون ’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو‘ کے عنوان سے ہے، جس میں ہمارے پہاڑی کلچر کے کچھ خدوخال واضح کیے گئے ہیں، جو اب تقریباً معدوم ہوچکے ہیں۔ آخر میں ’ہڑتال‘ کے عنوان سے ایک ہلکی پھلکی تحریر ہے۔ اس میں بھی ہمارے عہد کی طلبہ سیاست کی کچھ جھلکیاں موجود ہیں۔ چوں کہ یہ تحریریں، ایک خاص دور، ایک خاص علاقے، ایک تعلیمی ادارے اور کسی حد تک ایک طلبہ تنظیم کی سرگرمیوں پر محیط ہیں، اس لیے ان میں مقامیت یا محدودیت کا احساس شاید نمایاں ہو، لیکن سچ یہ ہے کہ اس ناچیز کو تھوڑی بہت اپنی علاقے سے باہر جو پہچان ملی ہے وہ اسی ’مقامیت‘ کا ثمر ہے۔ سو جہاں ہے، جیسا ہے کی بنیاد پر قبول فرمایئے‘‘۔
جن عنوانات کے تحت یہ مضامین لکھے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
-1 دن جو گزرے دبستان میں
-2 زندہ ہے ذہن میں گزرے ہوئے لمحوں کی مہک
-3 رخصت اے بزم جہاں!
-4 دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو
-5 ہڑتال
ڈاکٹر ظفر صاحب بیدار ذہن اور دردمند دل کے مالک ہیں۔ کتاب میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:
’’انسانوں کی دل آزاری کرنا، اُن کے حسین خوابوں کو چکناچور کرنا، مطلب کے وقت اُن سے کام لینا اور جونہی کام نکل جائے انہیں Tissue Paper سمجھ کر ردی کی ٹوکری کے حوالے کرنا، کسی عمارت کی بنیادیں اٹھانے والوں کو، مشکل حالات میں ایثار اور قربانی دینے والوں کو، اپنا آج آنے والے کل کے لیے قربان کرنے والوں کو نظرانداز کرنے کے واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے۔ یہ Manufacturing Fault ہے یا کوئی اور وجہ؟ میں اس پورے نظام کا حصہ ہوتے ہوئے جب ناقدانہ جائزہ لیتا ہوں تو مجھے حادثات سے بڑھ کر سانحات نظر آتے ہیں۔ کیسے کیسے انسانی المیے ہیں؟ تفصیل بیان کرنے سے پَر جلتے ہیں۔
تحریک کی ہر ناکامی پر یہ سوال زیر بحث رہتا ہے کہ ہم کیوں ناکام ہوئے ہیں؟ اس کا جواب بیرون میں تلاش کرنے کے بجائے اپنے اندر تلاش کرنا چاہیے۔ کتنے ہی ایسے باصلاحیت افراد ہیں، جن کے خلوص کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ محض رویوں کے باعث کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا، کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے۔ ایک داستانِ الم ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، لیکن حقیقت یہی ہے۔
تنظیموں، جماعتوں اور اداروںکی جان افراد ہوتے ہیں، اور اُن کے لیے آزمودہ نسخہ: محبت فاتح عالم ہے۔ جہاں اور جب محبت پر مفاد، حرص و ہوس اور جاہ و منصب کی خواہشات غالب آتی ہیں تو افراد کے درمیان مضبوط بندھن کمزور ہوجاتا ہے۔ ایک کاروباری اور ظاہر دارانہ تعلق تو قائم رہتا ہے، لیکن جسے بنیانِ مرصوص کہاگیا ہے وہ مفقود ہوجاتا ہے۔
زندگی حکمت و دانش سے سرخرو ہوتی ہے، رسّا کشی سے نہیں۔ تنظیموں اور اداروں کو مخلص، تربیت یافتہ، علم اور عمل سے آراستہ پیراستہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ علم اور عمل میں کامل نمونے کے حامل افراد اب چراغِ رخِ زیبا لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ آج سے اسّی برس قبل اگر اقبال، مولانا مودودی اور چودھری نیاز علی خاں کو پورے ہندوستان میں کوئی مردِ کامل نہیں مل رہا تھا تو ہم کس باغ کی مولی ہیں؟ مولانا مودودی، چودھری نیاز علی خاں کو ایک خط کے جواب میں تحریر کرتے ہیں: ’’اِس تمام اسکیم (دارالاسلام کی اسکیم) کا انحصار ’شیخ‘ کے انتخاب پر ہے۔ اس مسئلے میں تین چار روز سے سرگرداں ہوں، مگر کوئی آدمی نظر نہیں آتا۔ مسلمانوں کے قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ سارے ہندوستان پر نظر ڈالی جائے، ایک ایسے معیاری مسلمان کا مل جانا بھی مشکل ہے جو علم و عمل کے لحاظ سے کامل ہو۔ کم از کم معروف اور نمایاں لوگوں میں تو مجھے کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا، جس میں تمام شرائط متحقق ہوتی ہوں۔‘‘(’’خطوطِ مودودی‘‘۔2، ص 45)
مختار مسعود نے بڑے کرب کے ساتھ کہا تھا: ’’افرادکی ناقدری کے باعث ہمارے ہاں بڑے لوگ پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ جب تک ایسے خود آگاہ اور خدا آگاہ انسان میسر نہیں آتے، ان کے انتظار تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں؟ یا کسی امام مہدی کے منتظر رہیں؟ واجبی عقل کا آدمی بھی یہی جواب دے گا کہ خوب سے خوب تر کی تلاش اور انتظار ضرور کریں، لیکن ہاتھ پائوں خود بھی ہلانے کی کوشش کریں اور جہاں سے بھی صلاحیت ملے اسے اجتماعی دانش کا ذریعہ بناکر تلافی کرنے کی کوشش کریں، اگر دانش اور علم کو بے دخل کردیا جائے گا تو مطلوبہ نتائج کیسے حاصل ہوں گے؟‘‘
ان کلماتِ حکمت کو غور سے پڑھنا چاہیے اور اپنی شخصیت اور رویوں میں جزو بنانا چاہیے۔
کتاب مجلّد ہے، اور عمدہ طبع ہوئی ہے۔