علامہ عبدالعزیز عرفی ایڈووکیٹ

روشن چہرہ، گھنی داڑھی، مناسب قامت، سیاہ شیروانی میں ملبوس علامہ عبدالعزیز عرفی ایڈووکیٹ اپنے دلنشین خطاب سے سامعین کے دل موہ لیتے، اور جی چاہتا کہ آپ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ جب بھی لائنز ایریا میں سالانہ عید میلاد النبیؐ کے جلسے میں مدعو کرنے گیا، آپ نے کبھی انکار نہیں کیا، اور نہ ہی آمدورفت کے لیے کسی قسم کا نذرانہ وصول کیا۔ آپ کی دلنشین گفتگو آج بھی ذہن میں تازہ ہے۔
عرفی صاحب صاف ستھری وکالت کے ساتھ اصلاحِ احوال پر تادمِ آخر گامزن رہے، اور 28 ستمبر 2015ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ آپ نے علمی ترکے میں 25 سے زائد کتب چھوڑی ہیں جن میں ’’قرآن اور صاحبِ قرآن‘‘، ’’ہمارے پیارے نبیؐ‘‘، ’’مدینۃ العلم‘‘، الہامی فلسفہ علم کی حقیقت‘‘، ’’عرفان قادر‘‘ اور چار جلدوں میں سیرتِ طیبہ کے حوالے سے شہرۂ آفاق کتاب ’’جمالِ مصطفیٰؐ‘‘ معروف ہیں۔’’ جمالِ مصطفیٰؐ‘‘ کو 1980ء میں قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر پہلے سیرت ایوارڈ سے نوازا گیا۔ علامہ صاحب کی اس کتاب کو تمام مکاتبِ فکر کے علما نے ایک منفرد کارنامے کی حیثیت سے سراہا۔ یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی اور دوسری جلد ’مکی‘، جبکہ تیسری اور چوتھی جلد ’مدنی‘ دور پر مشتمل ہے۔ جامعہ کراچی نے اس کتاب کو ایم اے اسلامک اسٹڈیز کے نصاب میں شامل کرنے کے لیے 10 جلدیں بھی منگوائیں، مگر افسوس ابھی تک کچھ نہ ہوا۔ آپ کی یادگار آخری کتاب سیرتِ طیبہؐ پر انگریزی میں ہے۔ ’’جمالِ مصطفیٰؐ‘‘ میں مولانا عبدالقادر ہاشمی کا تبصرہ: ’’یہ مساعی اس لیے بھی قابلِ تحسین ہے کہ اس سے عہدِ رسالتؐ کے حالات سے قرآن مجید کا تعلق مفسرین کے بیان کے مطابق سامنے آجاتا ہے۔ انہوں نے اس کام میں بڑا وقت صرف کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اخلاص کا بہترین صلہ دے گا‘‘۔
جمال میاں فرنگی محلی: ’’کتاب اس لحاظ سے خاص اہمیت کی مستحق ہے کہ اب تک پاکستان میں اس طور پر سیرتِ نبی اکرمؐ کم از کم میرے علم میں کسی نے شائع نہیں کی‘‘۔ علاوہ ازیں اس قابلِ فخر کتاب کو مولانا متین خطیب، مولانا طاہر نعیمی، انعام اللہ خان، علامہ طالب جوہری، شریف الدین پیرزادہ، جسٹس قدیر الدین، جسٹس نعیم الدین، و دیگر اہلِ قلم نے خراجِ تحسین پیش کیا۔
’’جمالِ مصطفیٰؐ‘‘ کی پہلی تقریبِ رونمائی 1978ء میں مدینہ منورہ میں مولانا مظہر علی کی صدارت میں منعقد ہوئی، جہاں چار برادر اسلامی ممالک کے نمائندوں نے اظہارِ خیال کیا۔ اصطفیٰ منزل مدینہ منورہ میں یہ تقریب 20 رمضان المبارک بعد نماز تراویح منعقد ہوئی۔ یہ کتاب الحمدللہ عوام و خواص میں بڑی مقبول ہے۔ اب تک اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
آپ یکم رمضان المبارک 4 مارچ 1927ء کو علی گڑھ بھارت میں پیدا ہوئے۔ 1949ء میں بی اے کی ڈگری علی گڑھ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ تحریک پاکستان میں بحیثیت طالب علم بھرپور حصہ لیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان تشریف لائے اور ضلع ٹھٹہ کے مقام گھارو میں قیام کیا۔ 1957ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی سند حاصل کی اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔
طبیعت چونکہ تصوف کی جانب مائل رہی چنانچہ 1960ء میں معروف روحانی شخصیت حضرت السید عبدالقادر گیلانی (سفیر عراق) سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ خرقہ خلافت سے سرفراز ہوئے اور دفتری مصروفیت کے بعد رشد و ہدایت کے سلسلے میں اپنے اوقات وقف کردیئے۔ پیر و مرشد کی ہدایت پر انگریزی زبان میں سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ کے بارے میں کتاب لکھی۔ آپ نے اپنا زیادہ تر وقت اپنے پیرومرشد کے قائم کردہ ادارے میں گزارا جہاں آپ نے ’’قرآن کالج‘‘ قائم کیا۔ سب سے بڑا کام مدینتہ القرآنی میں آرکائیو ہال کا قیام ہے، جس میں قرآن پاک کے نادر نسخے جمع کرکے انہیں ہال کی زینت بنایا۔ ان میں حضرت عثمان غنیؓ کے دور کے قرآن مجید کا عکس بھی شامل ہے۔
حضرت علامہ عرفی صاحب کی حالاتِ حاضرہ اور گرد و پیش پر گہری نظر رہی۔ اصلاحِ معاشرہ کے لیے کتابچے لکھے اور عوام میں مفت تقسیم کرائے۔ آپ کی زندگی کا مقصد اتحاد بین المسلمین رہا، اور اسی مقصد کے حصول کی خاطر سہ ماہی رسالہ ’سیرت طیبہ‘ کا اجرا کیا جو پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ آپ نے اپنی علمی اور روحانی کاوشوں سے علم کا ایک ایسا دیا جلایا جس کی روشنی میں نہ صرف اہلِ سنت جماعت بلکہ تمام مسلمان اپنے اپنے مسالک پر قائم رہتے ہوئے اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیں، اور ایک دوسرے کو بدگمانی کی نظروں سے دیکھنے کے بجائے اعتماد اور محبت کی نظر سے دیکھنے لگیں، کہ یہ اللہ کی رضا اور رسول اکرمؐ کی اتباع ہے۔
24 ستمبر 2015ء کو آپ کی طبیعت جو پہلے ہی ناساز تھی، اور زیادہ ناساز ہوئی تو آپ کو عباسی شہید اسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں داخل کیا گیا، اور 28 ستمبر 2015ء کو آپ خالقِ حقیقی سے جاملے۔ پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔