1973ء میں تکمیل ’’تفہیم القرآن‘‘ کے بعد لاہور میں خصوصی تقریب منعقد ہوئی تھی، اس تقریب کے خاص مہمان ممتاز دانشور اور ماہر قانون اے کے بروہی مرحوم بھی تھے۔ انہوں نے یہ مختصر خطاب انگریزی میںکیا تھا جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
’’اب سے قریباً چار سال پہلے میں سوئٹزرلینڈ میں ایک تقریب میں مدعو تھا۔ وہاں میری ملاقات ایک بھارتی مسلمان سے ہوئی۔ تقریب کے خاتمے پر اس بھارتی مسلمان نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ مولانا مودودی ؒ کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا الحمدللہ، میں انہیں جانتا ہوں۔ ان صاحب نے مجھ سے کہاکہ آپ کی عنایت ہوگی اگر آپ میری طرف سے مولانا تک یہ بات پہنچا دیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حضور ایک عام آدمی کی شہادت کوئی اہمیت رکھتی ہے تو قیامت کے دن میں اللہ کے حضور اس امر کی شہادت دوں گا کہ جس شخص نے میری زندگی کا دھارا بدلا اور مجھے ایک اچھا مسلمان بنایا وہ مولانا مودودی ہیں۔ مولانا مودودی کی خدمت میں میرا یہ احساس بھی پہنچا دیجیے کہ بے شک ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو آپ کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے ہیں، لیکن اگر خدا کے حضور میں ایک عام آدمی کی شہادت اس کی مغفرت کا سبب بن سکتی ہے تو آخری فیصلے کے روز میں کھڑا ہوکر اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ مولانا مودودی کو اپنی رحمت سے نوازے اور انہیں اپنے برگزیدہ بندوں میں شامل کرے، کیونکہ انہوں نے مجھے ایک اچھا مسلمان بننے میں مدد دی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک آدمی کی سب سے گرانقدر متاع جس پر وہ بجا طور پر فخر کرسکتاہے، اس کا مال و دولت نہیں، اس کے کارخانے اور فیکٹریاں نہیں، وہ اعزازات و خطابات بھی نہیں جو حکومت نے اسے دیئے ہوں… بلکہ اس کی سب سے قیمتی متاع اس کی سیرت و کردار ہے، اور اگر کسی آدمی کی سیرت و کردار کو تبدیل کرنا اور اس میں کوئی قابلِ قدر تغیر کردینا ممکن ہے تو جو شخص یہ کام سرانجام دیتا ہے وہ اس آدمی کی زندگی کا معمار ہوتا ہے، اور اس سے آگے بڑھ کر وہ اس قوم کا معمار ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے میری رائے میں آج پاکستان کے سب سے عظیم انسان مولانا مودودی ہیں۔
میں نے گزشتہ پچیس سال پاکستان میں گزارے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک حد تک ہوش مندی ہی سے گزارے ہیں۔ میں پاکستان کی تاریخ کا اور اس کی سیاست و معیشت کا گہری نظر سے مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ میں اس بات کی تصدیق کرسکتا ہوں کہ اگر یہ سوال اٹھایا جائے کہ وہ کون سا فردِ واحد ہے جس نے پاکستان کے لوگوں کے کردار کو سب سے زیادہ مثبت طور پر متاثر کیا ہے؟ تو میرا جواب یہ ہوگا کہ وہ مولانا مودودی ہیں۔ میرے اس جواب کی بنیاد یہ ہے کہ یہ قرآن مجید ہی ہے جو بنیادی طور پر ایک کتابِ ہدایت ہے۔ یہ کتاب آپ کو متقی بنا سکتی ہے اور آپ کی اُس بلند ترین مقام تک پہنچنے میں مدد و رہنمائی کرسکتی ہے جس تک پہنچنے کی آپ کے اندر صلاحیت موجود ہے۔ اب وہ شخص جو اس کتابِ ہدایت کی تشریح و توضیح کا کام انجام دے اور اپنے اوقات کو اس کوشش میں صرف کرے کہ وہ اس کتاب کے فہم میں آپ کی مدد کرے، وہی شخص درحقیقت آپ کا سب سے بڑا دوست ہوسکتاہے۔ اس لحاظ سے بھی میں یہ سمجھتاہوں کہ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے دوست اور بہی خواہ مولانا مودودی ہیں۔
جہاں تک مولانا مودودی کے دشمنوں اور مخالفوں کا تعلق ہے میں اس سلسلے میں کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ صرف قرآن کریم کی ایک آیت دہرانا چاہتا ہوں، ارشاد ہوا ہے (ترجمہ ) ’’ہم اس قرآن میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لیے تو شفا اور رحمت ہے مگر ظالموں کے لیے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا۔‘‘
اب اگر قرآن خود اپنے بارے میں یہ بتاتاہے کہ اس کے کیا اثرات لوگوں پر مرتب ہوتے ہیں، یعنی اگر ان پر اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ ان کے اندر بھلائی اور خیر کو بڑھاتا ہے اور ظالموں پر اس کے برعکس اثر ہوتا ہے کہ وہ ان کے تذبذب اور بے یقینی میں اضافے کا موجب بنتا ہے تو اس سے یہ بات خود نکلتی ہے ٍ (باقی صفحہ 41 پر)
کہ اسی قرآن کی تفسیر و تشریح کرنے والی کسی شخصیت کے بارے میں کس قسم کے لوگوں میں کس نوع کے اثرات اور کیا ردعمل پیدا ہوگا۔ جب ہم اس معیار پر مولانا مودودی کے بارے میں لوگوں کے ردعمل کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ خدا سے محبت رکھتے ہیں، سچائیوں اور صداقتوں سے پیار کرتے ہیں، اور انسانی کردار کی عظمت و پاکیزگی کو پسند کرتے ہیں، وہ لوگ مولانا کی عزت و تکریم پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔ اس کے برعکس جن لوگوں کو خدا کے دین سے کوئی سروکار نہیں ہے اور ان کے مقاصد و مشاغل کچھ دوسرے ہیں وہ اپنے کھیل یونہی کھیلتے چلے جائیں گے۔
آخری بات میں تفہیم القرآن کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا مجھ پر یہ عنایت فرماتے رہے ہیں کہ جونہی تفہیم القرآن کی کوئی جلد شائع ہوتی تو اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے اس کا ایک نسخہ بھجوا دیتے۔ میرے پاس مولانا کی عطا کردہ تفہیم القرآن کی سبھی جلدیں موجود ہیں۔ اسلامیانِ پاکستان کو یہ بات جاننی چاہیے کہ بے شک قرآن خوانی اپنی جگہ بڑی اچھی چیز ہے، لیکن اصل اہمیت قرآن فہمی کی ہے، اور مولانا نے اپنی تفسیر کا نام ہی’’ تفہیم القرآن‘‘ رکھا ہے۔ یہ کتاب آپ کے فہمِ قرآن کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے اور اس کے شعور سے بہرہ ور کرتی ہے۔ جس قدر زیادہ مسلمان اس کتاب کا مطالعہ کرسکیں اسی قدر یہ مفید اور نتیجہ خیز ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آج پورا عالم اسلامی بجا طور پر مولانا کا ممنون ہے کہ انہوں نے قرآن کی ایک عظیم خدمت انجام دی ہے۔
میں نے جو کچھ کہا ہے دل کی گہرائی سے کہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو کچھ میں نے آج کہا ہے، میں کل بھی یہی کچھ کہہ سکوں گا، اور اگر یومِ آخرت اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میری شہادت طلب فرمائی تو میں اُس وقت بھی یہی گواہی دوں گا جو آج دے رہا ہوں۔‘‘