دنیا میں اس وقت عالمی برادری کی سب سے بڑی ضرورت امن و سلامتی ہے۔ امن ہوگا تو علم بھی فروغ پائے گا جس کے ذریعے سے انسانی تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں سال ہا سال قبیلوں میں طاقت کے لیے جنگیں ہوتی تھیں۔ آج بھی یہی زمانہ ہے کہ امریکہ ہو یا نیٹو فورسز، سب اپنی طاقت کے لیے کمزور قوموں پر چڑھائی کررہے ہیں۔ دنیا میں جنگوں کی صدی اور عشرے کب ختم ہوں گے؟ بیس سال کے ناجائز قبضے اور دھونس دھاندلی کے باوجود امریکہ کابل میں قدم نہیں جما سکا، اب وہ انخلا کے بعد اسمارٹ جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے کہ جنگ بھی کرو اور نظر بھی نہ آئو۔ امریکی انخلا کے باوجود اس خطے میں ابھی تک خطرہ باقی ہے۔ امریکی کھیل یہ ہے کہ بھارت کو ہر قیمت پر یہاں کا تھانیدار بنایا جائے۔ امریکہ کا یہ فیصلہ اس خطے کی سلامتی اور امن کے لیے بہت مہلک ثابت ہوگا۔ امریکی شہہ پاکر بھارت میں یہ رجحان سر اٹھا رہا ہے کہ افغانستان میں حکومت میں اختلافات کو ہوا دی جائے اور پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا جائے، اور اس مقصد کے لیے بھارت دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی بھی کرے گا، انہیں پناہ بھی دے گا۔ دوسرے لفظوں میں امریکہ کھربوں ڈالر سے تراشی گئی اپنی حکمت عملی اب بھارت کے ذریعے نافذ کرنے کا خواہاں ہے۔ وہ یہ شوق بھی پورا کرکے دیکھ لے، خسارے اور شرمساری کے سوا اُس کے ہاتھ کچھ نہیں آنے والا۔
انخلا کے بعد امریکی حکمت عملی اب تبدیل ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ واشنگٹن طالبان حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود بلاجواز اور فروعی اختلافات کو آڑ بناکر پھر جنگی ماحول بنانے کا خواہش مند ہے، اور مغربی میڈیا مکمل اُس کے کنٹرول میں ہے۔ چین کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کے آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور متنازع تائیوان کے اشتراک سے نیا محاذ ’’کواڈ‘‘ اور AUKUS تشکیل دیا گیا ہے، اور آسٹریلیا کو جوہری آبدوز ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کی کوشش کے ذریعے چین آسٹریلیا تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افغانستان سے انخلا کے بعد صدر بائیڈن نے B3Wکا ایک نیامنصوبہ پیش کیا ہے جس سے چین کا تجارتی محاصرہ کرنے کی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے۔ اس سارے پس منظر کو پاکستان کا دورہ منسوخ کرنے کے نیوزی لینڈ کے فیصلے سے جوڑ کر دیکھا جائے تو ایک نیا محاذ نظر آرہا ہے۔ مغرب کا سارا میڈیا افغانستان میں پنج شیر تصادم کو ایک خاص مقصد کے لیے اچھال رہا ہے تاکہ پاکستان پر دبائو بڑھایا جائے۔ فہیم دشتی کی موت ڈرون حملے کے ذریعے بتائی جارہی ہے، جب کہ وہ تو باہمی تصادم میں مارا گیا۔
حقائق یہ ہیں کہ نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کی واپسی قطعی غیرحقیقی خدشات کے باعث ہوئی۔ یہ فیصلہ کسی معقول جواز سے عاری دکھائی دیا ہے۔ بدتہذیبی یہ ہوئی کہ فیصلے سے پہلے میزبان ملک کو کوئی وجہ بتائی اور نہ مشورہ کیا گیا۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم کو بغیر تماشائیوں کے خالی اسٹیڈیم میں میچ کھیلنے کی پیشکش بھی کی گئی، لیکن اسے بھی قبول نہیں کیا گیا۔ کیویز کے پاکستان پہنچنے سے پہلے کرکٹ کی دنیا کے سب سے معروف سیکورٹی ماہر ریگ ڈیکاسن نے پاکستان آکر سیکورٹی سے متعلق تمام انتظامات اور اقدامات کا بذاتِ خود جائزہ لیا تھا اور ان پر مکمل اطمینان ظاہر کیا تھا۔ ریگ ڈیکاسن دو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کھیلنے کے لیے آئندہ ماہ پاکستان کے دورے پر آنے والی انگلینڈ کی ٹیم کے بھی سیکورٹی مشیر ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ نیوزی لینڈ کے بعد برطانیہ بھی کوئی ایسا ہی فیصلہ کرے۔ اس نے ریڈ لسٹ سے پاکستان کا نام نکال کر ردعمل کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ فی الحقیقت نیوزی لینڈ کے فیصلے کا تجزیہ خطے کی موجودہ جیو اسٹرے ٹیجک صورت حال کی روشنی میں کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ بات صرف کرکٹ کی نہیں بلکہ اس کا براہِ راست تعلق خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ہے۔ افغانستان سے امریکہ گیا نہیں بلکہ اپنا سایہ چھوڑ گیا ہے۔ اسی چھائوں میں پاکستان مخالف قوتیں متحرک ہوچکی ہیں اور کرکٹ بھی اس کی زد میں آچکی ہے، اور ایسا ہاتھ کام کرگیا جس نے دستانے پہنے ہوئے ہیں، اور یہ کام بھارت کے سوا کوئی نہیں کرسکتا۔ اب ضرورت ہے کہ ایسی ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے جو بھارت کے عزائم کو مکمل طور پر ناکام بنائے۔ ہمیں امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی خبر سے بھی مدد مل سکتی ہے جس نے پنج شیر میں پاکستان کی کارروائی سے متعلق رپورٹ غلط قرار دے دی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ویڈیو گیم کی فوٹیج کو پاکستانی ڈرون قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ اصل اور بنیادی بات یہ ہے کہ واشنگٹن اس وقت اسلام آباد سے خوش نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ اڈے نہ دینے کی وجہ سے ناراض ہو۔ اس وقت امریکہ اپنے مفادات کی تکیمل کے لیے اندھا ہوچکا ہے، اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے پاکستان کو دبائو میں لانے کی کوشش میں ہے۔ سی آئی اے کا چیف افغانستان جائے تو عالمی میڈیا خاموش رہتا ہے، مگر پاکستان سے کوئی جائے تو شور مچایا جاتا ہے۔ یہ مغرب کا دہرا معیار ہے۔
اب نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم دورہ منسوخ کرکے واپس جاچکی ہے۔ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورۂ پاکستان کی اچانک منسوخی کے پیچھے امریکہ ہے۔ نیوزی لینڈ کو سیکورٹی خطرات سے متعلق امریکہ و برطانیہ سمیت 5 ممالک نے یک طرفہ طور پر آگاہ کیا، اور اسی 5 ملکی انٹیلی جنس اتحاد نے نیوزی لینڈ ٹیم کو دورۂ پاکستان ختم کرنے کا کہا تھا۔ اس اتحاد میں نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ شامل ہیں۔ چالاکی یہ دکھائی گئی کہ نیوزی لینڈ ٹیم کے آفیشلز کو استعمال کیا گیا، جب کہ نیوزی لینڈ اور پاکستان کی حکومتوں اور کرکٹ بورڈز کے درمیان 12 گھنٹے مسلسل گفتگو ہوتی رہی، تاہم یہ دورہ خطرات کی وجوہات بتائے بغیرختم کیا گیا۔ نیوزی لینڈ ٹیم کے دورے کا منسوخ ہونا ہمارے لیے کئی سوال چھوڑ گیا ہے جن پر سوچ بچار کی ضرورت ہے۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم کی بلا جواز واپسی کے بعد ایک حیران کن پیش رفت ہوئی کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھا۔ اب یوں سمجھ لیا جائے کہ گرے لسٹ میں نام تو بھارت نے دیا تھا، مگر اصل میں اس کے پیچھے امریکہ ہے۔ صدر ایف اے ٹی ایف نے ایک عجیب بات کردی ہے کہ ساری شرائط پوری کردیں پھر بھی گرے لسٹ سے نہیں نکل سکتے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ امریکہ اس وقت ہماری دشمنی پر تلا ہوا ہے۔ آسٹریلیا اور جاپان اس کے ساتھ ہیں۔ وہ چین کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں۔ امریکہ سے ہمارے تعلقات کی تاریخ یہ ہے کہ لیاقت علی خان کو قتل کرایا، سقوطِ ڈھاکا کرایا، ضیاء الحق کا طیارہ تباہ ہوا، پاکستان پر پریسلر پابندیاں لگیں، افغانستان پر حملے کے لیے ہمیں بھارت کے ذریعے دبائو میں رکھا، اب وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کو بھول جاؤ اور افغانستان میں ہر حال میں ہماری مدد کرو۔ فیٹف کہتا ہے کہ جن انتہا پسند گروپوں کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا ہے ان کو سزائیں دلائو۔ یہی وہ وقت ہے کہ ہمارے پالیسی ساز جاگیں اور امریکہ سے جان چھڑائیں۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے 27 میں سے 26 نکات پر عمل درآمد کیا۔ اس کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے گزشتہ کچھ عرصے میں کئی قانون متعارف کروائے۔ اب کہا جارہا ہے کہ پاکستان نے اینٹی منی لانڈرنگ اور انسدادِ دہشت گردی میں کافی پیش رفت کی ہے اور 27 میں سے تین اہداف پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بحران ابھی حل نہیں ہوا کہ اندرون ملک کئی محاذ کھڑے ہوگئے ہیں۔ حکومت نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کے خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا ہے اور ان کے کنڈکٹ پر تحفظات ظاہر کررہی ہے کہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے۔ بلکہ یہ تک کہا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر سیاست کرنا چاہتے ہیں تو استعفیٰ دیں اور سیاسی میدان میں آئیں۔ فواد چودھری نے کہا کہ یہ نہیں ہوتا کہ چیف الیکشن کمشنر خود کو اپوزیشن کے طور پر پیش کریں۔ انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان آگے بڑھیں اور فیصلے کا جائزہ لیں۔ کہتے ہیں کہ اپوزیشن انتہائی نالائق بچوں پر مشتمل ہے، وہ انتخابی اصلاحات نہیں چاہتی، حکومت ہی انتخابی اصلاحات پر عمل کرنا چاہتی ہے، حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا منصوبہ 2028ء پر نہیں جانے دے گی، عمران خان ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ پونے دو کروڑ ووٹ لے کر اقتدار میں آنے والے پہلے وزیراعظم ہیں۔ عمران خان جو اداروں کی تنظیم نو اور تعمیر نو کرنے، اداروں میں مثبت انقلابی تبدیلیاں لانے کے بلند و بانگ دعوے اور وعدے کرکے مسندِ اقتدار پر فائز ہوئے تھے، صرف تین سال میں اپنے ہی اداروں کو تہس نہس کرنے لگ گئے ہیں۔ حکومت منصفانہ انتخابات کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے الیکشن کمیشن کو آگ لگا دینے کی بات کی۔ ریاست کے ایک آئینی ادارے کو آگ لگانے کی بات قانون کی گرفت سے ابھی تک باہر ہے۔ میڈیا سے متعلق قانون سازی ابھی زیر بحث ہے۔ حکومت اس کے نفاذ کے لیے بے چین ہے۔ ملک کی سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ آخر حکومت کا ایجنڈا کیا ہے؟ مخالفین کے خلاف کارروائیاں تو سمجھ میں آرہی ہیں، مگر اپنے ہی ریاستی اداروں سے جنگ کے آخر کیا مقاصد ہیں؟ پاکستان اس وقت کشیدہ عالمی سیاسی صورتِ حال کے باعث اندرونی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ چیئرمین نیب کی مدت ملازمت میں توسیع یا کسی نئے چیئرمین کی تقرری کا معاملہ فی الحال تو ٹھنڈا ہے، تاہم چنگاری کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ اپوزیشن یہ سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے تین بڑے منصوبے ریفرنس کے لیے اہل ہونے کے باوجود تحقیقاتی عمل سے باہر رکھے گئے، یہ کیسز نوٹس لینے سے آگے نہیں بڑھ سکے، کسی حکومتی شخصیت کی گرفتاری ہوئی نہ مقدمہ دائر ہوا۔ ان تین بڑے منصوبوں میں پشاور بی آر ٹی، مالم جبہ اور بلین ٹری سونامی شامل ہیں۔ محسوس ہورہا ہے کہ تین سال گزر جانے کے باوجود حکومت مکمل سرپرستی سے فائدہ نہیں اٹھا سکی اور اب مزید پانچ سال مانگ رہی ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ اگلے پانچ سال کس سے مانگے جارہے ہیں؟ جب کہ زمینی حقائق تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اور حکومت ادراک نہیں کررہی ہے۔ اس وقت ملک میں مہنگائی اپنے عروج پرہے، حکومت کہہ رہی ہے کہ لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت ہی بتا دے کہ قوتِ خرید کس کی بڑھی ہے؟ عوام تو بے خبر ہیں۔
کچھ عرصہ قبل وزیر دفاع پرویز خٹک نے دعویٰ کیا تھا کہ صوبہ کے پی کے میںکوئی بے روزگار ہے نہ کوئی کچا مکان ہے۔ یہ دعویٰ اپنی جگہ، ملک میں مہنگائی کا طوفان تھم نہیں رہا بلکہ مصیبت بننے جارہا ہے۔ ایک بڑے معاشی طوفان کا خطرہ ہے، اور الیکشن کمیشن کے ساتھ تنائو کے پس منظر میں آئینی اور سیاسی بحران بھی بڑھ رہے ہیں۔ حکومت چیئرمین نیب کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا،(باقی صفحہ 41پر)
اورچیف الیکشن کمشنر سے ذاتی حد تک ٹکرائو بہت خطرناک بن سکتا ہے۔ اس بحران کے بڑھ جانے پر اگر نوازشریف وطن واپس آجاتے ہیں تو سیاسی ماحول بحران میں بدل سکتا ہے، جس کے بعد سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت انتخابات میں مشینی طریقِ کار کو استعمال کرنا چاہتی ہے، اِس کے حق میں حکومت کے اپنے مضبوط دلائل ہیں، مگر اپوزیشن کی کتاب میں یہ دلائل پذیرائی کے قابل نہیں ہیں۔ حکومت جہاں ای وی ایم کو انتخابات کی شفافیت کا ذریعہ سمجھتی ہے، وہیں اپوزیشن اسے دھاندلی کا نیا حربہ قرار دے رہی ہے۔ ای وی ایم کے استعمال کے معاملے پر اب حکومت اور الیکشن کمیشن ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو ملک میں انتخابات کو غیرجانب دارانہ، منصفانہ اور صفاف و شفاف بنانے کا ذمہ دار ہے۔ اہم حکومتی شخصیات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کی زبان بول رہے ہیں، انہوں نے کمیشن کے دیگر ارکان سے کہا کہ وہ آگے بڑھیں اور چیف الیکشن کمشنر کے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ الیکشن کمیشن پر غصے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بعض وزرا نے کمیشن اور اس کے سربراہ پر سنگین الزامات لگائے تھے، جس پر کمیشن نے انہیں نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔ حکومت پارلیمنٹ سے منظوری لے کر ای وی ایم کے استعمال پر بضد ہے، اگر اسے زبردستی تسلیم کرایا گیا تو ایک نئی محاذ آرائی بحران کی جانب لے جائے گی۔