گزشتہ دو کالموں میں تو بس نام و نسب ہی کی پوچھ ہوتی رہی۔ انوکھے سے انوکھا نام رکھنے کے شوقین والدین کو بھلا ہم کیا نام دھرتے؟ سوچاکہ ہرجدت پسند والد کا نام اُچھالنے سے بہتر ہے کہ چچا کے ایک مصرعے میں تحریف کریں اور اس پر عمل پیرا ہوجائیںکہ
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج ’’ظریفانہ‘‘ کھینچیے
بس ظرافت کا مظاہرہ کرنا تھا کہ آفت آگئی۔ ہر طرف سے لوگ نئے نئے مضحکہ خیز ناموں کی بوچھار لیے ٹوٹ پڑے۔ جو آرہا ہے وہ ہنستا، مُسکراتا، قہقہے لگاتا، ایک نیا اور نرالا نام اُچھالتا چلا آرہا ہے۔کچھ آنے والے شرمیلے انداز میں مُسکرانے والے لوگ تھے۔ مُسکرا مُسکرا کر اپنا کاسۂ سوال بار بار آگے بڑھا رہے تھے۔ ’بچی پیدا ہوئی ہے، دو تین اچھے اچھے نام اس میں ڈال دیجیے‘۔ یا یہ کہ ’بیٹے کا ایسا کیا نام رکھوں جو بہت سنا سنا نہ ہو‘۔ ارے صاحبو! ہمارا تو وہی حال ہوا جو احمد ندیمؔ قاسمی کا ہوگیا تھا:
شاید ان دیاروں میں خوش دِلی بھی دولت ہے
میں تو مُسکراتے ہی گِھر گیا گداؤں میں
اِن گداؤں سے ایسے ایسے نام سننے کو ملے جو کبھی نہ سنے تھے۔ بعضے نام ایسے بھی سنے جو نہ سنتے تو بہتر تھا۔ قرآنِ مجید میں جنت کی ایک نعمت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ وہاں آدمی کوئی لغو بات نہیں سنے گا۔ قابلِ سماعت ناموں میں سے ایک نام سنا بُہتانہ۔ سنانے والے نے یہ بھی سنایا کہ یہ نام رکھنے والے عظیم شخص کا اپنا نام بھی ’عظیم خان‘ تھا۔ اس مردِ عظیم نے کہیں سے ایک عربی فقرہ پڑھ لیا تھا: بُہتانہٗ عظیم۔ سوچا کہ کوئی عظمت والا نام ہوگا۔ سو، بیٹی کا یہی نام رکھ لیا۔ باپ کا نام آپ سے آپ شامل ہوگیا۔ یوں بے چاری بے گناہ بچی ’بُہتانہ، بُہتانہ‘ کرکے پکاری جانے لگی۔ سمجھانے والوں نے صاحب کو سمجھایا کہ بُہتانہٗ عظیم کا مطلب ہے: ’اُس کا لگایا ہوا بہتان بہت بڑا ہے‘۔ پوچھا: ’بہتان کسے کہتے ہیں؟‘ جواب دیا گیا: ’تہمت کو‘۔ اب یک نہ شُد، دو شُد۔ بہتان کے ساتھ ساتھ تہمت کے معنی بھی بتانے پڑے۔ تو آئیے ہم بھی دیکھتے ہیں… ’یہ تہمت ہے کیا چیز، بہتان کیا ہے؟‘
یوں تو دونوں ہی الفاظ دوسروں پر جھوٹ باندھنے کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں، مگرلغت کا فرمانا ہے کہ معنی کے لحاظ سے ’بہتان‘ میں جھوٹے الزام کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ اس کا عربی مادّہ ’بُہِتَ‘ ہے، جس کا مطلب ہے دنگ کردینا، ہکابکا کردینا، حیران کردینا۔ گویا بہتان وہ من گھڑت الزام ہے جس کو سن کر آدمی حیرت سے گُنگ ہوجائے۔ حیرت سے گونگا ہوجانے کی کیفیت کا ذکر سورۃ البقرہ آیت 258 میں بھی آیا ہے۔ جب نمرود نے حضرت ابراہیم ؑ سے کٹھ حجتی کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو مارتا اور جِلاتا تو میں بھی ہوں، تو حضرت ابراہیم ؑ نے اُس عقل سے پیدل کو مارنے اور جِلانے کا فلسفہ سمجھانے میں وقت برباد کرنے کے بجائے اُسیللکارا: ’اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تُو مغرب سے نکال دے‘۔ خلیل اللہ کی للکار سن کر، قرآن کے الفاظ میں: ’’فَبُہِتَ الَّذِی کَفَر‘‘(وہ کافر مبہوت ہوکر رہ گیا)۔ مبہوت کا مطلب ہے بھونچکا ہوجانا، دنگ رہ جانا، ہوش اُڑ جانا، دہشت زدہ کیفیت میں آجانا، ششدر ہوجانا، کوئی جواب بن نہ پڑنا۔گویا جس جھوٹے الزام کو سُن کر آدمی مبہوت ہوجائے یعنی مندرجہ بالا کیفیات میں مبتلا ہوجائے، لغت کے مطابق وہ ’بہتان‘ ہے۔
تہمت کی اصل ’وہم‘ ہے۔’تَوَہُّم‘ کا مطلب ہے وہم کرنا یا گمان میں مبتلا ہونا۔ تہمت بھی دراصل بدگمانی اور بدظنی ہے۔ ہمارے شعرائے کرام بہتان کم باندھتے ہیں، تہمت زیادہ لگاتے ہیں۔ بہتان باندھنے کا الزام بھی دوسروں کے سرجاتا ہے۔ داغؔ کا شعر ہے:
میں اور دشمنوں سے شکوہ کروں تمھارا؟
بہتان جوڑتے ہیں، بہتان باندھتے ہیں
جب کہ تہمت تو خود بھی اپنے سر لیلی جاتی ہے۔ خواجہ میر دردؔ فرماتے ہیں:
تہمتِ چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے
جو لوگ یہ شعر لکھتے ہوئے ’تہمتیں چند‘ لکھتے ہیں وہ دردؔ پر تہمت باندھتے ہیں، کیوں کہ دردؔ نے ایسا نہیں کہا۔ ’چند‘ کا مطلب ہے کسی قدر، تھوڑا سا، کچھ۔ اُردو نے ’چندہ‘ اسی لفظ سے مانگا ہے۔ بھائی ’کچھ‘ تو دے دو۔ ’چندے آفتاب، چندے ماہتاب‘ کا مطلب ہے کہ وہ کچھ کچھ سورج لگے ہے، کچھ کچھ چاند۔ خواجہ میردردؔ تو کچھ تہمت اپنے سر لے کر پچھتاتے ہوئے چل بسے۔ مگر فیضؔ خوشی خوشی گئے:
سننے کو بھیڑ ہے سرِ محشر لگی ہوئی
تہمت تمھارے عشق کی ہم پر لگی ہوئی
اِن کالموں کا اصل ہدف اور اوّلین مخاطب ذرائع ابلاغ کے لوگ ہیں، خواہ وہ مطبوعہ ذرائع ابلاغ ہوں یا سمعی و بصری۔ قومی ذرائع ابلاغ ہوں یا سماجی۔ تہمت وبہتان کا ذکر آیا، تو جی میں آئی کہ تلفظ و املا کی اغلاط کی نشان دہی اور ’غلطی ہائے مضامین‘ کی درستی کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ذرا دل کے دروازے پر بھی دستک دے لی جائے کہ صاحب! دل کی اصلاح مقدم ہے۔ جو دل میں ہوگا، وہی تو باہر نکل کر زبان اور قلم پر آئے گا۔ زبان بے شک کوثر و تسنیم سے دُھلی ہوئی ہو، مگردل بھی حوضِ کوثر سے دھو لیا جائے توسیرت سنور جائے۔
حدیث شریف کے مطابق ’غیبت‘ یہ ہے کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اُس کے وہ عیوب بیان کیے جائیں جو اُس میں موجود ہیں۔ لیکن اگر کسی سے کوئی ایسی بُرائی منسوب کی جائے جس کا وہ مرتکب ہی نہیں تو یہ سراسر’بہتان‘ ہے۔ قرآنِ مجیدکے مطابق ’بہتان باندھنا‘ بہت بڑا گناہ ہے،اور سورۃ النور کی آیت 11 کی رُو سے بہتان پھیلانے میں حصہ لینے والوں کے لیے بھی ’’عذابِ عظیم‘‘ ہے۔ ہمارے برقی اور سماجی ذرائع ابلاغ کثرت سے اس گناہ کو فروغ دے رہے ہیں۔ اداروں میں بھی یہ کام ’افراد‘ ہی کرتے ہیں۔ سنی سنائی باتوں کو بے تحقیق آگے بڑھانا اورکسی پر بہتان لگانا سیدنا علیؓکے قول کے مطابق آسمانوں سے زیادہ بوجھل گناہ ہے۔ ہر کارندے کو اپنی اپنی قبر میں جانا ہے۔ کوئی اپنے گناہ کی سزا کسی دوسرے کو نہیں بھگتوا سکے گا۔
’’بہتان کی طرح چمٹ جانا‘‘ اردو زبان کا ایک محاورہ ہے۔ اس سے مراد ہے وہ چیز جو چھڑائے نہ چھوٹے۔ ہم جیسے عادی گناہ گاروں کا تو کیا ذکر؟ آپ کسی متقی، پرہیزگار اور نیک آدمی پر بھی کوئی بہتان دھر دیجیے، بہت سے لوگ اس کو پھیلانا شروع کردیں گے۔ عمر بھر کے لیے یہ بہتان اس سے چمٹ جائے گا۔ کسی کو قتل کردیا جائے تو صرف ایک بار مرے گا۔ بہتان دھر دیا جائے تو جب تک جیے گا بار بار یہ قاتلانہ وار سہتا رہے گا۔ کمزور اور بے بس شخص کو بہتان لگانے والوں پر قیامت میں اللہ تعالیٰ خود حد جاری کرے گا۔ موبائل فون اور دیگر آلات کی مدد سے سماجی ذرائع ابلاغ پر ’بہتان سازی‘ کرنے والوں اور اُخروی نتائج کی پروا کیے بغیر اسے پروان چڑھانے والوں کو یہ ساری باتیں سوچ کر اور اپنا انجام خوب اچھی طرح سمجھ کر کوئی بات آگے بڑھانا چاہیے۔
لوگ کہتے ہیں کہ لوگ نہیں سدھریں گے۔ لیکن ہم اپنے ربِّ کریم سے مایوس نہیں۔ وہ قادرِ مطلق ہے۔ جب چاہے کسی مشہور سے مشہور ’اینکر‘ اور بڑے سے بڑے سیاسی لیڈر کو ہدایت نصیب کردے۔