اجتماعی اجتہاد، تصورِ اقبال اور امالی غلام محمد(قرآن و سنت کی روشنی میں)

نام کتاب :  اجتماعی اجتہاد، تصورِ اقبال اور امالی غلام محمد(قرآن و سنت کی روشنی میں)
مصنف : پروفیسر ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان
صفحات: 112 ، قیمت: 380 روپے
مطبع:  زیدی لیزر پرنٹرز، فیصل آباد، بہ اہتمام نعت اشاعتی ادارہ
اس کتاب کے دو حصے ہیں: اسلامی حکمت اور حکومت۔ موضوعات کی تقسیم کچھ یوں ہے:
ابواب: موضوعاتِ کتاب کو 5 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں مسئلے کے پسِ منظر اور تعارف پر بات کی گئی ہے۔ حصہ دوم استحقاقِ امامت کی بحث پر مشتمل ہے۔ حصہ سوم  سربراہ مملکت کا انتخاب، اسوئہ حسنہ، بیعتِ عقبہ، بطور حکمران حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انتخاب، اصل الاصول خلافت کا قیام، امامت منصوص اور مواخات و میثاقِ جمہوریت جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔ حصہ چہارم  اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ اور وشاورھم فی الامر کا حکم یعنی مجلسِ شوریٰ کے تحت امورِ سلطنت چلانے کی اہمیت و افادیت کو موضوع بناتا ہے۔ حصہ پنجم   مساواتِ بشریت کی تفصیلی بحث پر مشتمل ہے۔
کتاب کو تحقیقی انداز میں مرتب کیا گیا ہے۔ بین المتن حوالے بھی موجود ہیں، اس کے علاوہ  کتاب کے آخر میں حواشی و حوالہ جات کی ایک طویل فہرست بھی موجود ہے تاکہ قارئین اصل منابع تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکیں۔
ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان ایک بالغ النظر اقبالین ہیں، ان کی فکرِ رسا منابع اسلامی: قرآن و سنت سے مستفید ہے۔ بالخصوص تاریخِ اسلام پر ان کی گہری نظر ہے۔ تاریخ کے شائق ہونے کے باعث تاریخِ ہندو پاکستان بھی ان کی دوربین نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتب: ”اسلامی حکمت و حکومت“، ”دو قومی نظریہ: تعریف و تاریخ“، ”تحریکِ پاکستان ابتدا و ارتقا“، ”سقوطِ ڈھاکہ کے پسِ پردہ حقائق“ قابلِ ذکر ہیں۔ وہ مختلف موضوعات پرلکھی گئی تین درجن کے قریب کتابوں کے مصنف و مولف ہیں۔ چونکہ فکرِ اقبال سرچشمہ ہائے رشد و ہدایت قرآن و سنت کی خوشہ چین ہے، بنا بریں انہیں بجا طور پر شاعرِ قرآن اور شاعرِ اسلام کہا جاتا ہے۔ شعر و فلسفہ کے رموز سے بھی آگاہ ہیں، بلکہ مشرق و مغرب کے علم و حکمت کے دھارے آکر ان کی ذات میں مل جاتے ہیں۔ وہ فارسی ادب کے چند سربرآوردہ شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ انگریزی شناس ہیں اور عربی سے بھی بے بہرہ نہیں۔ حق تعالیٰ نے انہیں حکمت و دانش سے وافر نوازا ہے۔ ایسی ہمہ جہت شخصیت کے فکر و فن کا محاکمہ وہ لوگ نہیں کرسکتے جو حکمتِ قرآنیہ اور علومِ اسلامیہ سے بہرہ ور نہیں ہیں۔ مگر شاکر صاحب ان معدودے چند ماہرینِ اقبالیات میں سے ہیں، جو ان سرچشموں سے فیض یاب ہونے کے باعث اشعار و افکارِ اقبال کے پسِ پردہ موجود حکمت و دانشِِ قرآنی کا بخوبی ادراک کرلیتے ہیں۔ یوں شعر و فکرِ اقبال کے جس گوشے پر روشنی ڈالتے ہیں اس کا حق ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کتاب یعنی ”اجتماعی اجتہاد: تصورِ اقبال اور امالی غلام محمد“ میں دلائل اقبال سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اجتہاد کا در ہمیشہ کھلا تھا، ہے اور رہے گا۔ قرآنِ پاک کا یہ ارشاد کہ ”زندگی ایک مسلسل تحقیقی عمل ہے“ بجائے خود اس امر کا متقاضی ہے کہ مسلمانوں کی ہر نسل اسلاف کی رہنمائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مسائل آپ حل کرے۔ یہ نہیں کہ اسے اپنے لیے ایک روک تصور کرے۔ اقبال کے چھٹے خطبے کا اصل موضوع بھی یہی ہے جس میں اقبال نے ذکر کیا ہے کہ جمہوری طرزِ حکومت اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ اس پر، اور کچھ دیگر امور پر امالی غلام محمد میں اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں:
1-اسلام میں ہمیں مغربی جمہوریت کہیں نظر نہیں آئی، اسلامی جمہوریت تو کوئی چیز نہیں۔ معلوم نہیں اقبال مرحوم کو اسلام کی روح میں جمہوریت کہاں نظر آگئی۔
2-اقبال مرحوم کی شاعری اور نثر میں بڑا فرق ہے۔ ایک دل کا معاملہ ہے اور دوسرا عقل کا۔ جب وہ دل کے مقام سے خطاب کرتے ہیں تو ان کے دل سے نکلی ہوئی آواز (شاعری) تو ملتِ اسلامیہ کے دل کی آواز بن جاتی ہے۔ مگر جب یہی آواز مغرب سے متاثر ہوکر عقل کے ذریعے نثر میں آتی ہے تو ملت اسے مسترد کردیتی ہے۔
ڈاکٹر شاکر صاحب ان اعتراضات کے نہایت مدلل اور عالمانہ جوابات دیتے ہیں، جو انتہائی مفصل ہیں۔ میں صرف چند ایک نکات درج کرتا ہوں۔ لکھتے ہیں:
کیا ایک الگ اسلامی ریاست کے تصور کا حامل خطبہ آلٰہ آباد نظم میں تھا؟ کیا حسین احمد مدنی دیوبند کے شیخ العرب و عجم کے بیان ”قومیں اوطان سے بنتی ہیں“ کے رد میں ”طویل مضمون“ نظم میں تھا؟ کیا عقیدہ ختمِ نبوت کے دفاع میں قادیانیوں کا تعاقب نظم میں تھا؟ تحریکِ پاکستان کی تو یہی تین بنیادیں ہیں، جنہیں ملتِ اسلامیہ ہندیہ نے بہ دل و جان تسلیم کیا۔ اسلام نے برادری اور برابری کا وہ اصولِ اخوت دیا کہ غلام ابنِ غلام بلال حبشی کو سیدنا بلال، اور غلام ابنِ غلام سلمان فارسی کو افضل الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشیر بنادیا، اور اہل الرائے اور بادی الرائے کا وہم جو صدیوں سے بھوت بن کر دھمکاتا بہکاتا رہا تھا، اعلانِ نبوت کے ساتھ دفن ہوگیا۔ بقولِ اقبال جمہوریت کا اصل ماخذ تو اسلام اور عہدِ خلافتِ راشدہ ہے۔ جمہوریت کی بنیادیں اسی عہدِ زریں میں تھیں۔ امیہ اور عباسیہ اس میں رکاوٹ بن گئے۔ اب مغرب میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کا ظہور ہماری روایت کا ظہور ہے، لہٰذا جمہوریت کا خالق مغرب نہیں اسلام ہے۔ عبداللہ بن ابی کے لیے مسجدِ نبویؐ کے اندر پہلی صف میں جگہ مخصوص تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  جمعہ کے خطبے کے لیے منبر پر تشریف لاتے تو یہ قائدِ حزبِ اختلاف ہونے کی حیثیت سے کھڑے ہوکر لوگوں سے خطاب کرتا تھا۔ آج بھی ساری جمہوری دنیا میں قائدِ حزبِ اختلاف کآ الگ چیمبر ہوتا ہے، آج بھی حزبِ اقتدار سے پہلے تقریر کا رواج عہدِ رسالت کے نظامِ اسلام سے مستفاد ہے۔ البتہ اسمبلیوں کا بائیکاٹ، گلیوں میں شورو غل رئیس المنافقین کا طریقہ ہے، اور ایسے بدنصیب کو پارلیمنٹ سے گھسیٹ کر باہر پھینکنا سنتِ صحابہ ہے۔ اسے فرعونیت لکھنے والے ایمان کی خیر منائیں۔ صاحبِ امالی کے اس نظریے کو بھی ڈاکٹر صاحب فکرِ اسلامی اور فکرِ اقبال کی روشنی میں رد کرتے ہیں، جو بظاہر بڑا درست معلوم ہوتا ہے کہ: ”اسلام اور آزادی دو متضاد نظریات ہیں۔ اسلام تو اللہ کی غلامی کا نام ہے۔ دنیا میں کوئی بھی آزاد نہیں۔ انسان یا تو اللہ کا غلام ہے یا شیطان کا۔ لہٰذا آزادی کا فلسفہ تو خالص مغربی فلسفہ ہے“۔ لکھتے ہیں: اسلام انسان کو شترِ بے مہار جیسی آزادی نہیں دیتا، کیونکہ ایسی آزادی عالمِ انسانی کے لیے اسلام کی نظر میں طاغوت کی بندگی ہے۔ حقیقی آزادی، جو ہر طرح کے داخلی (خواہشات ِنفس کی بندگی کے) جبر سے، اور خارجی (علماء الناس، رئوساء الناس کی بندگی کے) جبر سے نجات کا نام ہے اور یہی اسلام ہے۔ یہ بے اختیار بندگی نہیں بلکہ اختیاری یا ارادی بندگی ہے، جس کا ثمر اختیار کی صورت میں ملتا ہے۔
در اطاعت کوش ای غفلت شعار
می شود از جبر پیدا اختیار
………
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
کتاب کا کوئی حصہ اور کوئی صفحہ ایسا نہیں جو آیاتِ قرآنی سے مزین نہ ہو، جو ڈاکٹر صاحب اپنی بات کے ثبوت اور دلیل کے لیے پیش کرتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حکمتِ قرآنی سے کس حد تک فیض یاب ہیں۔ مگر ان آیات کا مفہوم درج نہیں کرتے، اسی طرح کتاب کا انداز اشاراتی ہے۔ شاید انہوں نے فرض کرلیا ہے کہ قاری ان سب آیات یا حقائق سے پہلے ہی آگاہ ہے۔ اسی طرح کتاب کا نام قابلِ اعتراض حد تک طویل ہے۔ معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب نے اسے مختصر کیوں نہیں کیا! کتاب کا انداز منطقی اور مدلل ہے، ہر جگہ دلائل اور براہین سے واسطہ پڑتا ہے اور قاری ان کی علمیت کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جاتا ہے۔ پوری کتاب پڑھنے کی چیز ہے۔ اس کے مطالعے سے نہ صرف فکرِ اقبال کے منور گوشے سامنے آتے ہیں بلکہ تاریخِ اسلام و  تاریخ پاکستان کے ساتھ فہمِ قران میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ قارئین اسے مختلف جہتوں سے مفید پائیں گے۔