’’شاہنواز فاروقی کی شاعری میں دنیا کی حقیقت اور محبت کی فضیلت‘‘

ہمہ جہت علمی، ادبی، فکری اور تخلیقی اوصاف رکھنے والے اور دانش کی ایک قابل ذکر سطح کے حامل قلم کار پر بات کرنا مشکل اس لیے ہوتا ہے کہ تجزیہ کرنے والے کو یہ بھی سوچنا پڑتا ہے کہ کئی میدانوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کا کون سا وصف کون سے درجے پر رکھ کر بات شروع کی جائے۔ مجھے بھی ڈاکٹر نثار احمد نثار کے حکم پر اسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا اگر وہ یہ کہتے کہ آپ کو شاہنواز فاروقی کی شخصیت کے تمام زاویوں پر بات کرنی ہے، مگر میں قدرے مطمئن ہوں کہ مجھے فاروقی صاحب کی شاعری اور شعری مجموعے ’’طوافِ عشق‘‘ پر ہی بات کرنی ہے، پھر بھی مجھے حیرت انگیز مسرت سے دوچار ہونا پڑا، جب میں نے اس شعری مجموعے کا مطالعہ شروع کیا۔ میرا پہلا تاثر یہ ہے کہ یہ شعری مجموعہ ان عام شعری مجموعوں سے مختلف ہے جن پر میں نے اب تک تبصرے تحریر کیے ہیں۔ یہ شعری مجموعہ اپنے خمیر میں زندگی سے جڑی ایسی معنویتوں کا حامل ہے جو اشعار کے ظاہر سے زیادہ ان کے باطن میں نہاں ہیں اور جو شعر کی گہرائی و گیرائی تک رسائی رکھنے والے قاری پر عیاں ہوتی ہیں۔ شاہنواز فاروقی کی شاعری پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ان کے تعارف کا وہ مختصر حوالہ درج کرنا ضروری ہے جو گوگل پر انہیں سرچ کرتے ہی ٹائٹل کے طور پر سامنے آتا ہے۔ انگریزی میں حوالہ یہ ہے:
QUOTE “Shahnawaz Farooqi is a Pakistan Intellectual with a mission to redefine Pakistan on a glorious Islamic intellectual heritage, that most of the Pakistan have forgetten”(حوالہ ختم)
ترجمہ: ’’شاہنواز فاروقی ایک ایسے پاکستانی دانش ور ہیں جن کا مشن پاکستان کے شاندار اسلامی ورثے کو نئے سرے سے اجاگر کرنا ہے جسے اکثر پاکستانی فراموش کرچکے ہیں‘‘۔
مندرجہ بالا تعارف شاہنواز فاروقی کا فکری حوالہ ہی نہیں ان کا مقصد حیات بھی ہے اور اس کی تصدیق ان کی کتابوں، تجزیوں، کالموں اور دیگر تحریروں کے مطالعے سے بخوبی ہوسکتی ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب میں اگلی تمام گفتگو شاہنواز فاروقی کی شاعری پر کروں گا۔ ’’کتاب ِدل‘‘ فاروقی صاحب کا پہلا شعری مجموعہ تھا، جس نے شاعری کے عام قاری کے ساتھ خاص قارئین کو بھی چونکایا، اور وہ ادبی حلقوں میں موضوعِ بحث رہا۔ اور اب فاروقی صاحب کا تازہ شعری مجموعہ ’’طواف ِعشق‘‘ پیش نظر ہے۔ غزلوں اور نظموں سے مزین، مقطع کی خودنمائی سے پاک اس مجموعے میں احساس کی انتہائی گہری سطح، ایک غیر محسوس خود کلامی کے انداز میں موجود ہیں۔ رویوں، معاملات اور ان کہی باتوں کا ادراک رکھنے والے شاہنواز فاروقی ایسی صورت حال کا شعور اور انہیں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنہیں عام آدمی سمجھتا تو ہے مگر بیان کرنے سے قاصر ہے۔
اس شعری مجموعے میں جتنی متنوع جہات سے دنیا کو مخاطب اور اس کے تماشوں کو اجاگر کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دنیا اور فرد کے تعلق کی بوقلمونی اور بے ثباتی کو ہم رشتہ کرنے کی جہت، تفکر کے نئے دروا کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ان کے پہلے شعری مجموعے ’’کتابِ دل‘‘ کی تقریب پذیرائی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے ممتاز شاعر اور دانش ور احمد جاوید نے اس مجموعے کی شاعری کے اس امتیاز کو دریافت کیا جس کے تحت فاروقی صاحب کے ہاں میر اور اقبال کی فکری جہات یکجا ہوتی ہیں۔ احمد جاوید نے ’’کتاب دل‘‘ کی تعریف میں گفتگو کرتے ہوئے کہا یہ تقریر شعری مجموعے ’’طواف عشق‘‘ کی ابتدا میں پیش لفظ کے طور پر شامل ہے۔
حوالہ: ’’ایسی مثالیں کم ہوتی ہیں جو دو مختلف بلکہ کہیں کہ متضاد شاعروں کی یکجائی کا سامان کردیں، میر اور اقبال کی شعریات اپنے ایک بڑے رقبے میں متضاد ہیں، شاہنواز صاحب نے کمال مہارت سے اور مہارت سے بھی بڑھ کر ایک نادر جوہر کی بیداری سے تقریباً اضداد کی یکجائی کا معاملہ کر دکھایا۔ یہ ان کی بہت بڑی کنٹری بیوشن ہے اور ’’میریت، اور اقبالیت‘‘ کی اس یکجائی کی وجہ سے ان کی یہاں کیفیت اور معنویت دونوں ہیں۔ (حوالہ ختم)
تقریر کے اس پیراگراف میں احمد جاوید نے شاہنواز فاروقی کے حوالے سے دراصل اچھی شاعری کا کلیہ دو الفاظ ’’کیفیت‘‘ اور ’’معنویت‘‘ میں سمو کر گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے، اچھی شاعری کے تعارف میں یہ ایک معنی خیز اور مکمل تبصرہ ہے۔ آیئے اس تبصرے کو مدنظر رکھتے ہوئے فاروقی صاحب کی شاعری میں اترتے ہیں۔ 27 اشعار پر مشتمل ’’طواف عشق‘‘ کی پہلی غزل دنیا کی ردیف میں ہے، اور جتنے مضامین دنیا کی اصل حقیقت، اس کی بے ثباتی، بے اعتباری، بے وفائی، مصنوعی چکاچوند، فریب اور دھوکے بازی کے ضمن میں ممکن ہوسکتے ہیں، انتباہی انداز میں منظوم کردیئے گئے ہیں۔ ایک موضوع کو متنوع زاویوں سے ان گنت اشعار میں نظم کرنا لمبی تخلیقی سانس رکھنے والے شاعری کے لیے ہی ممکن ہے۔ دنیا ردیف میں ہمہ جہت معنویت کے حامل چند اشعار کی بے ساختگی دیکھیے:
ہر ایک دل کے لیے ریگ زار ہے دنیا
عزیز راہ نہیں ہے غبار ہے دنیا
محاصرہ ہے انا کا، ہوس کا پستی کا
نہ جانے کس نے کہا ہے حصار ہے دنیا
کہیں ہنسی، کہیں دیوانگی کہیں آنسو!
بڑی کمال کی منظر نگار ہے دنیا
دعا کے بعد، دعا میں، دعا سے پہلے بھی
بس ایک بار نہیں بار بار ہے دنیا
کبھی بھی روح کو سیراب کر نہیں سکتی
او کم نگاہ! طوائف کا پیار ہے دنیا
یہ اور بات کوئی مانتا نہیں لیکن
کسی کسی کی تو پروردگار ہے دنیا
ایک سنجیدہ، کم گو اور اپنی ذات میں گم شاعر، ایثار کے جذبے سے پُر ہے۔ محبت میں لوگ صلہ مانگتے ہیں، مگر شاہنواز فاروقی اپنی سرشت کے عین مطابق محبت میں بھی صلہ کی طلب سے بے نیاز ہیں۔
وہ آدمی نہیں جو محبت نہ کرسکے
وہ عاشقی نہیں جسے درکار ہو صلہ
دینا بہت ہے یار کو لینا بہت ہی کم
اتنا سا ہے فسانہ الفت کا ماجرا
کم سے کم الفاظ میں جس سہولت سے شاہنواز فاروقی معنی خیز بات کہتے اور اس کے فکری عنصر کو بڑے کینوس پر اجاگر کرتے ہیں وہ ان کی تخلیقی ذہانت پر دال ہے۔
عشق میں سود ہی نہیں کوئی
عقل کا کاروبار اچھا ہے
بارِ دنیا ہے اصل میں سر پر
بارِ غم کا اگرچہ چرچا ہے
جھاڑتے پونچھتے رہا کیجیے!
دل اگر آئینے کے جیسا ہے
اس قدر ہوگئی نئی دنیا
ایسا لگتا ہے اک تماشا ہے
لگتا ہے فاروقی صاحب کو دنیا نئے نئے زاویوں سے اپنے آپ کو لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن یہ مجبوری نہیں ہے شاعری کی وسعت ِ نظر کا امتحان ہے، نہ دنیا اپنی جہات محدود کرنے کو تیار ہے اور نہ شاہنواز فاروقی کی تخلیقیت ہی دنیا کی کسی جہت سے صرفِ نظر کرنے کو تیار ہے، یہاں وہ ترکِ دنیا کو دنیا سے آگاہی کو وظیفہ قرار دیتے ہیں۔
اس قدر سوچتے ہیں دنیا کو
جیسے ہم نے اسے بنایا ہے
بس وہی جانتا ہے دنیا کو
وہ جو دنیا سے دور بیٹھا ہے
غزل کی شاعری میں صنعت تضاد کا استعمال اردو شاعری کی خوب صورت روایت ہے۔ مگر اس روایت کی پاسداری کرتے ہوئے ایسے متاثر کن اشعار خلق کرنا جو بقول احمد جاوید ’’کیفیت‘‘ اور ’’معنویت‘‘ دونوں سطحوں پر سراہے جانے کے اہل ہوں، فنی مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔ شاہنواز فاروقی کی غزل میں بھی صنف تضاد کی پاسداری موجود ہے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ صفت تضادِ شعر میں متضاد المعنیٰ الفاظ سے خیال کی شجرکاری فن ہے۔ فاروقی صاحب نے اشعار میں اس صفت کو کیسے نبھایا ہے۔ اشعار دیکھیے:
یہ جو لمحہ ہے اک مسرت کا
اس کے باطن میں ایک صدمہ ہے
سچ کو جھگی بھی مل نہیں پاتی
جھوٹ محلوں میں عیش کرتا ہے
خیر ملنا تو اک ضرورت ہے
ٹوٹ جانے کا نام رشتہ ہے
وہ جو حاصل نہیں ہے، میٹھا تھا
ہاتھ جو آ گیا ہے کھٹا ہے
آدمی ہے نئے زمانے کا
اس کا ملنا بچھڑنے جیسا ہے
شاعری پر رائے دیتے ہوئے مجھ ناقص کی حکمت عملی، اشعار میں کیفیت اور معنویت کی خوبیوں پر بات کرنے سے زیادہ اشعار کے حوالے دینے کی ہوتی ہے کہ رائے دینے والے کی جملہ سازی سے زیادہ، شعر اپنی خوبی کا ثبوت خود ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایسا بھی لگا جیسے یہ انکشافات کی شاعری ہے، سماج کی تہوں میں چھپے خوف، بے چہرگی، لایعنیت، جبر، بے اعتباری اور زندگی کی زمین پر پائی جانے والی ان دکھ اگلتی دراڑوں کے انکشافات کی شاعری جنہیں ایک باریک بین ناظر کی آنکھ ہی دیکھ اور قادر الکلام شاعر کا قلم ہی تحریر کر سکتا ہے۔ حوالے کے طور پر چند اشعار اور:
سیلابِ کبر، رقصِ اَنا، بندگی کا خوف
تاریک عہد اور کسی روشنی کا خوف
ہر اک گلی میں آئینے ٹوٹے ہوئے ملے
اتنا جہاں میں عام ہے بے چہرگی کا خوف
کتنی بڑھے گی اور خرد کی مداخلت
کتنا بڑھے گا اور یہاں آدمی کا خوف
دل سے ڈرے ہوئے ہیں فقیہانِ شرق و غرب
یہ خوف اپنی اصل میں ہے زندگی کا خوف
اس مجموعے میں آزاد نظمیں بھی شامل ہیں اور یہ نظمیں شاعر کی طرف سے اصناف ِسخن کے لیے دامنِ دل کشادہ رکھنے کا اظہار ہے۔ ان کی نظموں میں ایک دھیما پن، ایک نرمی ہے۔ جذبوں کی تہہ داری کا بیان بلند آہنگ نہیں ہے۔ خیال کے فکری بہائو میں دانش کا عنصر لطیف جذبوں میں گندھا ہوا ہے۔ نظم ’’سلسلے، پرواز، کیوں اور جیب خالی ہے‘‘ خوبصورت نظمیںہیں۔ کچھ مختصر نظمیں بھی اس مجموعے کا حصہ ہیں جو موضوعاتی تنوع کی حامل ہیں اور سوال اٹھاتی ہیں۔ خیال کی پرتیں تہہ در تہہ زندگی کا فلسفہ اور اس کے مسائل کی مختلف جہات سامنے لاتی ہیں۔ سوچنے والے ذہین قاری آگے بڑھتے ہوئے رکتا ہے، اپنی علمیت کو بروئے کار لا کر غور کرتا، فکرکو مضمون سے ہم آہنگ کرتا، اور موضوع کی کسی نئی جہت کو نظم کی سطروں میں پرویا ہوا پاتا ہے۔ یہی شاہنواز فاروقی کی نظموں کا اختصاص ہے۔
مختصر نظم موضوع کی ابتدا کر کے اس کے تاثر کو اجاگر کرتے ہی مکمل کر دینے کا ہنر ہے۔ یہ ایک مشکل امر ہے اور شاعر سے اس بات کے ادراک کا طالب ہے کہ نظم کہاں سے شروع کرنی ہے اور کہاں ختم کرنی ہے۔ مشتے از خروارے کے طورپر فاروقی صاحب کی دو مختصر نظموں میںخیال کی گہرائی ملاحظہ کیجیے، ان نظموں میں میریت اور اقبالیت کے عناصر بھی قابلِ توجہ ہیں:
نظم ’’تیری بات‘‘
رینے گینوں
عسکری
میر جی کی کلیات
اور ان کے درمیان
رقص کرتی
تیری بات
نظم ’’شکایت‘‘
خدایا! دیکھ لے
قرنوں سے جیسے
مرے کمزور کاندھوں پر رہائش رکھنے والے
یہ ترے دونوں فرشتے
کچھ نہیں لکھتے
شاعری کے لیے زرخیز ذہن میں بھرپور فصل کی نمو کے لیے محبت کا بیج بنیادی شرط ہے، حساس شاہنواز فاروقی اس بیج کی قدروقیمت سے بھی واقف ہیں اور فرد پر اس کی فصل کے مرتسم ہونے والے اثرات کے نتائج سے بھی کلی طو رپر آگاہ ہیں۔ لہٰذا پہلے تو وہ اعلان کرتے ہیں:
جو کسی سے محبت نہیں کر سکا!
وہ حقیقت میں دراصل کم ذات ہے
اور پھر اس کے اثرات سے متاثر ہونے کا اقرار اس طرح کرتے ہیں:
مثالِ قیس کیا فرہاد ہونا بھی نہیں آیا
ہمیں تو عشق میں برباد ہونا بھی نہیں آیا
پلٹ کر دیکھتے جاتے ہیں زنجیرِ محبت کو
ہمیں تو ٹھیک سے آزاد ہونا بھی نہیں آیا
خیال آیا یہی اکثر تمہارے بھول جانے سے
محبت میں ہمیں اک یاد ہونا بھی نہیں آیا
مجھے اقرار ہے کہ اس شعری مجموعے کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے اس کی جن بہت سی جہات کو نوٹ کیا، زیادہ طوالت کے خوف سے کچھ ہی کو اپنے مضمون کا حصہ بنا سکا۔ پھر بھی آخری بات کہنے سے پہلے ایک بنیادی بات جو میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ ہے کہ شاہنواز فاروقی جز کی نہیں کُل کی بات کرتے ہیں۔ ان کے ہاں فرد کا استعارہ دراصل پوری انسانیت کا استعارہ ہے۔ اپنی تخلیقات میں اس انداز کو اختیار کرنا، وسعت ِ نظر، وسعت ِمطالعہ اور کشادگی فکر وفہم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اپنے اس دعوے کی دلیل میں فاروقی صاحب کا صرف ایک شعر
صبحِ ازل سے شامِ ابد تک مرا سفر
اور اس سفر میں کوئی مرا ہم سفر نہیں
اور اب اس شعری مجموعے کے حوالے سے آخری بات یہ کہ شاہنواز فاروقی کو اپنے بیٹے محمد عمر فاروقی سے بہت محبت ہے اور اس محبت کا اظہار عمر فاروقی کے نام کتاب کے منظوم انتساب سے واضح ہے۔ انتساب ان 4 مصرعوں پر مشتمل ہے۔ بیٹے کے لیے باپ کی شفقت سے پُر دل گداز جذبوں کے حامل 4 مصرعے:
کوئی لگتا ہی نہیں دل کو تمہارے جیسا
تم نہ ہوتے تو یہ جینا تھا خسارے جیسا
مسکراہٹ تری لگتی ہے سحر کے جیسی
تیرا آنسو مجھے لگتا ہے ستارے جیسا
عمر فاروقی خوش قسمت ہیں کہ وہ ایک نامور شخصیت اور باکمال شاعر کے بیٹے ہیں، اور ’’طوافِ عشق‘‘ کا انتساب ان کے نام ہے۔ اگرچہ اس کتاب کے صفحہ 137 پر محض 12 الفاظ پر مشتمل ایک نظم بعنوان ’’انتساب‘‘ بھی شامل ہے۔ نظم یوں ہے:
اتنا حسن تھا
اک گلاب پر
داستانِ عشق
پوری ہو گئی
انتساب پر
’’طوافِ عشق‘‘ کی خوبصورت شاعری کی دل پذیری سے متاثر ہونے کے ساتھ ہی، میں اس کتاب کے مندرجہ بالا دونوں انتسابوں کے معنوی تعلق کی ہم آہنگی اور جذبوں کے سچے عکس کی شفافیت سے بہت مرعوب ہوا ہوں۔ اور اس امر میں کوئی شک نہیں کہ تخلیقی اظہار کو ذہنوں میں بہت دیر تک زندہ رکھنے کے لیے ایسے سچے اور آئینہ صفت اظہار کی ضرورت ہے۔ اس مجموعے کی صورت میں اعلیٰ شاعری پیش کرنے پر میں شاہنواز فاروقی کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔