اکیاون ارب ٹن سالانہ کا 31 فیصد
یہ جگہ مدینہ واشنگٹن سے آٹھ میل ڈرائیو پرہے، جہاں میں اور ملینڈا رہتے ہیں (طلاق سے پہلے)۔ یہ سیاٹل میں ہماری فاؤنڈیشن کا ہیڈ کوارٹرز ہے۔ دفتر جانے کے لیے مجھے دریائے واشنگٹن سے گزرنا پڑتا ہے، اسے Evergreen Point Floating Bridge کہا جاتا ہے، گوکہ یہاں رہنے والا کوئی بھی اسے اس نام سے نہیں پکارتا، ان لوگوں کے لیے یہ 520 پُل ہے، اُس ریاستی شاہراہ کا نام جو یہاں سے گزرتی ہے۔ یہ 7,700 فٹ لمبا دنیا کا طویل ترین تیرتا ہوا پُل ہے۔
میں جب بھی اس پُل سے گزرتا ہوں، ایک لمحے کے لیے اس معجزے پر داد دیے بغیر نہیں رہتا۔ اس لیے نہیں کہ یہ دنیا کا سب سے طویل پُل ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ تیرتا ہوا پُل ہے۔ کس قدر عظیم الشان ڈھانچہ ہے، جسے ٹنوں تارکول، کونکریٹ اور فولادسے بنایا گیا، اور پھر ہر وقت سیکڑوں گاڑیاں اس پر سفر کررہی ہوتی ہیں، اس سارے وزن کے ساتھ یہ پُل تیر رہا ہے۔ یہ ڈوبتا کیوں نہیں؟ اس کا جواب انجینئرنگ کا معجزہ ہے۔ جو حیرت انگیز مادہ کونکریٹ کی مدد سے یہ صورت اختیار کرسکا ہے، ایک نظر میں یہ بہت عجیب معلوم ہوتا ہے۔ فطری طور پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کس طرح کونکریٹ کا یہ بھاری ڈھانچہ تیر بھی سکتا ہے؟
اگرچہ یہ سچ ہے کہ کونکریٹ کو اس طرز پرکام میں لایا جاسکتا ہے کہ وہ تیر سکے، اس قدر ٹھوس کہ ہسپتال کی دیواروں میں نیوکلیئر لہریں جذب کرسکے، اسے کھوکھلے سانچے بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسے 77 ہوا اور پانی سے بھرے چپٹے پیندے (pontoons)، جو اس پُل کو سہارا دیے رکھتے ہیں۔ یہ ہر ایک ہزاروں ٹن وزنی ہے، اور اس قدر تیرنے کے قابل ہے کہ دریا کی سطح پر ٹھیرسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قدر پختہ ہے کہ پُل اور دوڑتی گاڑیوں کی آمد و رفت بھی سہار سکے۔
تم اگر اپنے اردگرد کا جائزہ لو تو کونکریٹ کے کارنامے ہر طرف نظر آئیں گے۔ یہ ہر طرح کی خرابی اور بوسیدگی سے محفوظ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید طرز کی عمارتوں کی تعمیر میں کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر تم ہائیڈرو پاور کی اہمیت کے قائل ہو تو ڈیموں کی تعمیر میں کونکریٹ کی ضرورت کو اچھی نظر سے دیکھوگے۔ اگلی بار جب تم مجسمہ آزادی دیکھنے جاؤ تو اُس کے پائے ستون کا جائزہ لینا، جس کی تیاری میں ستائیس ہزار ٹن کونکریٹ استعمال کیا گیا ہے۔
امریکہ کے عظیم مؤجد تھامس ایڈیسن کو بھی کونکریٹ میں بڑی دلچسپی تھی۔ اُس نے پورے پورے مکان کی تعمیر میں کونکریٹ استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُس نے کونکریٹ سے فرنیچر تک بنانے کا خواب دیکھا، جیسے خواب گاہ وغیرہ کا فرنیچر، یہاں تک کہ کونکریٹ کا ریکارڈ پلیئر تک ڈیزائن کرڈالا۔ گوکہ ایڈیسن کے یہ خیالات ٹھوس شکل اختیار نہیں کرسکے، مگر ہم پھر بھی کونکریٹ کا بہت زیادہ استعمال کررہے ہیں۔ ہرسال سڑکوں کی تعمیر، تعمیر نو، عمارتوں اور پُلوں کی تیاری کے لیے تنہا امریکہ 9کروڑ 60 لاکھ ٹن سیمنٹ بناتا ہے، جوکونکریٹ کا سب سے اہم جُز ہے۔ یہ فی فرد تقریباً چھ سو پاؤنڈ بنتا ہے۔ اور جب کہ ہم اس کے سب سے بڑے صارف بھی نہیں۔ سب سے بڑا صارف چین ہے، جس نے اکیسویں صدی کے ابتدائی سولہ سال اتنا کونکریٹ استعمال کیا ہے کہ جتنا امریکہ نے پوری بیسویں صدی میں نہیں کیا۔
ظاہر ہے سیمنٹ اور کونکریٹ وہ واحد مواد نہیں کہ جن پر ہماری تعمیر انحصار کرتی ہو۔ فولاد بھی ہے جو ہم گاڑیوں، جہازوں، ریلوں، ریفریجریٹرز، اسٹووز، فیکٹری مشینوں، خوراک کے ڈبوں، اور کمپیوٹرز وغیرہ کی تیار ی میں استعمال کرتے ہیں۔ فولاد بہت مضبوط، سستا، اور پائیدار ہوتا ہے۔ یہ لامحدود طور پر ازسرنو استعمال کے قابل بھی ہوتا ہے۔ یہ کونکریٹ کے ساتھ مل کر بھی بہترین کردار ادا کرتا ہے۔ کونکریٹ میں جب فولاد کی سلاخیں شامل ہوتی ہیں تو ایک جادوئی تعمیری مواد حاصل ہوتا ہے، جوٹنوں وزن سہار سکتا ہے، اور ہلانے جلانے سے ٹوٹتا بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زیادہ تر اپنی عمارتوں کی تعمیر میں کونکریٹ کا طاقت ور آمیزہ استعمال کرتے ہیں۔ امریکی جتنا سیمنٹ استعمال کرتے ہیں اتنا ہی فولاد بھی کام میں لاتے ہیں۔ یوں یہ بھی سالانہ فی فرد چھ سو پاؤنڈ فولاد بنتا ہے۔ اس میں وہ فولاد شامل نہیں جو بار بار استعمال کیا جاتا ہے۔
پلاسٹک بھی ایک حیرت انگیز مادہ ہے۔ بہت ساری اشیاء کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کپڑوں سے لے کر کھلونوں، فرنیچر، گاڑیوں، سیل فون وغیرہ تک میں استعمال کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پلاسٹک سے تیار کی جانے والی اشیاء کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم پلاسٹک کے بارے میں اچھا تاثر نہیں ہے، یہ تاثر کچھ اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ مگریہ بہت کچھ اچھا کام بھی کررہی ہے۔ جیسا کہ میں اس وقت اپنی میز پر جب نظر دوڑاتا ہوں تو بہت ساری چیزیں پلاسٹک سے بنی نظر آتی ہیں: میرا کمپیوٹر، کی بورڈ، مانیٹر، ماؤس، اسٹیپلر، فون، وغیرہ وغیرہ۔ پلاسٹک جدید طرز کی گاڑیوں کی کارکردگی میں بھی اہم کردار ادا کررہی ہے، اس طرح گاڑی کا اپنا وزن صرف دس فیصد رہ جاتا ہے۔
یہاں شیشہ بھی ہے، ہماری کھڑکیوں میں، جگ اور بوتل میں، گاڑیوں میں بھی ہے۔ فائبر آپٹک تار بھی ہیں، جو تیز ترین انٹرنیٹ رابطے ممکن بناتے ہیں۔ ایلومینیم سے بجلی کی لائنیں، دروازوں کی کنڈیاں، ریلیں، جہاز وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ کھاد دنیا کی بیشتر خوراک کا انتظام کرتی ہے۔ سالوں پہلے میرا خیال تھا کہ کاغذ کا کردار اب شاید ختم ہوجائے، مگر لگتا ہے یہ بھی ابھی کام میں لایا جاتا رہے گا۔
مختصراً یہ کہ ہم جوکچھ بھی تیار کرتے ہیں، بناتے ہیں، صنعت سازی کرتے ہیں، وہ سب بجلی کی مانند جدید زندگی کا لازمہ بن چکے ہیں۔ ہم یہ سب چیزیں چھوڑ نہیں سکتے، بلکہ جوں جوں آبادی بڑھے گی، ان اشیاء کا استعمال بڑھتا چلا جائے گا۔ گوکہ یہ کہانی ساری دنیا میں دہرائی جائے گی، مگر سب سے ڈرامائی مقام شنگھائی ہے۔ اس ضمن میں اس کا ذکر بار بار آئے گا۔ لوگ زیادہ سے زیادہ کمارہے ہیں۔ طرزِ زندگی میں زیادہ سے زیادہ بہتری لارہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پُرتعیش ہوتے جارہے ہیں۔ اچھی سے اچھی تعلیم اور صحت ہے، اور جوانی میں مرنے کے امکانات کم سے کم ہورہے ہیں۔ اگر کسی کو غربت مٹانے میں کوئی دلچسپی ہے تو اسے ایک اچھی خبر سمجھنا چاہیے۔ مگراس ساری چمک دمک تلے تاریک سائے منڈلا رہے ہیں۔ یہ ساری انسانی صنّاعی گرین ہاؤس گیسیں خارج کررہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ساری دنیا کا ایک تہائی کاربن خارج کررہے ہیں۔ کوئی ایسا عملی طریقہ موجود نہیں، جو اس ساری صنعت سازی میں کاربن خارج کیے بغیرکارآمدثابت ہوسکے۔
(جاری ہے)