سینئر صحافی،ممتازتجزیہ نگار اور افغان امورکے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی

سینئر صحافی، ممتازتجزیہ نگار اور افغان امورکے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی طویل علالت کے بعد گزشتہ روز انتقال کرگئے، ان کی عمر65 برس تھی۔ مرحوم کو اُن کے آبائی گاؤں انزرگئی شموزئی تحصیل کاٹلنگ ضلع مردان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ ان کے جنازے میں ملک بھر سے صحافیوں، اعلیٰ سول و فوجی حکام، سیاست دانوں، عمائدین اور اہلِ علاقہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
رحیم اللہ یوسف زئی 10 ستمبر 1954ء کو اپنے آبائی گاؤں انزرگئی شموزئی تحصیل کاٹلنگ ضلع مردان میں ایک مقامی کاشت کار آدم خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم گائوں کے واحد پرائمری سرکاری اسکول سے حاصل کی۔ والد چونکہ فوج میں صوبیدار تھے، اس لیے انہیں اپنے والد صاحب کے ساتھ ان کی پوسٹنگ کے دوران ملک کے نصف درجن شہروں میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کا موقع ملا۔ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ فوجی افسر بنیں، اس لیے ساتویں پاس کرنے کے بعد انہیں ملٹری کالج جہلم میں داخل کرایا گیا، جہاں جلد ہی ان کا شمار کالج کے ہونہار طلبہ میں ہونے لگا، مگر میٹرک میں ان کی آنکھوں کی بینائی اتنی کم ہوگئی کہ انہیں ملٹری کالج چھوڑکر پہلے مردان کالج اور بعدازاں کراچی میں داخلہ لینا پڑا۔
کراچی میں ایف ایس سی کرنے کے دوران چونکہ ان کے مالی حالات بہتر نہ تھے، اس لیے وہ 1972ء میں بطور پروف ریڈر شعبہ صحافت سے وابستہ ہوئے۔ آغاز انگریزی اخبار دی سن سے کیا، اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ قیادت کا مادہ اور جذبہ بھی موجود تھا، چنانچہ اخبار کے کارکنوں کی تنظیم قائم کرکے اس کے سیکرٹری اور بعد ازاں صدر بن گئے۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں سے تنگ آکر اخبار کی انتظامیہ نے ان کا تبادلہ بطور سزا لاہورکردیا۔ لاہور پہنچ کر بھی وہ آرام سے نہیں بیٹھے بلکہ وہاں بھی صحافیوں کو منظم کرکے ان کی تنظیم قائم کی جس کے پہلے سیکرٹری اور پھر صدر منتخب ہوئے۔ بعدازاں ان دونوں تنظیموں کو ملا کر ان کی فیڈریشن قائم کرکے اس کے مرکزی صدر بن گئے۔
جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں حق گوئی کی سزا پاتے ہوئے کچھ عرصہ بے روزگار رہے، البتہ بعد میں مشاہد حسین سید کے توسط سے انگریزی اخبار ’دی مسلم‘ کے ساتھ وابستہ ہوگئے، اور 1985ء میں پشاور آکر اس کے بیوروچیف بن گئے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کے مشورے سے انہوں نے کچھ عرصہ ’دی اینڈی پینڈنٹ‘ کے ساتھ بھی کام کیا۔ جب فروری 1991ء میں ’دی نیوز‘ کا اجراء ہوا تو اس کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور تادم مرگ اسی کے ساتھ وابستہ رہے۔ اسی طرح نومبر 1985ء میں بی بی سی کے ساتھ وابستہ ہوئے، اور بے پناہ محنت اور جہدِ مسلسل کی وجہ سے افغان امور کے مستند ماہر بن گئے۔ آپ 1978ء سے افغان تنازعے پر رپورٹنگ کرتے آرہے تھے۔ 8 199 میں انہوں نے دو مرتبہ اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا، اسی طرح وہ پہلے صحافی تھے جنہوں نے افغانستان کے طالبان رہنما ملا محمد عمر کا پہلا انٹرویو کیا۔
اپنے بے پناہ تجربے اور مشاہدے کی بناء پرآپ کا شمار ملک کے معروف سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں میں ہوتا تھا جس کی وجہ سے ملک کے ہر حصے میں اعلیٰ سرکاری افسران کی ٹریننگ کے دوران انہیں لیکچر کے لیے بلایا جاتا تھا۔ انہوں نے خیبر پختون خوا کے صحافیوں کی تنظیم خیبر یونین آف جرنلسٹس کو ازسرنو متحرک کیا اور اس کے صدر بن گئے۔ اسی طرح سیفما کے اس علاقے کے صدر بھی رہے۔ خیبر پختون خوا کے صحافیوں کے درمیان جب بھی کسی بات پر اختلاف پیدا ہوا، اسے حل کرنے اور تمام صحافیوں کو متحد رکھنے میں وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔
1999ء میں جب جنرل پرویزمشرف نے اقتدار سنبھالا اور خیبر پختون خوا حکومت کے لیے وزراء کے نام فائنل ہونے لگے تو ان کو بھی صوبائی کابینہ میں شامل کرنے کی پیشکش کی گئی، جو انہوں نے یہ کہہ کر شکریے کے ساتھ مسترد کردی کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ امور کو متاثر نہیں کرسکتے۔ اس طرح ماضی میں کئی سیاسی جماعتوں نے بھی ان کو اپنے اپنے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ کے انتخابات لڑنے کی پیشکش کی، مگر انہوں نے بڑی مہارت کے ساتھ اس سے بھی دامن چھڑائے رکھا۔ ان کی شاندار صحافتی خدمات کی بناء پر حکومت نے ان کو 2004ء میں تمغائے امتیاز اور 2009ء میں ستارہ امتیاز کے قومی اعزازات سے بھی نوازا۔
رحیم اللہ یوسف زئی کہا کرتے تھے کہ بلاشبہ تربیت کے لیے صحافت انتہائی بہترین شعبہ ہے، انسان اگر چاہے تو بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، ساتھ ہی آپ کو پڑھنے کے لیے بھی وقت مل جاتا ہے۔ صحافی کو خبر لگاتے وقت دماغ، ہاتھ اور الفاظ تینوں پر کنٹرول رکھنا چاہیے، اپنی زبان اور تحریر کو کنٹرول اور توازن میں رکھنے والا ہی کامیاب صحافی کہلاتا ہے۔ بنیادی اور اصل بات تو یہ ہے کہ صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں آپ ہر روز امتحان سے گزرتے ہیں اور اگلے روز اس کا نتیجہ بھی نکلتا ہے، ہر روز جب میں اپنے اخبار میں اپنی اور دوسرے رپورٹرز کی خبریں دیکھتا ہوں تو رہ رہ کر احساس ہوتا ہے کہ فلاں فلاں غلطیاں رہ گئیں، یہ نہیں ہونی چاہیے تھیں، بہت دکھ ہوتا ہے، اس لیے صحافت اور پھرصحافت میں ذمہ دار مقام کسی کم حوصلہ شخص کے بس کی بات نہیں، اس کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی پالیسیاں اپنی جگہ، مگر صحافت میں سیلف سینسر بھی ضروری ہے، کیونکہ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مذہبی، علاقائی اور قومی کئی قسم کی روایات اور اقدار کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اور بھی کئی قسم کی مجبوریاں ہوتی ہیں، لہٰذا ازخود بھی احتیاط ضروری ہوتی ہے۔
سوویت یونین کی افغانستان پر ننگی جارحیت اور اس کے خلاف افغان جہادکے دوران رپورٹنگ کے ذریعے شہرت کمانے والے رحیم اللہ یوسف زئی کی بعض دیگر خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت اُن کا اتنا بڑا نام کمانے کے باوجود تکبر اور رعونت کے مرض سے کوسوں دور ہونا تھا، حالانکہ ہمارے ہاں معمولی اختیار، یا پھر تھوڑی بہت شہرت ملنے کے بعد گردنوں میں سریا آجانا معمول کی بات ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان، قبائلی علاقہ جات اور خیبر پختون خوا کے امور کے حوالے سے ان کے پائے کا صحافی اب تک نہ تو پیدا ہوا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی ایسا نام نظر آتاہے جس سے یہ توقع کی جاسکے کہ وہ رحیم اللہ یوسف زئی کی رحلت سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرسکے گا۔ رحیم اللہ صاحب کی عاجزی اور ملنساری کا ہر کوئی گواہ ہے۔ گھمنڈ اور تکبر کے امراض ان کو چھوکر بھی نہیں گزرے تھے۔ اپنے جونیئر صحافیوں کی راہنمائی میں وہ نہ تو کوئی عار محسوس کرتے تھے اور نہ ہی انھوں نے اس حوالے سے کبھی کسی بخل سے کام لیا۔ رحیم اللہ صاحب کی اپنے پیشے کے ساتھ کمٹمنٹ اور غیر جانب داری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بار بار کی آفرز اور مواقع ملنے کے باوجود کبھی بھی کسی سرکاری میڈیا یا پلیٹ فارم کو جوائن نہیںکیا، رحیم اللہ صاحب کی پیشہ ورانہ ایمان داری کا ایک اور ثبوت اُن کا اپنے عہدے اور تعلق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے بچوں کے لیے وقت کے حکمرانوں سے کوئی رعایت نہ لینا ہے، حالانکہ اُن کے لیے اپنے قد کاٹھ اور حکومتی ایوانوں، بیوروکریسی اور فوج کے اعلیٰ عہدیداران تک رسائی، اور ان کے ساتھ پیشہ ورانہ میل جول اور قریبی تعلق کی وجہ سے اپنے بچوں کے لیے اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کا حصول کوئی مشکل کام نہیں تھا، لیکن چونکہ ایسا کرنے کے لیے انہیں اپنے پیشے پر کمپرومائز کرنا پڑتا، لہٰذا انھوں نے اس داغ سے ہمیشہ اپنا دامن بچائے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کے بچے اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تو فائز نہیں ہیں، لیکن ان کا سر اپنے مرحوم والد کی طرح فخر سے بلند ہے۔
شعبہ صحافت کے بارے میں رحیم اللہ یوسف زئی صاحب کہا کرتے تھے کہ ماضی میں صحافت بہت کمزور ہوا کرتی تھی، ذرائع کم تھے، سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں، البتہ تصدیق کے بعد درست خبر کا چلن عام تھا، ایک خبر چھپنے سے حکومتیں ہل جایا کرتی تھیں۔ اب صحافت بہت پھیل گئی ہے، جدید وسائل اور ذرائع کی بھی کوئی کمی نہیں ہے، صحافتی اداروں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے، ملک میں اس وقت تقریباً سترہ ہزار صحافی موجود ہیں، مگر وہ پہلے جیسا اثر نہ رہا۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک رپورٹر کوئی خبر چھاپتا ہے تو کوئی دوسرا اس کی تردید پر مشتمل خبر چھاپ دیتا ہے۔ پھر ہمارے ہاں صحافت میں کچھ تنگ نظری بھی ہے، کسی کے اچھے کام کی تعریف نہیں ہوتی، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں، رہنمائی نہیں کی جاتی۔ درحقیقت پروفیشنل ازم نہیںرہا۔ پہلے پروفیشنل ایڈیٹر ہوتے تھے جو غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کیا کرتے تھے، اب تو زیادہ تر موروثی ایڈیٹر آنے لگے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ کسی کو کیا سکھا پائیںگے! اردو صحافت کو مشکل قرار دیتے ہوئے رحیم اللہ صاحب کہا کرتے تھے کہ اردو والا صحافی زیادہ محنت کرتا ہے، دوڑتا ہے، ہر جگہ پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ اسے زیادہ خبریں فائل کرنا ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس انگلش والا محنت نہیں کرتا۔ انگلش صحافت خواص کے لیے ہے اور اردو صحافت عوام کے لیے، اب تو اگرچہ اردو والوں نے بھی محنت چھوڑ دی ہے لیکن انگلش والے کچھ زیادہ ہی بے فکر نظر آتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے بارے میں ان کا مؤقف تھا کہ الیکڑانک میڈیا بلوغت سے ابھی بہت دور ہے۔ یہ ابھی بھی ٹین ایجر ہے۔ اس لیے غلطیاں ہورہی ہیں۔ البتہ اس کے مقابلے میں چونکہ پرنٹ میڈیاکی عمر زیادہ ہے، اس لیے وہ خاصا میچور ہے۔ یہاں سنسنی خیزی کم ہے اور ذمہ دارانہ صحافت ہوتی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ الیکٹرانک میڈیا کو بالغ ہونے میں ابھی خاصا وقت لگے گا۔
رحیم اللہ یوسف زئی کی ایک اورنمایاں خصوصیت ان کا بیک وقت تین زبانوں انگریزی، اردو اور پشتو میں صحافت کرنا تھا۔ ان کو حیرت انگیز حد تک ان تینوں زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا۔رحیم اللہ یوسف زئی کی وسعتِ قلبی، شفقت اور جونیئر لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کا اندازہ جہاں پشاور کے تقریباً ہر صحافی کے اس اعتراف سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ رحیم اللہ صاحب کی انگلی پکڑ کر دنیائے صحافت میں آیا ہے، وہاں اس بات کا تو میں خود بھی شاہد ہوں کہ رحیم اللہ صاحب جو بی بی سی، وائس آف امریکہ، دی نیوز اور جنگ کے علاوہ کئی دیگر بین الاقوامی نشریاتی اداروں سے منسلک ہونے کے باوجود پشاور کے کثیرالاشاعت اردو اخبار روزنامہ ’آج‘ میں بھی باقاعدگی سے کالم لکھتے تھے، لہٰذا جب 2008ء میں روزنامہ ’آج‘ کے بانی چیف ایڈیٹر عبدالواحد یوسف زئی صاحب کی خواہش پر راقم الحروف نے روزنامہ آج میں کالم لکھنا شروع کیا تو رحیم اللہ صاحب سے اس عرصے میں جب بھی اور جہاں بھی ملاقات ہوتی تھی وہ نہ صرف میرے تجزیاتی کالموں کی تعریف کرتے تھے بلکہ بسا اوقات قیمتی ٹپس دے کر راہنمائی بھی فرماتے تھے۔ اسی طرح جب کبھی کبھار مصروفیت یا مسائل کی وجہ سے کالم لکھنے میں وقفہ طویل ہوجاتا تھا تو وہ باقاعدہ فون کرکے خیر خیریت معلوم کرکے اپنائیت اور شفقت کا اظہار کرتے تھے، جس سے اگر ایک طرف ہماری حوصلہ افزائی ہوتی تھی تو دوسری جانب ہم سستی اور بے رغبتی کو ایک طرف رکھ کر دوبارہ لکھنے میں بھی مشغول ہوجاتے تھے۔ چند ماہ پہلے جب میں نے فون کرکے ان سے انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ میں مضمون نگاری کی خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے حسب روایت شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ سلسلہ شروع کرنے کی ترغیب دی بلکہ مضمون لکھ کر بھیجنے کے لیے بھی کہا، جو میں نے لکھ کر ان کو ای میل اور واٹس ایپ کردیا۔ میرا خیال تھا کہ ان کے لیے اپنی بے پناہ مصروفیات اور ناسازیِ طبع کے باعث نہ صرف میرا مضمون دی نیوز میں چھاپنا مشکل ہوگا بلکہ شاید ان کے لیے اس کا پڑھنا بھی ممکن نہیں ہوگا، لیکن تیسرے یا چوتھے دن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دی نیوز نے میرا پہلا مضمون بغیر کسی ایڈیٹنگ کے ادارتی صفحے پر سب سے اوپر شائع کردیا تھا۔ اس پر جب میں نے انہیں شکریے کے لیے ٹیلی فون کیا تو انھوں نے برا مناتے ہوئے کہا کہ اس میں شکریے کی کیا بات ہے! آپ کا مضمون قابلِ اشاعت تھا تب ہی تو وہ شائع ہوا، ورنہ تو ہمیں روزانہ کئی مضامین اور تحریریں ملتی ہے جو شائع ہونے کے قابل نہیں ہوتیں، اسی لیے وہ شائع ہونے سے رہ جاتی ہیں۔ میرا دوسرا مضمون ملنے کے بعد انھوں نے فون کرکے کہا کہ اب آپ کو مجھے مضمون بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ آپ براہِ راست ایڈیٹوریل پیج کی انچارج کو اپنا مضمون ای میل کردیا کریں، میری اُن سے بات ہوگئی ہے، وہ آپ کے مضامین شائع کردیا کریں گی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے پیشے سے کتنے مخلص تھے اور اپنے جونیئرز کی کس حد تک حوصلہ افزائی اور عملی مدد کیا کرتے تھے۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ رحیم اللہ یوسف زئی صاحب کو غریقِ رحمت کرے، اور ان کے عزیز و اقارب کو ان کی جدائی کا غم برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔