افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز نکل جانے کے بعد سب سے زیادہ اثر پاکستان پر پڑا ہے، اور پاکستان ایک نئے امتحان سے دوچار ہوگیا ہے۔ کابل میں حالات پُرامن نہ رہے تو سب سے زیادہ مشکلات ہمارے لیے ہوں گی، اس لیے پاکستان افغانستان میں امن اور استحکام کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔
اسلام آباد میں چین، ایران، روس اور تاجکستان کے انٹیلی جنس چیفس نے اہم ملاقات کی۔ یہ ملاقات ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی میزبانی میں ہوئی، جس میں افغانستان کی سیکورٹی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ یہ پیش رفت پاکستان کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ ولیم جے برنز افغانستان میں طالبان کے نظم و نسق سنبھالنے کے بعد دس دنوں میں دو بار اسلام آباد آئے۔ انہوں نے آرمی چیف سے بھی ملاقات کی۔ ہر ملک کی خفیہ ایجنسی اپنے کام کی تشہیر نہیں کرتی، اور نہ کسی کو خبر کے لیے پیچھا کرنے دیتی ہے، لیکن جب اسلام آباد میں آٹھ اہم ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ ایک مشترکہ اجلاس کریں تو یہ دنیا کی ایک بڑی خبر بن جاتی ہے۔ یہ کانفرنس دو روز تک جاری رہی، جس میں افغانستان میں امن و استحکام کے ساتھ ساتھ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایک مشترکہ حکمتِ عملی بنانے کے اعتبار سے نہایت اہم مشاورت کی گئی۔
یہ بات تاریخی حوالے کے ساتھ لکھی اور بیان کی جاسکتی ہے کہ آئی ایس آئی نے 40 سال سے افغانستان کے حالات کے باعث یہاں ہونے والے واقعات کو بڑے قریب سے دیکھا ہے، روس کے بعد اب امریکہ کی رسوائی بھی دنیا نے دیکھی ہے۔ جہادِ افغانستان سے لے کر طالبان حکومت کے قیام، اور طالبان کی اقتدار سے بے دخلی، اور اب دوبارہ اقتدار میں آجانے پر حالات بہت تبدیل ہوئے ہیں۔ اب پہلے والا افغانستان ہے اور نہ پہلے والے طالبان۔ افغانستان میں سیاسی استحکام میں سب کی بھلائی ہے، اور اسی لیے اُس کے ہمسایہ ممالک سفارتی سطح پر غیرمعمولی طور پر متحرک ہیں۔ سب سے پہلے چھ ممالک جن کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے یعنی چین، ایران، تاجکستان، پاکستان، ازبکستان اور ترکمانستان نے ہمسایہ ممالک کا ایک گروپ بنا لیا ہے۔ اس گروپ کے پچھلے ایک ہفتے میں دو اہم اجلاس ہوئے، جن میں طے پایا کہ معاشی، سیکورٹی اور افغانستان کے اندرونی حالات کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ ہمسایہ ممالک نے ایک اجتماعی حکمت عملی اپنائی ہے، اسی لیے خطے میں اقتصادی ترقی، راہداری اور سیاسی مسائل کو مل کر حل کیا جائے گا۔ یہ چھ ہمسایہ ممالک باہم منظم رہیں گے۔ اب وزرائے خارجہ کی ملاقات اگلے ماہ ایران میں ہوگی۔ یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ افغانستان میں ان چھ ممالک کے سفیر باقاعدگی سے ہم آہنگی کے ساتھ کام کریں گے۔ اگر یہ سفارت کاری کامیاب رہی تو خطے کے ممالک باہم دوستی کے روابط اور تجارتی تعلقات بھی مضبوط بنا لیں گے۔
اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید کی میزبانی میں آٹھ ممالک کے انٹیلی جنس سربراہان کی دو روزہ کانفرنس میں چین، روس، ایران، تاجکستان، ازبکستان اور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان نے شرکت کی۔ ان آٹھ ممالک میں شامل روس اور چین عالمی قوت، اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے مستقل رکن ہیں۔ ان کے پاس ویٹو کی طاقت ہے۔ ان سب کا ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانا تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔ ان آٹھ ممالک کو ایک مشترکہ پالیسی بنانے کے لیے دو اہم معاملات پر مشترکہ کام کرنے ہیں۔ پہلا یہ کہ تمام ممالک دہشت گردی میں ملوث گروہوں اور تنظیموں کی نشاندہی کریں، اور ایک دوسرے کے دہشت گردوں کو دہشت گرد اور اپنا دشمن بھی سمجھیں۔ دوسرا کام یہ ہے کہ ان تمام ممالک کو مختلف دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں خصوصاً جو افغانستان میں موجود ہیں، اپنا انٹیلی جنس مواد مشترکہ طور پر افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت تک پہنچانا ہوگا۔ یہ کام کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک کی تنظیم نے وزرائے خارجہ کے درمیان مستقل بات چیت کے نیٹ ورک قائم کرلیے ہیں۔ اس خطے کے تمام ممالک چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے تاریخی منصوبے اور اس سے جڑے پاکستان کے سی پیک کا بھی حصہ ہیں، یا آنے والے دنوں میں افغانستان بھی اس منصوبے میں شامل ہوسکتا ہے۔ دیکھنا ہے کہ یہ تبدیلی خطے کے ممالک اور افغانستان کے لیے کتنی مثبت ثابت ہوسکتی ہے۔