پورے پاکستان کی طرح کراچی میں بھی کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ہوئے۔ اور ان انتخابات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ شہر کراچی میں آئندہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور زیادہ مختلف ہوں گے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کراچی بدل رہا ہے، لوگوں کے ووٹ دینے کے رجحان میں تبدیلی آرہی ہے۔
کراچی پاکستان کا واحد شہر ہے جس میں کسی بھی شہر سے زیادہ یعنی 6 کنٹونمنٹس ہیں۔ ان چھ کنٹونمنٹس میں کراچی کینٹ، کلفٹن، ملیر کینٹ، فیصل کینٹ، کورنگی کینٹ اور منوڑہ کینٹ شامل ہیں، جن کی 42 نشستوں پر گزشتہ اتوار کو ہونے والے انتخابات میں مجموعی طور پر 356امیدواروں نے حصہ لیا۔ کراچی کنٹونمٹ بورڈ کے 6وارڈز میں ووٹرز کی تعداد 4لاکھ 57ہزار 139ہے۔ جیو کی خبر کے مطابق کراچی میں ووٹوں کے حساب سے جماعت اسلامی تیسرے نمبر پر ہے۔ مگر اس میں اہم بات یہ ہے کہ جماعت نے 42 میں سے 38 نشستوں پر حصہ لیا تھا۔ پہلے نمبر پر پیپلز پارٹی رہی جس نے40 نشستوں پر انتخاب میں حصہ لیا۔ تحریک انصاف جس نے 41نشستوں پر انتخاب لڑا دوسرے نمبر پر ہے۔ جماعت اسلامی 18 ہزار ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، جبکہ کراچی پر دو دہائیوں سے زائد دہشت گردی اور ریاست کی سرپرستی میں راج کرنے والی ایم کیو ایم 10 ہزار سے زیادہ ووٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ اور پی ایس پی صرف 1688 ووٹوں کے ساتھ آٹھویں نمبر پر ہے۔ جماعت اسلامی نے 4 نشستیں چھوڑ دیں، اس لحاظ سے اگر اوسطاً موازنہ کیا جائے تو جماعت کا اوسط ووٹ پہلی دونوں پارٹیوں کے تقریباً برابر ہے۔ جماعت اسلامی نے 5 نشستیں جیتی ہیں جبکہ 16 پر دوسرے نمبر پر رہی ہے۔ 4 سیٹوں پر مارجن 50 ووٹوں سے کم اور2 سیٹوں پر 125 ووٹوں سے کم کا ہے،جبکہ ایک سیٹ پر جماعت تیسرے نمبر پر ہےمگر ووٹوں کا فرق 50 سے کم کا ہے۔اس طرح گویا42 میں سے22 نشستوں پر جماعت کاوفاقی و صوبائی حکومتی پارٹیوں سے مقابلہ رہا ہے،جبکہ کئی سیٹوں پر تیسرے نمبر بھی رہی۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدواروں کی شاندار انتخابی پیش رفت پر اہلِ کراچی کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کراچی نہ صرف جاگ رہا ہے بلکہ اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے، اور آئندہ بلدیاتی انتخاب ہمارا ہوگا۔ کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی شاندار پیش رفت کے حوالے سے ادارہ نورحق میں جماعت اسلامی کے تحت اجتماع کارکنان کا خصوصی اہتمام کیا گیا جس سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا کہ ”میں انتخابات میں کامیاب ہونے والے تمام امیدواروں کو مبارک باد دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ ان کو مزید صلاحیت اور ہمت سے نوازے۔ راولپنڈی، نوشہرہ اور مردان میں بھی جماعت اسلامی کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے، عوام نے جماعت اسلامی کے امیدواران پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ اس پر ضرور پورا اتریں گے“۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پاکستان کی نظریاتی اور اقتصادی شہ رگ ہے، اسے ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت خون میں نہلایا گیا اور تباہ کیا گیا، جماعت اسلامی نے کراچی کے عوام اور کراچی کے حقوق کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے، قومی اسمبلی، سینیٹ، چوکوں اور چوراہوں پر کراچی کے حقوق کی جنگ لڑی ہے۔ کراچی دوبارہ جگمگائے گا اور ترقی و خوشحالی اس کا مقدر ہوگی۔ کراچی ترقی کرے گا تو ملک ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی تائید کے بعد کارکنان، تنظیم اور نظم و ضبط ہماری طاقت ہے۔ کارکنوں نے دن رات محنت، مشقت کی ہے، ہر دروازے پر دستک دی ہے، جماعت اسلامی کی دعوت پہنچائی ہے، عوام میں اس کو پذیرائی ملی ہے۔ اب ہمیں آئندہ کے مرحلوں کی تیاری کرنی ہے، بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینا ہے۔بلدیاتی اور عام انتخابات میں بھی جماعت اسلامی عوام کے لیے سب سے بہترین چوائس ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پر مسلط لوگ ملک کے جغرافیے اور نظریے کی حفاظت نہیں کرسکے، آج پورا ملک غربت اور مہنگائی کا شکار ہے، کروڑوں لوگ غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، عوام بجلی اور پانی سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم معاشی انصاف چاہتے ہیں۔ آج کراچی سمیت پورا ملک دلدل میں دھنسا ہوا ہے، چند خاندانوں نے عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے، کروڑوں بچے اگر تعلیم سے محروم ہیں تو یہ ان خاندانوں اور حکمران ٹولے ہی کی وجہ سے ہے۔ جماعت اسلامی نے ان تمام مافیاؤں کو چیلنج کیا ہے، ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ہم جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک انقلابی جماعت ہے، نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کی وارث ہے، اس ملک میں اللہ کے دین کو نافذ کرنا چاہتی ہے، ہم فرد اور معاشرے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ فرد تبدیل ہوگا تو معاشرہ تبدیل ہوگا اور حکومت بھی تبدیل ہوگی۔ ہم ایسی حکومت اور معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں اللہ کی بندگی ہو، بدی کا راستہ بند ہو، حرام بند ہو اور حلال کمانا آسان ہو۔ کرپشن اور بے حیائی کا خاتمہ ہو، جہاں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہ ہو۔
اس موقع پر امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے خطاب میں کہا کہ جماعت اسلامی کی ”حقوق کراچی تحریک“ کو عوام میں پذیرائی حاصل ہورہی ہے، کراچی اپنی اصل کی طرف لوٹ رہا ہے، عوام کے اعتماد اور کارکنوں کی محنت و قربانیوں کے باعث کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی انتخابی پیش رفت کا سفر ان شاء اللہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ بلدیاتی انتخابات میں بھی اہلِ کراچی جماعت اسلامی پر اعتماد کا اظہار کریں گے۔ پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے عوام مایوس ہورہے ہیں، کیونکہ تینوں حکمران پارٹیوں نے کراچی کے لیے عملاً کچھ نہیں کیا۔ تمام حکمران جماعتیں عوام کا اعتماد کھو چکی ہیں، بالخصوص ایم کیو ایم واش آؤٹ ہوگئی ہے، کراچی میں جماعت اسلامی ہی واحد متبادل جماعت ہے، جماعت اسلامی عوام کے اعتماد پر ماضی کی طرح آئندہ بھی پورا اُترے گی۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے مطالبہ کیا کہ سندھ حکومت فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کا اعلان کرے اور کراچی کے گمبھیر اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے بااختیار شہری حکومت کا قیام یقینی بنائے، جس کے لیے موجودہ بلدیاتی ایکٹ بھی ختم کیا جائے، کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے، مردم شماری دوبارہ کرائی جائے، این ایف سی کے مطابق اضلاع کو بھی پی ایف سی ایوارڈ دیا جائے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے خطاب میں کنٹونمنٹ بورڈ کے عوام کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے ترازو پر مہر لگا کر جماعت اسلامی کے امیدواروں کو کامیاب بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی حقوق کراچی تحریک تیزی سے جاری ہے، جماعت اسلامی وفاقی و صوبائی حکومتوں سے تین کروڑ سے زائد عوام کے جائز اور قانونی حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کے لیے اپنی آئینی و قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔ جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے ساتھ ہے، انہیں کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے، کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں جیتنے والے جماعت اسلامی کے نمائندے بلا تفریقِ رنگ و نسل عوام کی خدمت کریں گے، اور کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے، ماضی میں بھی جماعت اسلامی نے نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی کے دور میں کراچی میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ہیں، موجودہ منتخب امیدوار بھی کراچی کی تعمیر و ترقی میں مثالی کردار ادا کریں گے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی کا کہنا تھا کہ ماضی میں اور موجودہ تین سال کے دوران بھی وفاقی و صوبائی حکومتوں نے کراچی کو مسلسل نظرانداز کیے رکھا ہے۔ ایک سازش اور منصوبے کے تحت اہلِ کراچی کی حق تلفی کی جارہی ہے۔ کبھی کوٹہ سسٹم میں غیر معینہ مدت تک اضافہ کرکے، کبھی جعلی ڈومیسائل بنواکر نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں سے محروم کرکے، اور کبھی جعلی مردم شماری میں شہر کی آدھی آبادی غائب کرکے کراچی کو وسائل اور حقیقی نمائندگی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ جماعت اسلامی عوام کے ان حقوق کے لیے کسی صورت میں بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔
اس موقع پر الیکشن سیل کے انچارج راجا عارف سلطان نے انتخابی نتائج کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ اجتماع سے نائب امراء کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی، سیکریٹری کراچی منعم ظفر خان کے علاوہ کنٹونمنٹ بورڈ کے حلقوں سے تعلق رکھنے والے جماعت اسلامی کے امراء اضلاع سید شاہد ہاشمی، سید عبدالرشید، توفیق الدین صدیقی اور عبدالجمیل خان نے بھی خطاب کیا اور انتخابی جائزہ پیش کیا۔ اجتماع میں شہر بھر سے کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اجتماع میں کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں منتخب ہونے والے جماعت اسلامی کے نمائندوں کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن وارڈ 7 سے زکر محنتی، کنٹونمنٹ بورڈ ملیر وارڈ 9 سے احمد یاسر، کنٹونمنٹ بورڈ ملیر وارڈ 1 سے کرنل (ر) ملک محمد رضا، کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن وارڈ 5 سے محمد ریحان اقبال، کنٹونمنٹ بورڈ فیصل وارڈ 2 سے ابن الحسن ہاشمی نے بھی شرکت کی، جن کا بھرپور استقبال کیا گیا اور ہار پہنائے گئے۔
کراچی صنعتی، تجارتی، تعلیمی، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے، اور سندھ کی معیشت کا دار و مدار بھی اسی پر ہے۔ لیکن اس کا تاریخی طور پر کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ ٹیکس جائزے میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ کراچی سے 41فی صد ٹیکس وصول کیا گیا، جبکہ باقی ٹیکس پورے ملک سے وصول کیا گیا، لیکن اس کے باوجود کراچی کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں سے صرف چند فی صد حصہ دیا جاتا ہے۔ اس وقت کراچی کی حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے کراچی کے مفادات کے خلاف اتحاد کیا ہوا ہے، اور یہ حکمران جماعتیں عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے صرف پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہیں۔ کراچی کے ہر محلے، ہر گلی کے نکڑ اور چوراہے پر بارش کے بعد بری حالت ہے۔ جب زیادہ شور اٹھتا ہے تو لیپا پوتی کا عارضی کام کردیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اگر ہے بھی تو وہ مختلف عنوانات سے پیسے بٹورنے کے بڑے کام میں لگی ہوئی ہے، اور اب تو سندھ حکومت ٹیکس ’کے۔ الیکٹرک‘ کے ذریعے وصول کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جب کہ شہر کھنڈر کا منظر پیش کررہا ہے۔ کسی بھی علاقے کی اندرونی گلیوں میں اُبلتے گٹر اور کچرے کے ڈھیر جا بہ جا نظر آئیں گے۔ شہر کے لوگوں پر کئی طرح کے بڑے منظم ستم ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو ملازمتوں کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے، مقامی لوگوں کو گریڈ ون سے گریڈ پندرہ میں ملازمتیں نہیں مل رہیں، ان کے لیے ایک طرح سے ملازمتیں ناپید ہیں۔ جو ملتی بھی ہیں تو اس کے لیے بڑی رشوت دینی پڑتی ہے۔ اس قدر وسائل والے شہر میں بجلی، پانی، گیس جیسی بنیادی سہولتوں کا بھی فقدان ہے۔ اس وقت تمام بڑے شہری ادارے اپنی غفلت اور نااہلی کے باعث مسائل کے حل میں ناکام ہیں۔ یہاں کی قیمتی زمینوں پر مافیاز کا قبضہ ہے۔ چالیس سال پرانا ماس ٹرانزٹ کا مسئلہ ہو یا آب رسانی منصوبہ، گرین لائن بس پروجیکٹ ہو یا سرکلر ریلوے کی بحالی… کوئی اپنے انجام کو نہیں پہنچا۔ عروس البلاد کراچی کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اسے کوئی حکمراں سیاسی جماعت ’’اون‘‘ نہیں کرتی، بس وقتی مفادات کے تحت نعرے لگاتے اور شور مچاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اسے اون کرتی ہے۔ جب جب اسے کراچی کی خدمت کا موقع ملا تو اس نے میئر عبدالستار افغانی اور سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں یہ ثابت کیا کہ اس کے لوگ دیانت دار بھی ہیں اور باصلاحیت بھی۔ اور اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اقتدار میں نہیں ہوتی تب بھی جس قدر ممکن ہوتا ہے اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس کے قائدین اور کارکنان اپنا سب کچھ اس شہر کے لیے لگا دیتے ہیں، اور لگتا یہ ہے کہ شہر کراچی کے لوگ جماعت اسلامی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آئندہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کی کامیابی کے بڑے امکانا ت موجود ہیں۔