افغانستان سے نیٹو کی پسپائی ،یورپ کی الجھن

 یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں نہ تو کسی مشترکہ و متحدہ حکمتِ عملی کی حقیقی خواہش ہے، نہ سکت۔ اس لیے انہیں نیٹو کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے اعتماد اور اشتراکِ عمل کا ماحول بہتر بنانے پر متوجہ رہنا چاہیے۔ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ ایک عالمی معاشی اور جمہوری قوت ہوتے ہوئے کیا ہم ایک ایسی صورتِ حال سے پوری طرح مطمئن ہیں جس میں ہم اس قابل بھی نہیں کہ کسی اور بڑی قوت کی طرف سے ملنے والی مدد کے بغیر کسی ملک یا خطے میں پھنسے ہوئے اپنے شہریوں کو نکالنے کی سکت سکت رکھتے ہوں؟ اور خاص طور پر اُن لوگوں کا انخلاء یقینی بنانے کے معاملے میں جنہوں نے ہمارا ساتھ دیا ہو، ہمارے ساتھ مل کر کام کیا ہو۔ یہ سوال یورپی کونسل کے صدر چارلس مچل نے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو کچھ افغانستان کی صورتِ حال سے واضح ہوا ہے اُس کے بعد ہمیں یہ سمجھنے کے لیے کسی اور بڑے ایونٹ کی ضرورت نہیں کہ ہمیں اب فیصلہ سازی کے عمل میں زیادہ خودمختاری اور دنیا میں کہیں بھی اپنے طور پر فوری کارروائی کے قابل ہونے کی طرف سفر شروع کرنا چاہیے۔
جو کچھ یورپی کونسل کے صدر نے کہا ہے وہ یورپی یونین کی حدود میں ابھرنے والی نئی ذہنیت کا عکاس ہے۔ یورپی کمیشن کے نائب صدر جوزف بوریل نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کچھ ایسی ہی رائے پیش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال یورپ کے لوگوں کے لیے وی کال ہے۔ جوزف بوریل نے اپنے مضمون میں بتایا ہے کہ یورپ نے افغانستان کی فوج اور معیشت میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے، اس کے باوجود یورپی یونین آج بھی اپنے فیصلوں کے لیے امریکہ کی مرضی کی محتاج ہے۔ جوزف بوریل نے سلامتی کے حوالے سے یورپ کی ایک مشترکہ حکمتِ عملی اور یورپی فوج کی تشکیل کے امکان پر بات کی ہے تاکہ یورپ کی پالیسیوں اور سوچ میں پایا جانے والا خلاء دور کیا جاسکے۔
یورپی حکام خود مختاری کے حصول کی خواہش و کوشش کو امریکہ اور یورپ کے اتحاد اور اشتراکِ عمل میں اضافے کا ایک طریقہ قرار دے رہے ہیں مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ یورپی فوج کا تصور نیٹو کی شکل میں موجود امریکی و یورپی اتحاد کو مضبوط نہیں کرتا بلکہ اِس پر ضرب لگاتا ہے۔
امریکہ نے جس بھونڈے انداز سے افغانستان سے انخلاء مکمل کیا اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہنی کوفت اور اشتعال کی بنیاد پر یورپ میں یہ تصور تیزی سے پروان چڑھایا جارہا ہے کہ واشنگٹن پر انحصار میں نمایاں کمی آنی چاہیے۔
اگر مقصد واقعی یہ ہے کہ اشتراکِ عمل بڑھایا جائے اور امریکہ کے لیے اہم اتحادی کا درجہ حاصل کیا جائے تو پھر دفاعی اخراجات بڑھانے اور نیٹو کی حدود میں رہتے ہوئے یورپی اقوام کی عسکری سکت اور ذمہ داریوں میں اضافے کی بات ہونی چاہیے تھی۔ ساتھ ہی ساتھ نیٹو میں امریکہ کا عسکری بوجھ گھٹانے پر توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ اس وقت یورپ میں جو بحث چل رہی ہے اُس کے نتیجے میں معاہدۂ بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کمزور پڑے گی۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء نے ریاستی اور غیر ریاستی فورسز اور دیگر عوامل کو امریکہ پر انحصار کے حوالے سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ عسکری معاملات میں امریکہ پر مکمل انحصار سے گریز کے بارے میں یورپ میں بہت مدت سے سوچا جارہا ہے۔ یورپ چاہتا ہے کہ اپنے فیصلوں میں آزاد و خودمختار ہو، اور ہر معاملے میں اُسے امریکہ کی طرف نہ دیکھنا پڑے۔ فرانس کی طرف سے مشترکہ یورپی فوج قائم کرنے کی خواہش کا کئی بار اظہار کیا جاچکا ہے۔ اگر یورپ میں کوئی مشترکہ فوج تشکیل پاتی ہے تو زیادہ فائدہ فرانس کو پہنچے گا، کیونکہ امریکہ پر بہت زیادہ انحصار نہ کیے جانے کی صورت میں یورپ کی بیشتر ریاستیں فرانس پر زیادہ انحصار کریں گی اور وہ زیادہ نمایاں ہوکر ابھرے گا۔
فرانس نے زیادہ طاقت کے حصول کے حوالے سے یونان اور ترکی کے درمیان پائی جانے والی کشمکش کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ فرانس نے امریکہ پر مکمل انحصار ختم کرنے، مشترکہ یورپی فوج کے قیام، اور روس کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف مزاحمت کی بات کی ہے۔ اس کے نتیجے میں نیٹو کے حوالے سے فرانس کی کمٹمنٹ متاثر ہوئی ہے اور یہ سوچا جارہا ہے کہ کہیں فرانس ہی تو نیٹو کی صفوں میں باہر کی طاقت نہیں؟
یورپی یونین اور فرانس دونوں کی طرف سے بار بار کہی جانے والی بات میں دم نہیں، یعنی مشترکہ یورپی فوج کوئی ایسا تصور نہیں جسے آسانی سے اور مؤثر طور پر عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ یورپی اقوام کے درمیان مختلف معاملات میں غیر معمولی نوعیت کے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ یورپی یونین اپنے ارکان کے درمیان شدید اختلافات ختم کرانے میں کامیاب ہوجائے گی تب بھی مشترکہ یورپی فوج کے قیام کے لیے درکار وسائل ہیں نہ تجربہ۔ اور پھر عوامی حمایت کا معاملہ بھی تو ہے۔ براہِ راست کہیے تو بات یہ ہے کہ برطانیہ اور ترکی کے بغیر مشترکہ یورپی فوج کا تصور پریوں کی کہانی کے سوا کچھ نہیں۔
کسی مشترکہ فوج کے ساتھ سامنے آنے کے لیے بعض اہم معاملات میں انتہائی درجے کی اہلیت درکار ہوتی ہے۔ نیٹو اگر مؤثر طور پر کارروائیاں کرتی آئی ہے تو اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ دنیا بھر میں عسکری اخراجات کا 37 فیصد امریکہ کی طرف سے ہے۔ یورپی اقوام نیٹو کے اخراجات کا 2 فیصد دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ ایسے میں کسی مشترکہ یورپی فوج کا تصور بھی کیسے کیا جاسکتا ہے؟ دوسرے یہ کہ یورپی اقوام میں کسی وسیع تر مشترکہ فوج کو چلانے کی اہلیت نہیں۔ فرانس کے سوا یورپ کا کوئی بھی ملک اس وقت دنیا بھر میں جاری عسکری کارروائیوں میں قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کررہا۔
کسی فوج کی تشکیل کے لیے قیادت اور ہم آہنگی کے حوالے سے وسیع تر تجربہ درکار ہوتا ہے۔ یورپی اقوام اہم ترین سیاسی فیصلوں کے حوالے سے آپس میں لڑتی رہتی ہیں۔ ایسے میں وہ مشترکہ فوج جیسے بڑے ادارے کی قیادت کا فریضہ ڈھنگ سے انجام نہیں دے سکتیں۔ یورپی اقوام یہ سوچ سکتی ہیں کہ ان کی افواج کے درمیان بہت سے معاملات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے، مگر یہ بات یاد رہے کہ ایسا اس لیے ممکن ہو پایا ہے کہ نیٹو کی قیادت امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ نیٹو کا تنظیمی ڈھانچا بہت مضبوط ہے۔
آخر میں یہ نکتہ بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ یورپ میں رائے عامہ مشترکہ یورپی فوج جیسے کسی بھی ادارے کے حق میں نہیں۔ حال ہی میں کابل ایئر پورٹ پر جو حملہ ہوا تھا ایسا محض ایک حملہ یورپ میں حکومتوں کی تحلیل کے لیے کافی ہے۔
پورے یورپ میں حقیقی اعتبار سے تین ہی ریاستیں ہیں جن کے پاس اہلیت کی حامل فوج ہے۔ یہ تین ریاستیں ہیں: برطانیہ، فرانس اور ترکی۔ ان تینوں ممالک کی افواج میں قیادت بھی ہے اور ہم آہنگی بھی۔ یہ تینوں افواج بھرپور قوت کے ساتھ کارروائیاں کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ اور ان تینوں ممالک کے عوام اپنی فوج کی بھرپور حمایت بھی کرتے ہیں۔ نیٹو کی تیسری اور چوتھی بڑی فوج کے بغیر یورپ کی مشترکہ فوج کے قیام کا تصور بھی محال ہے۔ یورپ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کے لیے فوری طور پر متحرک ہونے والا کوئی خودمختار یونٹ تیار کرے۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ یورپ کی بیشتر اقوام کسی بھی ہنگامی حالت میں فوجیوں کی فوری نقل و حرکت کے لیے درکار وسائل نہیں رکھتیں۔ جرمنی جیسا ملک بھی فوجیوں کو فوری نوٹس پر کہیں تعینات کرنے کے لیے درکار ہیلی کاپٹرز اور طیاروں کا حامل نہیں۔
یورپی یونین اور فرانس مشترکہ یورپی فوج کے قیام کی بات کرکے اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں، کیونکہ جو کچھ وہ چاہتے ہیں وہ غیر حقیقت پسندانہ اہداف و مقاصد ہیں۔ بریگزٹ اور ترکی و یورپ کے درمیان یورپی یونین سے الحاق سے متعلق بات چیت کے روک دیئے جانے کے بعد یہ تصور بھی محال ہے کہ یہ دونوں ممالک کسی مشترکہ یورپی فوج کا حصہ ہوں گے۔ یورپی یونین بھی اُنہیں ساتھ لے کر چلنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں امریکی اقدامات سے نیٹو کی صفوں میں بہت سوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے، مگر پھر بھی یورپ کی خودمختاری حالات کی روشنی میں کوئی حقیقت پسندانہ بات نہیں۔ فرانس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی پوزیشن مضبوط کررہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ نیٹو کے کمزور پڑنے کی صورت میں یورپ کا عسکری قائد بن کر ابھرے اور یورپ کو فیصلہ سازی کے حوالے سے خودمختار بنائے۔ یورپی اقوام کو عسکری خودمختاری کے حوالے سے بحث و تمحیص میں وقت ضایع کرنے کے بجائے نیٹو کو زیادہ مضبوط بنانے کے حوالے سے سوچنا اور اشتراکِ عمل کا دائرہ وسیع تر کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔
حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینا اور اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کے بارے میں سوچنا بھی لازم ہے۔ ایک طرف تو یورپی یونین افغانستان سے امریکی انخلاء کے حوالے سے پریشان اور مشتعل ہے، اور دوسری طرف شام میں ترک مفادات کے لیے سب سے بڑے خطرے کا درجہ رکھنے والے باغیوں کے لیے امریکہ اور یورپی یونین کی امداد کے باوجود ترکی اب تک نیٹو سے بھرپور تعاون کررہا ہے۔

https://www.trtworld.com/opinion/a-european-military-and-defence-autonomy-are-pipe-dreams-49837
A ‘European military’ and defence autonomy are pipe dreams
By Omer Ozkizilcik