گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد طالبان کی حکومت، مغرب کیا سوچ رہاہے؟

مغربی میڈیا اور معاشرے کا جائزہ

11 ستمبر 2001ء کے حملوں کو ایک سال اور بیت گیا، لیکن اِس سال تقریبات کی اہم ترین بات یہ ہے کہ سابقہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریب میں شرکت کی اور امریکی حکومت کی افغانستان سے افواج واپس بلانے کی پالیسی پر شدید تنقید بھی کی۔ اس حوالے سے یہ تقریبات اس لیے بھی اہمیت کی حامل تھیں کہ جن حملوں کی بنیاد پر افغانستان میں فوج کشی کرکے لاکھوں لوگوں کا خون بہایا گیا اب اس سے ہی رجوع کرلیا گیا، اور بیس سال بعد دوبارہ وہی لوگ یعنی طالبان کہ جن کے خلاف مسلح لشکر کشی کی گئی تھی آج کابل میں برسرِاقتدار ہیں۔ اس بات کی اہمیت اس وجہ سے بھی دوچند ہوجاتی ہے کہ امریکہ نے براہِ راست طالبان سے مذاکرات کے بعد افواج کو واپس بلایا ہے، یعنی امریکہ نے خود اپنی شکست تسلیم کی۔ اس ضمن میں مغرب اور خاص طور پر برطانیہ میں گیارہ ستمبر کے حملے کی یاد میں منعقدہ تقریبات کو زیادہ اہمیت دی گئی۔ شاید اس کا مقصد ان حملوں کی یاد کو تازہ رکھنا اور دوسری جانب یہ بات عوام کو باور کروانا ہے کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ برطانوی میڈیا افغانستان میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد جس قسم کا پروپیگنڈہ کررہا ہے وہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی پالیسیوں پر برطانیہ کو شدید تحفظات ہیں۔ برطانوی ایوانِ اقتدار سے بھی فوج کی واپسی کے اس عمل کی مذمت کی گئی، لیکن ذرا دبے الفاظ میں لیکن میڈیا کی سطح پر طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے طالبان کو دہشت گرد اور دہشت گردوں کا ماسٹر مائنڈ بناکر دکھایا جارہا ہے۔ برطانوی میڈیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت بار بار طالبان کے افغانستان کے لیے Harboring Terrorist کی اصطلاح استعمال کررہا ہے، اور بار بار اس خدشے کا اظہار میڈیا کی سطح پر کیا جاتا رہا ہے کہ دنیا بھر کے دہشت گردوں کے لیے افغانستان ایک Safe Heaven یا عام فہم الفاظ میں مبینہ دہشت گردوں کی جنت ہوگا، کہ جہاں وہ دنیا بھر سے آکر جمع ہوں گے۔ گوکہ ان خیالات کا اظہار محض تجزیوں میں ہی کیا جاتا رہا، لیکن عوام کو یہ بات بار بار باور کروائی گئی کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال سے مغرب، دنیا اور برطانیہ کو کیا خطرہ ہے۔ گیارہ سمتبر کے دن کا آغاز بی بی سی ریڈیو فور پر کچھ اس طرح ہوا کہ صبح کے پروگرام میں ڈسکشن کا موضوع صلیبی جنگیں تھیں، جس میں سلطان صلاح الدین ایوبی، نورالدین زنگی اور برطانوی بادشاہ رچرڈ کا تذکرہ تفصیلاً کیا گیا کہ کس طرح جنگیں ہوئیں اور کیا کچھ ان صلیبی جنگوں میں ہوا، اور خاص طور پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے کردار کو زیربحث لایا گیا۔ گوکہ یہ تاریخ کا ایک حصہ ہے، لیکن اس خاص دن یعنی گیارہ ستمبر کو جبکہ امریکی صدر جارج بش نے اس جنگ کو ”کروسیڈ“ (صلیبی جنگ) کہا تھا، اسی دن صلیبی جنگوں کا تذکرہ باقاعدہ طور پر اس بات کا اظہار ہے کہ ان کے خیال میں بھی یہ صلیبی جنگ تھی۔ بی بی سی ریڈیو فور نے برطانوی سراغ رساں ادارے ایم آئی فائیو کے سربراہ کین میکلم کا انٹرویو کیا، جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ برطانیہ میں 9/11 جیسے حملے کا خطرہ موجود ہے، جس کو طالبان کے برسراقتدار آنے سے تقویت ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد افغانستان دوبارہ جہادی عناصر کے لیے ایک پناہ گاہ کا کام کرے گا اور برطانیہ میں 9/11 جیسے حملوں کا خطرہ موجود ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ 4 سال میں برطانیہ میں دہشت گردی کے 31 ممکنہ حملوں کو آخری وقت میں ناکام بنایا گیا۔
11 ستمبر کو پورا برطانوی میڈیا ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے غم میں ڈوبا نظر آیا۔ باضابطہ طور پر خصوصی پروگرام و نشریات، ایڈیشن و خبروں کی اشاعت کا اہتمام کیا گیا۔ عوامی سطح پر کیا سوچا جارہا ہے، اس کا اظہار گوکہ مغرب میں زیادہ تر سوشل میڈیا پر ہی ہوتا ہے… اگر کوئی فرد، افراد یا گروہ کوئی مظاہرہ کرے یا بینرز لگائے تو یہ بہت بڑی بات سمجھی جاتی ہے۔ 11 ستمبر کو برطانیہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر برمنگھم کی داخلی سڑک A38 پر کسی گروہ یا فرد کی طرف سے ایک ہاتھ سے لکھا بینر آویزاں کیا گیا جس پر تحریر تھا:
“9/11 We never Forget”
”گیارہ ستمبر، ہم کبھی نہیں بھولیں گے“۔
یہی سرخی ایک برطانوی اخبار نے بھی سجائی۔ یعنی اب عوامی سطح تک میڈیا کا بیانیہ نظر آرہا ہے۔ گوکہ مغرب اور خاص طور پر برطانیہ اس جنگ میں اپنا سرمایہ اور افرادی قوت جھونک کر بھی کچھ نتائج نہ حاصل کرپایا، لہٰذا بجائے اس کے کہ میڈیا اس سوال کو اٹھائے کہ ”جنگ سے حاصل کیا ہوا؟“ وہ اب بھی وہی پرانا راگ یعنی دہشت گردی کا ہی راگ الاپ رہا ہے۔ گوکہ برطانوی میڈیا میں دو طرف کا نقطہ نظر دیا جاتا ہے، لیکن پھر بھی اس میں توازن کی شدید کمی نظر آرہی ہے، خاص طور پر افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے برطانوی میڈیا میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ گوکہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی طویل جنگ اپنے اختتام کو پہنچی، لیکن میڈیا کی سطح پر جو کچھ ہورہا ہے اُس سے یہ بات واضح ہے کہ جنگ کا خاتمہ مغرب کی شکست پر ہوا ہے جس کو وہ تاحال قبول کرنے پر تیار نہیں، اور اب عوامی ذہن سازی کے ذریعے ایک نئی جنگ کی داغ بیل ڈالی جائے گی، اور مغرب میں رہنے بسنے والوں کے لیے آزمائشوں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔
دورِ حاضر کا یہ چیلنج پوری مغربی دنیا میں بسنے والوں کے لیے یکساں ہے۔ اب مسلمان اس سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں یہ ان کے فہم و فراست کا کٹھن امتحان ہے۔