اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغرب کی ایک ہزار سالہ جنگ صلیبی جنگوں سے امریکی ”وار آن ٹیرر“ تک

ایک ہزار سال کی مدت کم نہیں ہوتی۔ ایک ہزار سال میں زندگی بدل جاتی ہے، انسان تبدیل ہوجاتے ہیں، نظریات و خیالات میں انقلاب آجاتا ہے۔ مگر مغرب گزشتہ ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک ہی حال میں ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس عمل کی ابتدا 1095ء میں پوپ اربن دوئم کی اس تقریر سے ہوئی جس میں اُس نے کہا کہ اسلام ایک شیطانی مذہب ہے اور میرے قلب پر یہ بات القا کی گئی ہے کہ عیسائیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس شیطانی مذہب اور اس کے ماننے والوں کو فنا کردیں۔ پوپ اسلام کے خلاف صرف تقریر کرکے نہیں رہ گیا، اُس نے یورپی اقوام کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع اور متحد ہونے کی تلقین کی۔ پوپ کی تلقین بہت جلد رنگ لائی، چنانچہ 1099ء میں تمام یورپی اقوام ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوگئیں اور اُن صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو دوسو سال جاری رہیں۔ ان صلیبی جنگوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کا آغاز مغربی اقوام کی مرضی کے مطابق ہوا، اور مغربی اقوام نے جو چاہا، کیا۔ لیکن ان جنگوں کا اختتام مغرب کی خواہش کے برعکس مسلمانوں کی فتوحات پر ہوا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں سے نہ صرف یہ کہ بیت المقدس واپس لے لیا بلکہ وہ ان کو کھدیڑتا ہوا یورپ تک لے گیا۔ چنانچہ جو صلیبی جنگیں کبھی مغربی اقوام کے لیے ایک ’’امید‘‘ تھیں، وہ بالآخر ان کے لیے ایک ’’خوف‘‘ بن گئیں۔ صلیبی افواج نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی پہلی یلغار میں مسلمانوں پر اتنے ظلم کیے کہ ان کو یاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ صلیبیوں نے صرف بیت المقدس میں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا۔ مغربی مؤرخین نے لکھا ہے کہ صلیبیوں نے اس بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتلِ عام کیا کہ بیت المقدس کی گلیاں خون سے بھر گئیں اور ان میں گھوڑے چلانا دشوار ہوگیا۔ لیکن جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا تو مسلمانوں نے عیسائیوں کے ساتھ بہترین سلوک کیا۔ جب مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا اُس وقت بیت المقدس میں ایک لاکھ عیسائی موجود تھے۔ مسلمان چاہتے تو ماضی کا حساب برابر کرسکتے تھے، لیکن مسلمانوں نے معمولی سی رقم کے عوض عیسائیوں کو بیت المقدس سے جانے کی اجازت دے دی۔ بعض عیسائی اتنے غریب تھے کہ وہ اپنی رہائی کے لیے معمولی سی رقم بھی ادا نہ کرسکتے تھے، چنانچہ سلطان صلاح الدین اور اس کے عزیزوں نے اپنی جیبِ خاص سے ان عیسائیوں کی رقم ادا کی۔
عیسائیوں نے صرف اسلام کو شیطانی مذہب قرار نہیں دیا، بلکہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخی کی اور آپؐ کو نبی ماننے سے انکار کردیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ اسلام آسمانی مذہب نہیں ہے بلکہ معاذ اللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ توریت سے لیا اور کچھ انجیل سے لے لیا، اور ان کو ملا کر قرآن گھڑ لیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں عیسائیوں کی پوزیشن آج بھی یہ ہے کہ وہ آپؐ کو رسول نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد تاریخ کی عظیم شخصیت ہیں مگر نبی نہیں ہیں۔
مغربی اقوام نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دوسری یلغار نوآبادیاتی دور کی صورت میں کی۔ تمام یورپی اقوام اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالمِ اسلام پر قابض ہوگئیں۔ اس نوآبادیاتی یلغار کی پشت پر سفید فام آدمی کے بوجھ کا تصور موجود تھا۔ اس تصور کا مفہوم یہ تھا کہ دنیا میں مہذب تو صرف سفیدفام اقوام ہیں۔ باقی جتنی اقوام ہیں وہ غیرمہذب ہیں، چنانچہ سفید فاموں کا فرض ہے کہ وہ غیر مہذب اقوام کو مہذب بنائیں۔ ان کو مہذب بنانے کی ایک صورت یہ تھی کہ ان کو عیسائی بنایا جائے۔ ان کو مہذب بنانے کی دوسری صورت یہ تھی کہ انہیں مغرب کا مقلدِ محض بنایا جائے۔ چنانچہ مغربی اقوام نے مسلمانوں پر اپنا مذہب مسلط کیا۔ اپنے علوم و فنون مسلط کیے۔ اپنے قوانین ان پر ٹھونسے۔ اپنا عدالتی نظام ان کے ہاں رائج کیا۔ مغرب کے دانشور کپلنگ نے خیال ظاہر کیا کہ مشرق آدھا شیطان ہے اور آدھا بچہ ہے۔ وہ آدھا شیطان اس لیے ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہے۔ آدھا بچہ اس لیے ہے کہ وہ مغرب کی طرح عقل استعمال نہیں کرتا۔ وہ عقل پرست نہیں ہے بلکہ واہموں میں مبتلا ہے۔ مغرب کو مشرق سے اتنی نفرت ہے کہ مغرب کے ایک دانش ور نے کہا ہے کہ عربی اور فارسی کا سارا علم مغربی کتابوں کے ایک شیلف کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔
مغرب کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تیسری یلغار نائن الیون کے بعد سامنے آئی۔ مغرب کہنے کو تو نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے نکلا تھا، مگر درحقیقت اس کا ہدف اسلام، مسلم تہذیب اور مسلمان تھے۔ اس کا اندازہ نائن الیون کے بعد مغرب کے سیاسی رہنمائوں کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ امریکہ کے صدر جارج بش نے نائن الیون کے بعد امریکی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ’’کروسیڈ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کروسیڈ کا آغاز کردیا ہے۔ کروسیڈ کا ترجمہ صلیبی جنگ ہے۔ یعنی امریکہ کے صدر نے نائن الیون کے بعد مسلمانوں کے خلاف شروع ہونے والی مہم کو کروسیڈ یا صلیبی جنگ کا نام دیا۔ مسلم دنیا میں اس اصطلاح پر اعتراض ہوا تو کہہ دیا گیا کہ جارج بش کی زبان پھسل گئی۔ یہ ایک غلط بیانی تھی۔ جارج بش فی البدیہہ تقریر نہیں کررہے تھے، وہ لکھی ہوئی تقریر کررہے تھے، اور اسکرپٹ میں کروسیڈ کی اصطلاح موجود ہوگی تبھی انہوں نے اس اصطلاح کو استعمال کیا۔ جارج بش کے بعد اٹلی کے وزیراعظم سلویوبرلسکونی میدان میں اترے، انہوں نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے، اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شکست دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست سے دوچار کرے گی۔ مسلمانوں کا کوئی ترجمان ہوتا تو وہ اٹلی کے وزیراعظم سے پوچھتا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والوں کی زبان پر مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا موازنہ کیوں آگیا ہے؟ اور وہ مغربی تہذیب کے ہاتھوں اسلامی تہذیب کی شکست کیوں چاہتے ہیں؟ مگر چونکہ امتِ مسلمہ کا کوئی ترجمان ہی نہیں، اس لیے اٹلی کے وزیراعظم مغرب کے لوگوں کو جو پیغام دینا چاہتے تھے وہ دے دیا گیا۔ مگر اس کے بعد اس سے بھی اہم بیان سامنے آیا۔ امریکہ کے صدر جارج بش کے اٹارنی جنرل ایش کرافٹ نے واشنگٹن ڈی سی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عیسائیت کا خدا اسلام کے خدا سے برتر ہے، اس لیے کہ عیسائیت کا خدا ایسا خدا ہے جس نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنے بیٹے یعنی حضرت عیسیٰ کو پھانسی پہ چڑھا دیا۔ اس کے برعکس اسلام کا خدا اپنی عظمت کے اظہار کے لیے جہاد اور شہادت کی صورت میں مسلمانوں سے قربانی طلب کرتا ہے۔ مسلمانوں کا کوئی ترجمان ہوتا تو ایش کرافٹ کو یاد دلاتا کہ آپ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرنے نکلے ہیں، عیسائیت کے خدا کو اسلام کے خدا سے برتر ثابت کرنے کی ذمہ داری آپ کی نہیں ہے۔ مگر مسلمانوں کا کوئی ترجمان ہی نہیں، اس لیے ایش کرافٹ اہلِ مغرب تک جو پیغام پہنچانا چاہتے تھے وہ پہنچا دیا گیا، اور امتِ مسلمہ کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی۔ لیکن اس واقعے کے بعد اس سے بھی اہم بات ہوئی، یورپ میں ناٹو کی فورسز کے سابق کمانڈر جنرل کلارک نے بی بی سی ورلڈ کو انٹرویو دیتے ہوئے صاف کہا کہ ہم اسلام کو Define کرنے نکلے ہیں۔ طے یہ کرنا ہے کہ آیا اسلام ایک پُرامن مذہب ہے جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں، یا اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو تشدد پر اکساتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ مغرب نائن الیون کے بعد صرف بیانات تک محدود نہ رہا۔ اُس نے افغانستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا، عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اس نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر پابندی لگوا دی۔ شام میں بشارالاسد کو اس لیے گرنے نہیں دیا کہ اُس کے گرنے سے بنیاد پرست اقتدار میں آجاتے۔ اس نے مصر میں صدر مرسی کی حکومت کا دھڑن تختہ کرا دیا۔ لیبیا میں انتشار برپا کردیا۔ سوڈان میں حسن ترابی کا محاصرہ کرلیا اور بالآخر جنرل بشیر کو جیل میں پہنچا کر دم لیا۔ اس نے تیونس میں راشد الغنوشی کو ریاست اور مذہب کو الگ کرنے پر آمادہ کرلیا۔ اس نے الجزائر میں اسلامی فرنٹ کی انتخابی فتح کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور الجزائر کی بدمعاش فوج کے ذریعے وہاں خانہ جنگی کرا دی۔ اس نے فلسطین میں اسرائیل اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو مسلمانوں پر جبر میں اضافے پر اکسایا۔ سوال یہ ہے کہ آخر مغرب کو اسلام اور امتِ مسلمہ اتنی ناپسند کیوں ہے؟
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام عیسائیت سے تقریباً 600 سال بعد منظر پر طلوع ہوا، مگر اس نے دیکھتے ہی دیکھتے آدھی سے زیادہ دنیا کو فتح کرلیا۔ اسلام کی پیش قدمی اتنی برق رفتار ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ مغرب کے لیے اسلام کی یہ پیش قدمی ناقابلِ قبول ہے اور وہ اس حوالے سے اسلام سے حسد محسوس کرتا ہے۔
20 ویں صدی کے آغاز میں مغربی دانش ور کہا کرتے تھے کہ اسلام بلاشبہ بڑا مذہب ہے مگر وہ دنیا کو جو کچھ دے سکتا تھا، دے چکا، اب اس کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مغربی دانش ور خیال ظاہر کرتے تھے کہ اسلام اب کوئی انقلابی قوت نہیں ہے اور اس کا احیاء ناممکن ہے۔ مگر 20 ویں صدی کے بڑے بڑے واقعات نے اہلِ مغرب کی دانش وری کا پول کھول دیا۔ برصغیر میں اسلام کے نام پر پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں آگئی۔ اقبالؒ، مولانا مودودیؒ اور حسن البناءؒ کی فکر نے پوری مسلم دنیا میں بیداری کی لہر برپا کردی، ایران میں دو ہزار سال پرانی بادشاہت کا تختہ الٹ گیا اور وہاں مذہب کی بنیاد پر انقلاب برپا ہوگیا۔ اس انقلاب کے بارے میں مغرب کے دانش وروں نے فرمایا کہ اسلام ڈنڈے کے زور پر اقتدار میں آیا ہے، وہ جمہوری طریقے سے معرکہ سر نہیں کرسکتا۔ مگر الجزائر، مصر، ترکی، فلسطین اور تیونس میں اسلامی تحریکوں نے ووٹ کی طاقت سے برج الٹ کر دکھا دیے۔ جہاد کا ادارہ عرصے سے غیرمتحرک تھا اور عام خیال یہ تھا کہ جہاد کا زمانہ گزر چکا ہے، مگر افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کے خلاف جہاد کا ادارہ اس طرح متحرک ہوا جیسے وہ کبھی غیر متحرک ہوا ہی نہیں تھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جہاد اور شوقِ شہادت کی برکت سے افغانستان میں وقت کی دو سپرپاورز کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دو سپرپاورز کو مسلمانوں نے حضرت عمرؓ کے بہترین زمانے میں گرایا تھا، یا اب انہوں نے اپنے بدترین زمانے میں دو سپرپاورز کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان آج بھی اسلام کو اوڑھنا بچھونا بنائیں تو معجزات رونما ہوسکتے ہیں۔ مغرب کے سامنے یہ تجربہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے پاس سیاسی طاقت ہے نہ عسکری طاقت ہے، نہ ان کے پاس سائنس ہے، نہ ٹیکنالوجی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے پاس اخلاق اور کردار کی دولت بھی نہیں ہے، مگر اس کے باوجود اسلام مغرب میں لاکھوں مقامی باشندوں کو مسلمان بنا چکا ہے۔ مغرب ان تمام حقائق کو دیکھتا ہے تو وہ اسلام اور مسلمانوں سے خوف محسوس کرتا ہے، اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی جدوجہد کو اور تیز کردیتا ہے۔