جماعت اسلامی کی حیران کن کارکردگی

عمران خان اور اُن کے حامی اپنی تمام تر کوشش کے باوجود نون لیگ کو پنجاب میں توڑ نہیں سکے۔ نون لیگ نے پنڈی میں بہت اچھی کارکردگی دکھا کر بونس پوائنٹ حاصل کیا، تاہم اپنے مضبوط ترین مستقر گوجرانوالہ میں نون لیگ کو بہت نقصان ہوا، کھاریاں میں ایسی بری شکست کی انہیں توقع بھی نہیں ہوگی۔ نون لیگ نے کراچی میں نشستیں لے کر سر اٹھایا ہے، مگر مجموعی طور پر یہ پنجاب کی جماعت بنتی جارہی ہے۔ کے پی کے اور سندھ میں اسے بہت محنت کرنا ہوگی۔ پیپلزپارٹی کے لیے یہ الیکشن سخت مایوس کن ثابت ہوئے۔ بلاول بھٹو پنجاب کے دورے کرتے رہے، انہیں امید ہوگی کہ شاید کوئی بات بن جائے گی۔ انہوں نے جنوبی پنجاب میں خاصی محنت کی، مگر نتائج صفر نکلے۔ ثابت ہوا کہ نئے بیانیے کے بغیر صرف گھسی پٹی تقریروں اور بھٹو کی نقل میں مصنوعی جذباتی تقریروں سے عوام موم نہیں ہوتے۔ پیپلزپارٹی صرف سندھ کی جماعت بنتی جارہی ہے۔ اگلے عام انتخابات سے پہلے انہیں قومی سطح پر تاثر جمانے کے لیے بہت محنت کرنا ہوگی۔ جے یو آئی کے لیے یہ الیکشن بہت ہی برا رہا۔ وہ بلوچستان سے بھی ہار گئی اور خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع بنوں وغیرہ سے بھی۔ یوں لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم کے ساتھ اپنی جماعت کی کشش بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ ان کے پچیس امیدوار شکست کھا گئے، کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اے این پی نے اس الیکشن میں محنت کی اور پشاور میں مناسب کارکردگی دکھائی۔ بلدیاتی انتخابات میں دیکھنا ہوگا کہ اے این پی کہاں کھڑی ہے؟ کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن میں سب سے زیادہ حیران جماعت اسلامی نے کیا۔ طویل عرصے بعد اس نے کراچی میں بہت اچھا پرفارم کیا۔ جماعت نے کراچی سے پانچ نشستیں جیتیں، چکلالہ پنڈی سے دو سیٹیں جیتیں، جبکہ مردان اور نوشہرہ سے بھی ایک ایک نشست جیت لی۔ چکلالہ میں اچھی کارکردگی دکھانا ایک نیا عنصر رہا۔ کراچی میں جماعت تیسرے نمبر پر رہی اور اس کے ووٹوں کی شرح بہت اچھی ہے۔ جماعت اسلامی نے کراچی میں ایم کیو ایم، نون لیگ اور مصطفیٰ کمال کی پی ایس پی کے مجموعی ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ لیے۔ کراچی جماعت کے امیر حافظ نعیم کی جارحانہ عوامی سیاست رنگ لائی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ جماعت اسلامی بعض نشستوں پر تھوڑے مارجن سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہی۔ اندازہ ہورہا ہے کہ کچھ مزید محنت کی جائے تو جماعت اسلامی کراچی میں اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔ جماعت کے کارکنوں کو اس الیکشن سے خاصا حوصلہ ملا ہوگا۔
(عامر خاکوانی۔ روزنامہ 92۔ 14ستمبر2021ء)