صدائے بازگشت

کتاب
:
صدائے بازگشت
مرتب
:
جمیل اطہر قاضی
ضخامت
:
260 صفحات
قیمت
:
1200 روپے
ناشر
:
بک ہوم بک اسٹریٹ
46 مزنگ روڈ، لاہور
فون
:
042-37231518
برقی پتا
:
lookromepublishers@gmail.com\

محترم و مکرم جمیل اطہر قاضی صاحب کا شمار میدانِ صحافت میں بلاشبہ استاذ الاساتذہ میں ہوتا ہے۔ ان سے قلم پکڑنا سیکھ کر صحافت کے میدانِ کارزار میں قدم رکھنے والے بہت سے اخبار نویس آج کل صحافت کے استاد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کا طویل عرصہ شعبۂ صحافت میں بسر کیا، اور بقول خود اخبار فروش سے مالک مدیر تک کا سفر طے کیا، اور مدیران و مالکان کی ٹریڈ یونین سمیت صحافت کے کم و بیش تمام شعبوں میں متحرک اور فعال کردار ادا کرتے رہے، اور ’جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے‘ کے مصداق ہر شعبۂ صحافت پر اپنے نمایاں اور مثبت نقوش مرتب کیے۔ تاہم اس طویل عرصے میں انہوں نے کبھی تصنیف و تالیف کی جانب توجہ نہیں کی، چنانچہ زیر نظر کتاب ’’صدائے بازگشت‘‘ کے حروفِ تشکر میں رقم طراز ہیں کہ:
’’میں تصنیف و تالیف کے میدان کا آدمی نہیں ہوں، میری ساری زندگی دشت ِ صحافت کی سیاحی میں گزری ہے، یہ تو جناب مجیب الرحمٰن شامی اور جناب ریاض احمد چودھری کا اصرار غالب رہا کہ میں اپنی یادداشتیں سپردِ قلم کروں۔‘‘
تاہم احباب کے اصرار پر ہی سہی، تصنیف و تالیف کی جانب متوجہ ہوئے ہیں تو نہایت مختصر عرصے میں ان کی چار کتب زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ زیر نظر ’’صدائے بازگشت‘‘ سے قبل ’’بازگشت‘‘ شائع ہوئی تو راقم الحروف نے انہی سطور میں اپنی رائے دیتے ہوئے عرض کیا تھا کہ:
’’یہ شاید ایک منفرد مثال ہے کہ ایک کتاب شائع ہوئی اور پھر اس کتاب کے بارے میں اہلِ علم و فکر اور صاحبانِ قرطاس و قلم کی آراء اور تبصروں پر مشتمل ایک نئی کتاب مرتب ہوکر زیورِ طباعت سے آراستہ ہوگئی۔ قبل ازیں ایسی مثالیں تو موجود ہیں کہ کسی کتاب کے بارے میں آراء پر مبنی چند ورقہ شائع ہوا ہو، مگر اس قسم کی تین سوا تین سو صفحات کی مکمل، بھرپور اور مفید کتاب کی اشاعت کی کوئی مثال کم از کم راقم الحروف کی یادداشت میں کہیں محفوظ نہیں۔‘‘
اسے سونے پہ سہاگہ کہا جائے یا کوئی اور نام دیا جائے کہ محترم جمیل اطہر قاضی نے شاید اپنے ایک ہمدمِ دیرینہ جناب ممتاز عارف کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے، جنہوں نے ’’بازگشت‘‘ پر اپنے تبصرے کا اختتام اس امید پر کیا تھا کہ: ’’مجھے یہ بھی امید ہے کہ علمی، ادبی اور صحافتی حلقے’’بازگشت‘‘ کے بعد ’’صدائے بازگشت‘‘ کے بھی منتظر ہوں گے۔‘‘ چنانچہ جناب ممتاز عارف کی امید بر آئی ہے اور ’’صدائے بازگشت‘‘ شائقین کے ہاتھوں میں ہے۔ کتاب کا انتساب محترم مجیب الرحمٰن شامی کے نام ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’اقلیم صحافت کے تاجدار جناب مجیب الرحمٰن شامی کے نام جنہوں نے ’’دیارِمجددؒ سے داتاؒ نگر تک‘‘ اپنے ماہانہ جریدے ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ میں قسط وار شائع کرکے اپنے خلوص و التفات کا بھرپور اظہار کیا۔‘‘
’’صدائے بازگشت‘‘ میں محترم جمیل اطہر قاضی کی تصانیف ’’دیارِ مجدد سے داتا نگر تک‘‘ اور ’’باز گشت‘‘ پر پانچ درجن سے زائد اہلِ قلم، کالم نگاروں، صحافیوں اور ادیبوں کے مختلف اخبارات و جرائد میں شائع شدہ تبصرے، اور ایک درجن سے زائد علمی و ادبی اور سیاسی و مذہبی شخصیات کی خطوط و مکاتیب کی صورت میں ارسال کردہ آراء شامل ہیں۔ کتاب کے مرتب نے تبصرہ کرنے اور آراء بھیجنے والے اپنے احباب کی عزت افزائی کا اہتمام اس طرح کیا ہے کہ ان میں سے اکثریت کے چند سطری، مختصر مگر جامع باتصویر تعارف نہایت اعلیٰ گلیز پیپر پر کتاب کے آغاز میں شامل کردیئے ہیں، تاہم معلوم نہیں کس طرح بعض احباب کے تعارف کے آخری حروف شائع ہونے سے رہ گئے ہیں۔ یہ یقیناً ایک سہو ہے جس کا ازالہ اگر ممکن ہوسکے تو کتاب کی آئندہ اشاعت میں ضرور کردیا جانا چاہیے۔
کتاب مضبوط جلد اور خوبصورت رنگین گرد پوش کے ساتھ اعلیٰ کاغذ اور عمدہ طباعت کا مرقع ہے۔ سرورق پر مصنف کی پہلی دو کتب جن پر تبصرے ’’صدائے بازگشت‘‘ میں شامل ہیں، کے سرورق بھی شائع کیے گئے ہیں۔ ’’صدائے بازگشت‘‘ کے مطالعے سے ’’دیارِ مجدد سے داتا نگر تک‘‘ اور ’’بازگشت‘‘ کے مطالعے کی طلب میں شدت سے اضافہ ہوتا ہے، اور جن قارئین نے پہلے یہ کتب نہیں پڑھیں وہ اپنے ذوقِ مطالعہ میں تشنگی محسوس کرتے ہیں۔ محترم جمیل اطہر قاضی نے اس کتاب کی ترتیب واشاعت کے ذریعے کتابوں کی اشاعت کے شعبے سے وابستہ لوگوں کو ایک نئی راہ دکھائی ہے، جس سے نوآموز قلم کار اور ناشرین یقیناً رہنمائی حاصل کریں گے۔