پندرہ سو قیدیوں کو ایک ایسے چھپر میں ٹھونس دیا گیا تھا، جو غالباً دوسو افراد کی گنجائش کے لیے بنایا گیا تھا۔ ہمیں بہت سردی لگ رہی تھی، ہم بے حد بھوکے تھے، اور یہاں اتنی جگہ بھی نہ تھی کہ پاؤں پسار کر بیٹھ ہی سکتے۔ کمر سیدھی کرنے کا توسوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ چار روز کے دوران ہماری واحد خوراک پانچ اونس روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔
ہم ابھی اسی ادھیڑ بُن میں تھے کہ نہ جانے کیا ہورہا ہے، کہ چند آوازیں سینئر قیدیوں کی جانب سے سنائی دیں۔ ہیروں سے جڑے ایک ٹائی پن پرکسی قیدی سے سودے بازی چل رہی تھی۔ یہ بیش قیمت ٹائی پن فقط چند شراب کی بوتلوں کے عوض تھا۔ یہاں اس قسم کا لین دین عموماً شراب کے بدلے ہی ہوا کرتا تھا، اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ ان حالات میں قیدیوں کی سب سے بڑی متاع مدہوشی (بے خودی) ہی تھی۔ اس صورتِ حال میںکون ان غریبوں کو نشئی ہونے کا طعنہ دے سکتا تھا؟
جبکہ سینئر قیدیوں کے لیے شراب بے حساب منگوائی جاتی تھی۔ یہ لوگ گیس چیمبر اور بھٹیوں پر مامور تھے، اور جانتے تھے کہ ایک دن اُن کی جگہ نئے لوگ آجائیں گے، اور خود وہ بھٹیوں کی نذر کردیے جائیں گے، اور جلاد کا وہ کردار جو اب تک وہ نبھا رہے تھے، جل کر راکھ ہوجائے گا۔
ہمارے ساتھ کیمپ پہنچنے والا تقریباً ہر شخص اس فریب میں مبتلا تھا کہ کسی طرح بچ نکلے گا اور سب کچھ پھر پہلے جیسا ہوجائے گا۔ ہم اُس منظرکے معنی محسوس ہی نہ کرپائے تھے جو حال کے بعد ابھرنے والا تھا۔ ہم سے سامان ریل میں ہی چھوڑ دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ سب کو دو قطاروں میں کھڑا کردیا گیا تھا، ایک قطار مردوں کی، دوسری عورتوں کی تھی۔ ایک سینئر ایس ایس آفیسر ہمارا معائنہ کرنے لگا۔ حیرت انگیز طور پر نہ جانے مجھ میں کہاں سے اتنی جرأت پیدا ہوئی کہ ایک چھوٹا بیگ اپنے کوٹ کے اندر چھپا لیا۔ ایس ایس آفیسر میری قطار کے قریب سے گزرا، ایک ایک آدمی کا بغور معائنہ کیا، مجھے خیال گزرا کہ اگر اس کی نظر بیگ پر پڑ گئی توکیا ہوگا؟ مار مار کر دھول ضرور چٹا دے گا! اس کا تجربہ مجھے پہلے سے تھا۔ میں تن کر کھڑا ہوگیا، اس طرح کہ وہ میرے کوٹ میں ابھارکو محسوس نہ کرسکے۔ ہمارا آمنا سامنا ہوا۔ وہ ایک لمبا چست آدمی تھا، بے داغ وردی پہنے ہوئے تھا۔ کیا ہی زبردست فرق تھا! ایک جانب ہم طویل سفر کی تھکن سے چُور، بدحال اور گندے ہورہے تھے، جبکہ وہ کسی قدر پُرسکون اور تازہ دم تھا۔ اُس نے سیدھے ہاتھ کی کہنی کو الٹے ہاتھ سے سہارا دے رکھا تھا، سیدھا ہاتھ اٹھا ہوا تھا۔ وہ انگوٹھے کی برابر والی انگلی سے دھیرے دھیرے دائیں بائیں اشارے کررہا تھا، یہ اشارے بائیں جانب زیادہ گئے۔ ہم میں سے کسی کے سان گمان میں نہ تھا کہ انگلی کی اس خفیف سی جنبش کا مطلب کیا تھا!
اب میری باری تھی۔ کسی نے کان میں سرگوشی کی کہ دائیں کا مطلب کام پر بھیجا جانا ہے، اور بائیں کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کا نہیں، اسے (اسپیشل کیمپ) بھیج دیا جائے۔ میں اپنی باری پر اشارے کا منتظر تھا، خود کو حالات کے سپرد کرچکا تھا، اور اب آگے ایسے کئی مراحل سے واسطہ پڑنا تھا (کہ جب زندگی اور موت کے درمیان بس ایک جنبش حائل رہی)۔ میرے چھوٹے سے بیگ نے مجھے بڑی حد تک بائیں جانب جھکادیا تھا مگر میں پھر بھی چاق چوبند نظر آنے کی پوری کوشش کررہا تھا۔ میں نے اُسے(آفیسرکو) سیدھا چل کر بھی دکھایا۔ اُس نے ایک اچٹتی نگاہ مجھ پر ڈالی، ذرا توقف کیا، اور پھراپنے دونوں ہاتھ میرے کاندھوں پر رکھ دیے، پھر آہستگی سے چھوڑ دیے اور دائیں جانب اشارہ کردیا۔ یوں مجھے دائیں بازو والوں میں شامل کرلیا گیا۔
اُنگلی کے اس جان لیوا اشارے کا خوفناک کھیل مجھ پر اُسی شام منکشف ہوا۔ یہ اشارہ ہمارے وجود پر اثبات یا انکار کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کا نتیجہ ہمارے ساتھ سفر کرنے والے 90 فیصد لوگوں کی فوری موت کی صورت میں نکلا۔ یہ سب اگلے چند گھنٹوں میں فنا کردیے گئے تھے۔ یہ بائیں بازو والے تھے جنہیں اسٹیشن سے سیدھا بھٹیوں میں پہنچا دیا گیا تھا۔ ان بھٹیوں کے باہر چار دروازے تھے، جن پر مختلف یورپی زبانوں میں ’’غسل خانہ‘‘ لکھا ہوا تھا، سب کے ہاتھوں میں ایک ایک صابن کی ٹکیہ تھمادی گئی، اور اُس کے بعد دروازہ کھول کر اندر دھکیل دیا گیا۔ اس انسانیت سوز صورت حال پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔
ہم بچے کھچے لوگ، جوبچ گئے تھے، شام تک سچائی جان چکے تھے۔ میں نے چند قیدیوں سے جاننا چاہا کہ وہ لوگ جو ہمارے ہم سفر تھے، کہاں بھیجے گئے ہیں؟
’’کیا انہیں بائیں جانب بھیجا گیا ہے…؟‘‘ ایک نے پوچھا۔
’’ہاں‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’تب تم اُسے وہاں دیکھ سکتے ہو‘‘، یہ کہہ کر اُس نے چند سو قدم کے فاصلے پر اسپیشل کیمپ کی چمنی کی طرف اشارہ کردیا، جہاں سے دھوئیں کی سیاہ لکیر پولینڈ کی فضا میں بلند ہورہی تھی، اور دھوئیں کے منحوس بادل کا حصہ بن رہی تھی۔
’’وہ رہا تمہارا دوست، جنت کی جانب محوِ سفرہے‘‘، اُس نے مزید کہا۔
مگر میں اب بھی بات پوری طرح سمجھ نہیں پایا تھا، پھر سادہ الفاظ میں مجھے ساراسچ بتادیا گیا۔
میں یہاں ہر واقعے کی آمد پر، اُس کے نفسیاتی تناظر اور اثرات پر اپنا نکتہ نظر پیش کرتا چلا جاؤں گا۔ اسٹیشن کی اُس صبح سے کیمپ میں پہلی رات تک کا سفر نفسیاتی طور پر بے حد طویل اور تھکادینے والا تھا۔ ہتھیاروں سے لیس ایس ایس گارڈز کی نگرانی میں ہمیں اسٹیشن سے دوڑایا گیا، بجلی کے خاردار تاروں سے اُس طرف پہنچایا گیا۔ ہم کیمپ کے پاس سے گزرے، صفائی ستھرائی کے مقام تک لے جائے گئے۔ ہم لوگوں کو… جنہیں پہلے انتخاب میں پاس کردیا گیا تھا… نہانے دھونے کا پہلا حقیقی موقع دیا گیا۔ ہم پھر ایک بار ’’شاید بچ جائیں!‘‘ کی خوش فہمی میں مبتلا ہوچکے تھے۔ ایس ایس نگراں بڑے خوش خلق معلوم ہورہے تھے۔ جلد ہی ہمیں اس خوش اخلاقی کی وجہ معلوم ہوگئی۔ اُن کی نظریں ہماری گھڑیوں پر تھیں، وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ اُن کی کلائیوں تک منتقل ہوجائیں۔ (باقی صفحہ41پر)
اب جب کہ ہم سب کچھ لٹا آئے تھے، اس ایک گھڑی کا وقت بھی شاید پورا ہوچکا تھا۔ پھر یہ امید بھی ہوچلی کہ شاید گھڑی ہتھیانے والا نگراں کبھی کسی کام ہی آجائے۔
ہم پھر ایک چھپر میں انتظار کررہے تھے۔ یہاں ایک دالان تھا، جو ڈس انفیکٹنگ چیمبر تک جارہا تھا۔ ایس ایس گارڈز نے ہمارے سامنے لحاف بچھادیے کہ اپنی اپنی گھڑیاں اوردیگربچی کھچی اشیاء اُن پر ڈال دی جائیں۔ ہمارے درمیان اب بھی کچھ ایسے سادہ لوح موجود تھے، جو چاہتے تھے کہ اُن کی شادی یا منگنی کی انگوٹھی چھوڑدی جائے۔ اب تک کوئی اس حقیقت کو پوری طرح بھانپ نہیں سکا تھا کہ اب کچھ نہیں بچے گا!
اس دوران میں نے ایک پرانے قیدی کو اعتماد میں لینے کی کوشش کرتے ہوئے بڑی لجاجت سے کہا کہ میرے پاس کوٹ کی داخلی جیب میں ایک سائنسی کتاب کا مسودہ ہے، میں اسے کسی قیمت پر ان (ایس ایس گارڈز) کے حوالے نہیں کرنا چاہتا، یہ میری زندگی بھر کی محنت ہے!
وہ میری بات سُنتا رہا، پھر اُس کے چہرے پرایک مسکراہٹ پھیلی، پہلے ترحم آمیز، پھر تمسخر آمیز،اور پھر ذلت آمیز! اُس نے میرے سب سوالوں کے جواب میں ایک لفظ جیسے دے مارا ہو! ایک ایسا لفظ، جو کیمپ کے قیدیوں کی لغت میں نمایاں رہا: “Shit!” … بکواس!
یہ وہ لمحہ تھا، جب میں نے سادہ سی سچائی کا سامنا کیا، اور یہ یہاں میرے نفسیاتی ردعمل کا پہلا نکتۂ ابال تھا! میں نے چشم زدن میں اپنی گزشتہ زندگی کو اپنے وجود سے اکھاڑ پھینکا!
(جاری ہے)