سرمایہ دار دنیا کا بھلا نہیں چاہتے

دنیا بھر کے سرمایہ داروں کے لیے کورونا وائرس کی وبا ایک ایسے بہانے کے طور پر وارد ہوئی ہے جسے بروئے لاکر وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اور بہت سی معیشتیں انتہائی درجے کی گراوٹ کا شکار ہوچکی ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج ہر طرف پھیلی ہوئی معاشی گراوٹ کی اصل ذمہ داری سرمایہ داروں کی ذہنیت پر عائد ہوتی ہے، نہ کہ کورونا یا کسی اور وبا پر۔ دنیا بھر میں معیشتوں کا زوال کورونا وائرس کی وبا کے آنے سے بہت پہلے ہی شروع ہوچکا تھا۔ اس وبا نے تو سرمایہ دارانہ نظام کے لیے آڑ یا ڈھال کا کام کیا ہے۔ اپنی خرابیوں اور خامیوں کا جائزہ لینے اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اصلاحِ احوال کے لیے کچھ کرنے کے مقابلے میں کورونا یا کسی اور صورتِ کو موردِ الزام ٹھیراتے ہوئے جان چُھڑانا بہت آسان ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کی معیشتوں میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرنے کی خاطر معیشتی نظام کو درست کرنے پر توجہ دی جائے۔ مگر جو کچھ ہورہا ہے وہ اِس کے برعکس ہے۔ کورونا وائرس کے مختلف ویریئنٹس تو آتے ہی جارہے ہیں، تو کیا ہر معاملے میں صرف کورونا وائرس کو موردِ الزام ٹھیراتے ہوئے اطمینان کی چادر اوڑھی جاتی رہے گی! حقیقت یہ ہے کہ سنگین نوعیت کی معیشتی خرابیاں موجود ہیں اور پنپ رہی ہیں۔ ان خرابیوں کو دور کرنے پر جس قدر توجہ دی جانی چاہیے اُس سے کہیں کم توجہ بھی نہیں دی جارہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معیشتی خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ چند برس بعد صورتِ حال مزید خراب ہوجائے گی۔
اس حقیقت سے تو عام آدمی بھی اچھی طرح باخبر ہے کہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں، بحران آتے رہتے ہیں۔ تیزی پیدا کرنے کے مصنوعی طریقے بہت سی خرابیوں کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ کبھی اچانک کساد بازاری آجاتی ہے، یعنی ساری کی ساری تیزی غائب ہوجاتی ہے، سرمائے کی گردش رک سی جاتی ہے، لوگ جیب ڈھیلی کرتے ہوئے گھبرانے، کترانے لگتے ہیں۔ ایسے میں معاشی استحکام محض خواب ہوکر رہ جاتا ہے، اور معاشی ہی نہیں، معاشرتی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ یہ معاشرتی خرابیاں بالآخر معاشی سرگرمیوں پر بھی اثرانداز ہوکر رہتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام اِس دنیا کے لیے اب ایک فرسودہ طریقِ کار ہے جس کے تحت استحکام، سلامتی، ہم آہنگی، امن اور خوش حالی کا خواب کسی طور شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے کسی بھی معاشی نظام میں یہ ممکن ہی نہیں کہ معیشت کے تمام شعبے پورے توازن کے ساتھ ترقی کریں اور اُن کے درمیان اس قدر ہم آہنگی ہو کہ معاشرے کا ہر طبقہ اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق جی سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں چند ایک شعبے بُری طرح پس کر رہ جاتے ہیں۔ مضبوط شعبے اُن کا اس قدر استحصال کرتے ہیں کہ ہمہ گیر اور مجموعی خوش حالی کا تصور محض خواب ہوکر رہ جاتا ہے۔
بہت بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار ممکن بنانے کا مطلب یہ ہے کہ پیداوار اور صَرف میں ہم آہنگی اور توازن نہیں۔ اس کے نتیجے میں پورا معاشرہ متوازن انداز سے خوش حالی یقینی نہیں بنا سکتا۔ ایسا کوئی میکینزم پنپنے ہی نہیں دیا جاتا جس کے نتیجے میں پورا معاشرہ متوازن طور پر ترقی کرے اور خوش حالی یقینی بنائے۔ سرمایہ دارانہ نظام اوّل و آخر اس بات کا نام ہے کہ جس دِیے میں زیادہ جان ہو وہ جلتا رہے، اور باقی سب بُجھ جائیں یا بُجھادیئے جائیں۔ یہی سبب ہے کہ جدید دور کے سیاسی نظریات کی روشنی میں سوچی جانے والی قومی تعمیرِ نو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت ممکن ہی نہیں۔
یہ سوچنا سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں کہ سرمائے کو بنیاد بناکر سوچنے والے سیاست دان اور پالیسی ساز تمام مسائل کو حل کرسکتے ہیں یا حل کرلیں گے۔ کئی عشروں سے بہت سے انتہائی پیچیدہ مسائل حل نہیں کیے جاسکے۔ انہیں حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی تو پھر کامیابی یا ناکامی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے! آئے دن میڈیا میں یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ ملک کے لیے اندرونی اور بیرونی معاشی مسائل کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ سب کچھ عشروں سے جاری ہے اور پتا نہیں کب تک جاری رہے گا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بے روزگاری، ضرورت سے کم ملازمتیں، قرضے، افلاس اور عدم مساوات عام ہیں۔ پس ماندہ ممالک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ ادارے دیوالیہ ہورہے ہیں۔ بعض کیسز میں تو پورے کے پورے ملک دیوالیہ قرار پاتے ہیں۔ افراطِ زر کے ہاتھوں ڈھنگ سے جینا محال ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر بے روزگاری بھی پھیلتی ہے۔
یہ سب کچھ ہورہا ہے، جبکہ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں کروڑوں افراد کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگوا چکے ہیں۔ ویکسینز سے معیشتی استحکام پیدا نہیں ہوا ہے کیونکہ ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ کورونا کی وبا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن کے باوجود معیشتیں عدم توازن اور عدم استحکام کا شکار ہیں، اور ان میں کئی طرح کا بگاڑ موجود ہے۔ انتہائی مالدار ممالک اور ادارے اور ان کے سیاست دان یا میڈیا کے نمائندے مل کر بھی موجودہ بحران کو ختم کرنے کی کوئی سبیل نکال نہیں پارہے۔ موجودہ بحران کو ایک طرف ہٹائیے، حقیقت یہ ہے کہ 2008ء کے عالمگیر معاشی بحران کے شدید منفی اثرات کا سامنا کرنے کی سکت بھی پیدا نہیں کی جاسکی، اور اس سے پہلے آنے والے بحرانوں کے منفی اثرات سے بچنے کا بھی کوئی میکینزم تیار نہیں کیا جاسکا تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے کرتا دھرتا ایسی پالیسیاں وضع کرتے ہیں جن سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے ہیں۔ لالچ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، اور اس کے نتیجے میں معیشتیں داؤ پر لگتی رہتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اصل مالک تصور کیے جانے والے ممالک اور ادارے مل کر ایسے حالات پیدا کرتے رہتے ہیں جن کے نتیجے میں صرف خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور پنپتی رہتی ہیں۔ اِس وقت یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا وائرس نے ساری خرابیاں پیدا کی ہیں، اور یہ کہ اس وبا پر قابو پانے کی صورت میں سبھی کچھ درست ہوجائے گا۔ اگر روئے ارض پر موجود ہر انسان کو گیارہ بار بھی کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگادی جائے تب بھی معاشی اور معاشرتی انحطاط برقرار رہے گا۔ اب تک تو یہی ہوا ہے کہ کسی بھی سطح پر کی جانے والی مالیاتی امداد سے معیشتوں کو فروغ دینا ممکن نہیں ہوسکا۔ کسی بھی مالیاتی یا زری پالیسی سے کسی بھی معیشت کو تمام افراد کے لیے کارگر نہیں بنایا جاسکا ہے۔ معیشتیں بحرانوں کی زد میں رہتی ہیں۔ مسائل پنپتے رہتے ہیں۔ مالدار مزید مالدار ہوتے جاتے ہیں، اور باقی سب لوگ اس شدید احساس کے ساتھ جینے پر مجبور ہیں کہ سب کچھ ڈوبتا جارہا ہے۔ جو کچھ ہونے والا ہے یا ہوسکتا ہے اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر لوگ پریشان رہتے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ افراطِ زر کا ہے۔ خوراک، توانائی، مکانات، گاڑیاں اور دیگر بہت سی اشیاء مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔ عام آدمی کے لیے ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنا بھی انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ مہنگائی بڑھتی جاتی ہے اور اجرتیں وہیں کی وہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی ہے، ذرا بھی آگے نہیں بڑھ پارہی، اور معاملات الجھتے ہی جارہے ہیں۔ شکست و ریخت سے دوچار معیشتی ڈھانچے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام کے مساوی خطرناک بات اور بھی ہے، وہ بات یہ ہے کہ سرمایہ دار اور اُن کے ہاتھوں میں کھیلنے والی ریاستیں مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں نہ خواہش۔ یہ صورتِ حال معاشرے کے بڑے طبقات کے معاملات کو مزید پیچیدہ بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دار جو کچھ کررہے ہیں اُس کے نتیجے میں وہ خود بھی الجھنوں کا شکار ہیں، کیونکہ اُن کی پالیسیاں کسی اور کو تو کیا الجھائیں گی، خود اُنہیں بھی دھوکا دے رہی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ جو کچھ کیا جارہا ہے وہ تنگ نظری پر مبنی ہے۔ صرف لالچ کو اہمیت دی جارہی ہے۔ سب کچھ سوچے سمجھے انداز سے ہورہا ہے اور اَنا کو دیگر تمام معاملات پر ترجیح دی جارہی ہے۔ اَنا سے مراد ہے ذاتی یا گروہی مفاد۔ پورے معاشرے کے مفاد کو ثانوی حیثیت بھی حاصل نہیں۔ اس خرابی کے نتیجے میں مزید خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ معاشروں میں بڑے پیمانے پر المیے جنم لے رہے ہیں۔ معاشی سرگرمیوں کے کمزور پڑنے سے معاشرتی خرابیاں بھی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانیت یہ انتشار، یہ طوائف الملوکی اور تشدد مزید برداشت نہیں کرسکتی۔
معیشتوں کو لاحق خطرات اور صحتِ عامہ کے حوالے سے ابھر کر سامنے آنے والی مشکلات دور کرنے کے حوالے سے سب سے اہم یعنی کلیدی کردار خود عوام کو ادا کرنا ہے۔ انہیں طے کرنا ہے کہ معاشرے کے بیشتر امور اب کس طور چلائے جانے چاہئیں۔ طاقت اب اُن کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جن کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے اور جو روشن مستقبل کی خاطر اچھی خاصی سرمایہ کاری کر بھی چکے ہیں۔ جو لوگ معاشرے میں دولت کی پیدائش کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں فیصلوں کا اختیار بھی اُنہی کے پاس ہونا چاہیے۔ اب لازمی ہوگیا ہے کہ دولت کی پیدائش میں کلیدی کردار ادا کرنے والے، معاشرے اور ریاست کو چلائیں۔
اب لازم ہوچکا ہے کہ انتہائی مالدار کو مزید مالدار بنانے والے تمام منصوبوں کی راہ مسدود کردی جائے۔ اس کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپس کی روک تھام لازم ہے۔ بیشتر سرمایہ کاری معاشرتی نوعیت کے منصوبوں میں کی جانی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کسی بھی سرمایہ کاری سے حتمی تجزیے میں عوام کو کیا ملتا ہے؟ مالدار طبقے اور اُن کے حاشیہ برداروں بالخصوص سیاسی جماعتوں نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ اُن میں مسائل کو حل کرنے کی اہلیت ہے نہ خواہش۔ اُن سے کسی بھی ایسے اقدام کی توقع نہیں کی جاسکتی جس کے نتیجے میں معاشرے کا کچھ بھلا ہوتا ہو، عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کی راہ ملتی ہو۔ جب معاملات بہت خراب ہوجاتے ہیں تب عارضی نوعیت کا علاج لے کر سامنے آیا جاتا ہے۔ چند چھوٹے موٹے اقدامات کے ذریعے معاملات کو درست کرنے کا تاثر دیا جاتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے معاشرے کا کچھ خاص بھلا ہوتا نہیں۔ سرمایہ داروں سے یہ توقع وابستہ کی ہی نہیں جاسکتی کہ وہ حقیقی بہبودِ عامہ کی خاطر کچھ کرنے کا عزم لے کر سامنے آئیں گے اور اپنے لالچ کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے معاشرے کی عمومی فلاح کے لیے کچھ کریں گے۔
…٭…٭…٭…
(ڈاکٹر شاگی ٹیل ’’چارٹر اسکول رپورٹ کارڈ‘‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ وہ چارٹر اسکولز، نیو لبرل تعلیمی پالیسی، نجکاری اور سیاست و معیشت کے حوالے سے تحقیق سے وابستہ ہیں۔ ان سے stell5@naz.edu پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔