سردار عطاء اللہ مینگل ایک لحاظ سے بلوچستان کی سیاست کے نشیب و فراز کا ایک تاریخی باب ہیں۔ بلوچستان کی تاریخ ان کے بغیر نامکمل رہے گی۔ آج بلوچ نوجوانوں میں جو سیاسی شعور اور جدوجہد کا جذبہ نظر آرہا ہے اس میں سردار مینگل کے کردار کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے! نواب خیر بخش مری اور نواب بگٹی اس جدوجہد کے پس منظر میں ہمیشہ موجود رہیں گے۔ ایک موقع پر بلوچ نوجوانوں سے ملاقات کا موقع ملا اور گفتگو ہوئی تو وہ سردار مینگل کے خلاف بول رہے تھے اور انہیں اپنے راستے میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ آج آپ جس کے خلاف بول رہے ہیں اُس نے تو اپنی جوانی اور زندگی کے یادگار لمحات بلوچوں کے حقوق کی جدوجہد میں گزارے ہیں۔ وہ جیل گئے ہیں، مشکلات برداشت کی ہیں۔ سردار مینگل اگر سرکار کی گود میں بیٹھتے تو آج جو آپ سیاسی شعور اور آزادی کی بات کررہے ہیں یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر بلوچ سردار اور بلوچ زعماء یہ جدوجہد نہ کرتے۔ بلوچ قوم ان سرداروں کے زیر احسان رہے گی۔ نواب بگٹی، نواب مری، سردار مینگل کو تاریخ فراموش نہ کرسکے گی۔ آج حکمرانوں کی زیادتیوں نے بلوچوں کو جس مرحلے پر پہنچا دیا ہے وہاں تقسیم بڑی واضح نظر آرہی ہے۔ اب بلوچ سیاست پارلیمانی سیاست اور مسلح سیاست میں تقسیم ہوگئی ہے۔ سردار مینگل کی سوچ ابھی اس طرف نہیں گئی جس طرف بعض نوجوان چلے گئے ہیں۔ سردار مینگل نے اس حوالے سے کھل کر اپنا مؤقف ہمارے سامنے رکھا اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا کہ میں لکھ دیتا ہوں کہ اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ جب ہماری ملاقات نواب خیر بخش مری سے ہوئی تو میرے ہمراہ مختار حسن (مرحوم) اور عبدالماجد فوز (مرحوم) تھے، اور وہ اس وقت جیل سے رہا ہوکر کوئٹہ آئے تھے جب ضیاء الحق نے بھٹو کا تختہ الٹ دیا تھا اور حیدرآباد ٹریبونل توڑ دیا تھا۔ نواب خیر بخش مری سیاسی گفتگو بڑی پیچیدہ اور فلسفیانہ انداز میں کرتے اور سننے والا بعض دفعہ الجھن میں پڑ جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب ہم بھٹو کے خلاف جدوجہد کررہے تھے تو ہمیں ایک ملک نے پیشکش کی کہ ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں، لیکن ہم نے اُن کی اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ نواب مری نے کہا کہ اگر ہم اُس حکومت کی بدولت آزادی حاصل کرتے تو اس کے غلام ہوجاتے اور ہمارے گلے میں اُس کی زنجیر ہوتی۔
کچھ اسی سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار سردار مینگل نے کیا اور کہا کہ ہم تو افغانستان اور ایران کے ہمسایہ میں ہیں تو کیا ہم اپنی آزادی کو برقرار رکھ سکیں گے؟ لیکن سردار مینگل نے کہا کہ کون کافر ہوگا جو آزادی کو پسند نہ کرے! لیکن خدشات بھی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وزیراعظم مجھ سے ملے تو جن لوگوں نے اس ملاقات کا پروگرام بنایا تھا انہیں اس ملاقات کے بعد بڑی مایوسی ہوئی ہوگی، میں نے وزیراعظم سے کہا کہ آپ غلط وقت پر آئے ہیں، میرے پاس کیا ہے جو میں آپ کو دے سکتا ہوں! سردار مینگل نے ہمیں بتایا کہ ہمیں معلوم ہے یہ لوگ بے اختیار ہیں، اور جن کے پاس اختیارات ہیں وہ ہم سے بات کرنا پسند نہیں کرتے تو مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ حکمران تو ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے، وہ ہمیں برابری کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، آپ دیکھیں کہ وہ ہمارے ساتھ کیسا سلوک کرتے رہے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں فوجی آپریشن ہوا، اُس کے بعد سے آج تک ہم اس کی زد میں ہیں۔ سردار مینگل نے ہنستے ہوئے بتایا کہ میرے سیاست میں آنے کا سبب ایک دلچسپ واقعہ بنا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ آپ لوگ بیلہ سے وڈھ تک گئے ہیں، آج یہ ایک پختہ سڑک ہے، اور جب میں سردار بنا تھا اُس وقت یہ سڑک نہ تھی، میں نے اپنے لوگوں کی مدد سے یہ سڑک بنائی اور اس پر بجری ڈالی، اور یہ گاڑیوں کے چلنے کے قابل ہوگئی، ورنہ ہم اونٹوں پر سفر کرتے تھے۔ پھر دلچسپ واقعہ سنایا جس نے نوجوان قبائلی سردارکو سیاست کے تلخ میدانِ کارزار میں دھکیل دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم کچھ افسروں کے ساتھ سفر کررہے تھے، چونکہ راستہ کچھ دشوار تھا اور اُن کی گاڑی ہم سے آگے جارہی تھی، ہم اپنی گاڑی اس خیال سے اُن کے آگے لے گئے کہ وہ غلط راستے پر نہ نکل جائیں، لیکن وہ میرے پیچھے نہیں آئے بلکہ غلط راستے پرنکل گئے، بعد میں میرے پیچھے آئے۔ جب واپس لوٹا تو کمشنر قلات کو دعوت دی، اور وہ آفیسر بھی موجود تھا۔ جب ہم سب کھانے کی میز کی طرف جانے لگے تو کمشنر نے کہا کہ وہ آفیسر آپ سے ناراض ہے، اگر آپ اس کو کھانے کا کہیں گے تو اس کی ناراضی دور ہوجائے گی۔ میں نے کمشنر سے کہا کہ میں نے تو آپ کی دعوت کی ہے، وہ اگر کھانے پرنہیں آئے گا تو میری طرف سے جہنم میں جائے، میں اس کو کھانے کا نہیں کہوں گا۔ بعد میں اس نے کھانا کھا لیا۔ مجھے اُس وقت احساس ہوا کہ یہ ہمیں اپنے برابر نہیں سمجھتے بلکہ کمتر سمجھتے ہیں، اور فیصلہ کرلیا کہ اپنی قوم میں شعور بیدار کروں گا اور حقوق کی جدوجہد کروں گا۔ یوں میں سرداری سے سیاست کی طرف آگیا، اور آج میں 80سال کا ہونے والا ہوں۔ یہ واقعہ سنانے کے بعد خوب ہنسے، لیکن چہرے پر غصے کے آثار بھی تھے۔
اس واقعے نے تلخ یادوں کو تازہ کردیا تھا۔ میں نے سردار مینگل سے گزارش کی کہ آپ پنجاب کا دورہ کریں اور جو کچھ بلوچستان میں ہورہا ہے انہیں بتائیں، آج پنجاب آپ کو سننا چاہتا ہے۔ سردار مینگل نے کہا کہ اب میری عمر 80 سال ہوگئی ہے، مجھ میں حوصلہ نہیں ہے کہ اس عمر میں دورہ کروں، مجھے معلوم ہے کہ اب پنجاب میں فوج کے خلاف لوگ بولتے ہیں اور سنتے ہیں، اس کا اندازہ مجھے شہبازشریف سے ملاقات کے بعد ہوا۔
سردار مینگل سے یہ گفتگو اتنی دلچسپ اور فکر انگیز تھی کہ چائے پینے کے سوا کوئی اور چیز کھانے کا خیال ہی نہیں آیا۔ تمام میزوں پر جو لوازمات تھے وہ ویسے ہی پڑےرہ گئے۔ بعد میں اپنے دوستوں سے کہا کہ یار ہم لوگوں نے سردار مینگل کو نقصان نہیں پہنچایا، سب کچھ ویسا ہی موجود رہ گیا۔پھر انہیں تفہیم القرآن کی جلدوں کا سیٹ تحفے کے طور پر دیا، وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ جب جیل میں تھا تو جماعت اسلامی نے تفہیم دی تھی۔ پھر ہم سب نے اُن کے ساتھ فوٹو سیشن کیا (باقی صفحہ41پر)
اور سردار مینگل سے کہا کہ آپ پنجاب کا دورہ کریں تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہاکہ یہ شادیزئی کہیں مجھے مروا نہ دے۔ ہم سب دوبارہ بیٹھ گئے۔ عبدالمتین اخونزادہ نے انہیں پیشکش کی کہ وہ دورہ کریں۔ انہوں نے شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد ہم نے اجازت لی تو سردار عطاء اللہ مینگل ہمیں رخصت کرنے اپنے مہمان خانے سے باہر آئے، سب نے اُن سے ہاتھ ملایا۔ ہمیں رخصت کرکے وہ پھر مہمان خانے کی طرف چلے گئے۔ ان سے مل کر خوشی بھی ہوئی اور کچھ اداسی کی سی کیفیت بھی تھی۔ انہیں 40 سال پہلے دیکھا، اور اب دوبارہ دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے اپنی بھرپور سیاست کا دور مکمل کرلیا ہے۔ انہیں اس کا ملال ضرور ہوگا کہ بلوچ عوام وہاں نہیں پہنچ سکے جہاں ایک خوبصورت بلوچستان وجود میں آجاتا اور بلوچ قوم ایک تابناک اور خوشحال مستقبل کی دہلیز پر کھڑی ہوتی۔ سردار مینگل کے خوبصورت خواب دھند میں کھو گئے ہیں۔
وڈھ میں ان کی رہائش گاہ سے کچھ فاصلے پر ایک خوبصورت جامع مسجد پر نظر پڑی تو محمد اسلم گزکی نے بتایا کہ یہ سردار مینگل نے تعمیر کرائی ہے۔ بس دور سے ہی اسے دیکھا۔ پھر ہم وڈھ پریس کلب پہنچے۔ پتا چلا کہ یہ بھی سردار مینگل نے عطیہ کیا ہے۔۔ وڈھ ہی میں دوپہر کا کھانا کھایا اور روانہ ہو گئے۔