افغانستان کا مستقبل اور نئی جنگ کے خدشات

افعانستان پاکستان سمیت پورے خطے کی سیاست کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک کو افغانستان کی پیچیدہ، مشکل اور سنگین صورت حال پر تشویش ہے۔ اوّل خیال یہ تھا کہ طالبان جب کابل پر سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو اس کے نتیجے میں ایک بڑا خون خرابہ دیکھنے کو ملے گا، مگر یہ خیال درست ثابت نہیں ہوا، اور طالبان بغیر کسی تشدد یا خون خرابے کے، اپنی بالادستی قائم کرچکے ہیں۔ دوسرا خیال تھا کہ طالبان کی سیاسی برتری کے بعد فوری طور پر ایک مخلوط عبوری حکومت جس میں سب فریق شامل ہوں گے جلد از جلد منظرعام آکر حالات کو کنٹرول کرے گی، مگر ابھی تک عبوری نظام کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی اور مشاورت کا عمل جاری ہے۔ تیسرا تجزیہ یہ سننے کو ملا کہ طالبان حالات پر کنٹرول کرلیں گے اور معاملات افہام وتفہیم کے ساتھ پُرامن انداز میں آگے بڑھیں گے، مگر اب لگتا ہے کہ حالات کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
حالیہ کچھ دنوں میں افغانستان میں بم دھماکوں اور پُرتشدد کارروائیوں کے مناظر دیکھنے کو ملے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں آرہی ہیں کہ افغانستان کے تناظر میں کوئی داخلی یا خارجی گروہ ہے جو جان بوجھ کر حالات کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ یعنی افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا، طالبان کو ناکام بنانا اور یہ تاثر عام کرنا کہ طالبان کے لیے حالات کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ افغانستان میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ امریکہ بھی داعش کی جانب سے افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا پہلے ہی خدشہ اظہار کرچکا ہے، اور اب بہت سے لوگ داعش کو افغانستان کے تناظر میں نئے خطرے کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔
داخلی محاذ پر ایک لڑائی پنجشیر میں افغان طالبان اور احمد شاہ مسعود کے قبیلے کے درمیان دیکھنے کو ملی تھی، لیکن اب وہاں طالبان نے اپنی سیاسی برتری قائم کرلی ہے اور اپنے مخالفین کے لیے عام معافی کا بھی اعلان کردیا ہے۔ اس وقت طالبان کو اپنی سیاسی برتری قائم کرنے کے لیے سب فریقوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے، اور داخلی قوتوں کے ساتھ اعتماد سازی یا بہتر تعلقات سے ہی وہ خارجی محاذ پر مقابلہ کرنے کے لیے بہتر حکمت عملی تشکیل دے سکیں گے۔ طالبان نے حکومت سازی کے تناظر میں اچھا فیصلہ یہ کیا ہے کہ دیگر گروہوں کے ساتھ ساتھ تمام قبائلی راہنمائوں اور طالبان کمانڈروں کو شامل کیا جائے گا۔ لیکن اس میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ حکومت سازی اور معاملات کو سیاسی لچک اور افہام وتفہیم سے حل کرنے کی جو کوششیں طالبان نے اب تک کی ہیں وہ ان کے ماضی کے کردار سے واقعی مختلف ہیں۔ اس تناظر میں واقعی افغان طالبان کو ایک بڑی عالمی حمایت کی ضرورت ہے۔ اس جانب پہلا قدم افغان طالبان کی حکومت کو قبول کرنا ہوگا۔
افغان طالبان نے برملا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان سمیت کسی بھی ملک میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ یہ واقعی اطمینان کا پہلو ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ افغان طالبان کی حکومت کس حد تک ان معاملات میں عملی طور پر سنجیدگی دکھاتی ہے، اور جو لوگ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں ان کو کیسے روکا جائے گا۔ ایک مسئلہ بھارت کا بھی ہے کہ وہ افغانستان میں کیا کرنا چاہتا ہے، اور آنے والے عرصے میں اس کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ آیا وہ افغانستان کو مستحکم دیکھنا چاہے گا یا غیر مستحکم؟کیونکہ اس وقت افغانستان میں طالبان کی سیاسی برتری اور افغان حکومت کی پسپائی پر پورے بھارت میں سوگ کا منظر ہے ۔ ایسی صورت میں پاکستان کسی بھی طرح بھارت کے کردار کو نظرانداز نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ بات بہت سے لوگ لکھ رہے ہیں کہ بھارت معاملات کو درست کرنے کے بجائے بگاڑ پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں اہم ذمہ داری عالمی قوتوں بالخصوص امریکہ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ چار دہائیوں پر مشتمل جنگ کی تباہ کاریوں سے تباہ شدہ افغانستان کو کسی نئی جنگ سے دوچار کرنے کے بجائے اسے استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔ جو قوتیں افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں، عالمی برادری کو بغیر کسی اگر مگر کے اُن کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔ اگر امریکہ داعش کے مقابلے کے لیے ڈرون حملے کی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتا ہے تو اُسے طالبان کی قیادت کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا ہوگا، وگرنہ دونوں میں عدم اعتماد کا ماحول مزید کشیدگی پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
ایک مسئلہ جو فوری طور پر درپیش ہوگا وہ گورننس کا نظام ہے، اور ضرورت اس امر کی ہے کہ بالخصوص خوراک اور ادویہ کے حوالے سے افغان حکومت اور عوام کی مد دکی جائے، تاکہ کوئی بڑا انسانی المیہ جنم نہ لے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں خوراک کے بحران کے خدشات ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ طالبان نے بھارت اور امریکہ سمیت دیگر تمام ممالک کو دوٹوک پیغام دیا ہے کہ ہم سب سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں اور اسی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے بقول ہم طالبان کے الفاظ سے زیادہ عمل پرکڑی نگرانی رکھیں گے، اور اگر ان کا عمل دنیا کی توقعات کے مطابق ہوا تو طالبان اپنے لیے مغربی دنیا میں نرم گوشہ پیدا کرسکیں گے۔ لیکن بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ تاثر نمایاں ہے کہ افغانستان کو آنے والے عرصے میں جن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اُس کے دوررس اثرات ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ حساسیت افغانستان کے معاملات پر رکھتا ہے، اور اس کے بقول اس کی اپنی داخلی سلامتی اور استحکام افغانستان کی صورت حال سے جڑا ہوا ہے، اس لیے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض افعانستان کا داخلی معاملہ ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ افغانستان کے معاملات کا براہِ راست تعلق خطے کی مجموعی صورتِ حال سے جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سفارتی محاذ پر زیادہ سرگرم اور فعال نظر آتی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ بات بھی امید افزا ہے کہ بقول احمد مسعود: ’’اگر افغان طالبان نے جامع حکومت بنالی تو ہم بھی اپنی مزاحمت ختم کردیں گے‘‘۔ امریکی صدر نے (باقی صفحہ 41پر)
بھی انخلا کے بعد اپنے قومی خطاب میں یقین دلایا ہے کہ افغانستان کے عوام سے ڈپلومیسی، امداد و تعلقات کی مدد سے تعاون کا عمل جاری رکھیں گے۔ لیکن ایک بڑا چیلنج عالمی برادری کی طرف سے مالی امداد کا بھی ہے، اور اگر اس پر کسی قسم کی پابندیاں عائد ہوتی ہیں تو افغانستان کا داخلی بحران سنگین ہوجائے گا۔
بہرحال افغان طالبان اور دیگر سیاسی گروہوں کا سب سے بڑا امتحان افغانستان کا داخلی بحران ہے، کیا وہ داخلی اختلافات پر قابو پاکر سیاسی استحکام کو یقینی بنا پاتے ہیں؟ آئی ایس آئی کے سربراہ کے دورۂ کابل کی اہمیت بھی اسی تناظر میں ہے۔تاکہ افغانستان میں جو بھی پیش رفت ہورہی ہے اس میں اُن تمام خدشات کو دور کیا جائے جو افغانستان اور اس خطے کے مستقبل کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں۔کیونکہ جو لوگ افغانستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں اُن سے نمٹنے میں طالبان حکومت کی پالیسی، حکمت عملی اور عمل درآمد کا نظام ہی فیصلہ کرے گا کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہوگا؟