قومی سلامتی کے ادارے کے سربراہ گزشتہ دنوں کابل گئے۔ دہلی میں اس دورے کا بہت شور بلکہ ہاہا کار مچی ہوئی ہے، سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جب افغانستان کی نئی حکومت بنی نہیں تو اُن کے جانے کا اصل مقصد کیا تھا؟ بھارت کو خاص طور پر چائے کی پیالی کی تصویر سے تکلیف ہوئی، یہ تصویرکابل سرینا ہوٹل میں لی گئی جہاں طالبان کے کنٹرول کے بعد حالات کی کوریج کے لیے آئے صحافی موجود تھے، وہاں اُنہوں نے چلتے چلتے ایک دو سوالوں کے جواب بھی دیے۔ بھارت اس دورے کو اپنے زاویے سے دیکھ رہا ہے، اسے اصل تکلیف یہ ہے کہ طالبان نے بھارت کو اپنی حد میں رہنے کی وارننگ کیوں دی؟ اس تکلیف کی کوکھ سے نکلنے والا درد اس جملے سے ہے کہ ’’فکر نہ کریں، سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا کہ جنرل فیض صورت حال کا جائزہ لینے کابل گئے تھے، اور یہ بات درست ہے۔ ان سے قبل حال ہی میں امریکہ، ترکی اور قطر کے حکام بھی کابل کا دورہ کرچکے ہیں۔ جنرل فیض حمید طالبان کی دعوت پر کابل گئے تھے تاکہ پاکستان کی جانب سے کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر آپریشن دوبارہ شروع کرنے کے لیے افغانستان کو تکنیکی مدد فراہم کی جائے۔ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد جنرل فیض افغانستان کا دورہ کرنے والے اعلیٰ ترین پاکستانی عہدیدار ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو وہاں جانا تھا، مگر کابل میں حکومت کی تشکیل کے بعد ہی ان کا دورہ ممکن ہوگا۔ سفارتی آداب بھی یہی تقاضا کرتے ہیں کہ وزیر خارجہ اُس وقت جائیں جب وہاں اپنے ہم منصب سے ملاقات کرسکیں۔ فی الحال وہاں سیکورٹی کے مسائل ہیں، وزیر خارجہ تو یہ معاملات نہیں دیکھ سکتے۔ امریکہ، ترکی اور قطر کے عہدیدار بھی اسی لیے وہاں گئے، اور ان ملکوں کی سیاسی لیڈرشپ کا کوئی دورہ نہیں ہوا۔ اس دورے کے حوالے سے سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ملک ہے، اور وہاں کی صورت حال کے باعث یہاں مہاجرین کی آمد کا خدشہ ہے۔ پاکستان کو تشویش ہے کہ افغان جیلوں سے بھاگے ہوئے قیدی سرحد کھولنے سے پاکستان پہنچ سکتے ہیں۔ ان میں کون کون شامل ہوسکتے ہیں؟ یہی اہم نکتہ ہے۔ طالبان سے پاکستان یہی توقع کررہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان میں کسی تخریب کاری کے لیے استعمال نہ ہو۔ طالبان نے بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ ’’افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ بھارت نے افغانستان میں رہ کر جس طرح پاکستان کے خلاف زہر بھرا ہوا ہے اُس سے پاکستان کی قومی سلامتی کے ادارے بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ اس وقت پاکستان سے ایک مطالبہ کیا جارہا ہے کہ تجارت اور مریضوں کے لیے سرحد کھولی جائے۔ اس بارے میں پاکستان بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گا۔
اس دورے میں جنرل فیض حزبِ اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار سے بھی ملے ہیں، دیگر افغان سیاسی شخصیات سے بھی ان کی ملاقات ہوئی ہے۔ ان ملاقاتوں کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان وہاں ایک مستحکم انتظامیہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام آباد کی یہی سوچ رہی ہے کہ پُرامن اور مستحکم افغانستان پُرامن اور مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے، پاکستان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہاں امن رہے۔ اس وقت اگرچہ طالبان نظم و نسق سنبھالے ہوئے ہیں، تاہم ملا عبدالغنی برادر اخوند اور حقانی رہنماؤں کے مابین ایک بہترین ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا کابل کی صورتِ حال پر لکھتے ہوئے ہیرو بننے کی ضرورت نہیں ہے، حالات کو سمجھ داری کے ساتھ بیان کرنے میں ہی عافیت ہے۔ کابل کی صورتِ حال پر ابھی کچھ بھی لکھنا اور کہنا قبل از وقت ہوگا۔ حکمت عملی کا تقاضا یہی ہے کہ ایک مستحکم پاکستان کے لیے ہم اپنے مسائل اور عوام کی بنیادی ضروریات کی جانب توجہ دیں، اور حکومت ایسے اقدامات کرے کہ ملکی معیشت، سیاسی استحکام اور ہمارے اندرونی حالات کابل کے حالات کے باعث متاثر نہ ہوں۔
تحریک انصاف کی حکومت اگرچہ تین سال مکمل کرچکی ہے، دو سال کے بعد ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ گمان ہے کہ تحریک انصاف بہت جلد ملک میں انتخابات کا ڈول ڈال سکتی ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے لیے آمادہ ہونا اور کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کا انعقاد حکومت کے پُراعتماد ہونے کی نشانی ہے۔کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے نتائج حکومت کو انتخابی عمل کے لیے حتمی فیصلے کے قریب پہنچا دیں گے۔ وزیراعظم عمران خان کی ترقیاتی اسکیموں کے افتتاح، اور مختلف تقریبات میں تسلسل کے ساتھ شرکت، اور ان میں سیاسی تقاریر اس بات کا پتا دے رہی ہیں کہ حکومت عوام اور اپوزیشن کے ساتھ نفسیاتی کھیل بھی کھیل رہی ہے اور ساتھ ساتھ اپنا سیاسی مقام بڑھانے کی کوشش میں بھی ہے، لیکن ’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘ والا معاملہ اسے گھیر بھی سکتا ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، لاقانونیت اور گورننس میں ناکامی تحریک انصاف کا سیاسی چراغ بجھا سکتی ہے۔ حکومت کی پالیسیوں کے باعث ملک میں بے روزگاری اور غربت بڑھ گئی ہے، اور حکومت کے مقابلے میں مافیا نے طاقت پکڑ لی ہے۔ حکومت دلیل یہ دے رہی ہے کہ کووڈ کی وبا نے اقوام عالم کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے تو پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ یہ دلیل ایک حد تک درست تسلیم کی جا سکتی ہے۔ مافیا نے طاقت کیوں پکڑی؟ اس کا تو جواب دیا جائے۔ ایسا کوئی ملک ترقی نہیں کرسکتا جہاں ایک چھوٹا سا طبقہ امیر ہو اور باقی غریبوں کا سمندر ہو۔ حکومت کی پالیسیوں کا اصل ہدف غریب کو اوپر اٹھانا، اور یوں کروڑوں پاکستانیوں کو خوشحال بنانا ہے۔ نیا پاکستان بنانے کے اپنے انتخابی نعرے کے حوالے سے انہوں نے صراحت کی کہ نیا پاکستان نظام اور طرزِ فکر کی تبدیلی کا نام ہے جس کے لیے مسلسل اور طویل جدوجہد ضروری ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کام محض ایک بٹن دبا کر نہیں کیا جاسکتا، اس تبدیلی کے واقع ہونے میں وقت لگے گا۔ یہ رائے حکومتی تجربے کے بعد حقائق کے درست ادراک کا نتیجہ ہے۔
نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدرِ مملکت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے ہیں، انہیں کشمیر سمیت ملکی معیشت پر حکومت کی کارگزاری پر اپنی رائے دینی چاہیے، مگر ان کے خطاب میں ترقی ہی دکھائی جائے گی۔ ملکی معیشت کا جو حال ہے اس سے عام شہری بھی واقف ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت آغاز سے لے کر اب تک اپنی ترجیحات کا ہی تعین نہیں کرسکی۔ حکومت کے ابتدائی تین برسوں میں اُس کے معاشی حکمت کار مسلسل تبدیل ہوتے رہے اور پالیسیاں بدلتی رہیں۔ اِس وقت معیشت کی زمامِ کار چوتھے وزیر خزانہ کے ہاتھ میں ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اگر تین سال کے تجربات کے بعد بھی حکومت ایسی حکمت عملی وضع کرنے اور اسے عمل میں لانے میں کامیاب ہوجائے جس کے نتیجے میں قومی دولت چند ہاتھوں میں سمٹتے چلے جانے کے بجائے کروڑوں غریب عوام کو خوشحال بنانے، تعلیم اور زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کی ضامن ثابت ہوسکے تو یہ یقیناً گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ وزیراعظم نے متعدد بار یہ بات کہی ہے کہ وہ مافیا کی سرکوبی کردیں گے، اور وہ یہ بات بھی کرتے رہے ہیں کہ مافیا بہت طاقت ور ہے۔ اختیارات کے باوجود بھی اگر سربراہِ حکومت صرف یہ اطلاع دے کہ مافیا بہت طاقت ور ہے تو اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک مافیا کی بات ہے، ناجائز منافع خور، ذخیرہ اندوز، لوگوں کی جائدادیں ہتھیانے والا مافیا، چینی، آٹے کی قیمت بڑھانے والے، اور گروہ کی شکل میں تنظیم بناکر سرکاری اراضی اونے پونے داموں خریدنے والے تعمیراتی مافیا کو آخر حکومت کب قابو کرے گی؟ اس مافیا کی وجہ سے کم آمدنی والے شہری اپنے ذاتی گھروں کی تعمیر کے لیے ترس رہے ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں ستائے ہوئے عوام کو ایمنسٹی نہیں مل رہی، اور اس مافیا کو دی جانے والی ایمنسٹی میں دو بار توسیع مل چکی ہے۔ ٹیکس بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نئی ہاؤسنگ اسکیموں میں اوپن فائلیں فروخت کی جاتی ہیں، ان فائلوں پر کسی کا نام نہیں ہوتا، اور یہی فائل جب بیچ دی جاتی ہے تو فروخت کنندہ اپنا منافع لے لیتا ہے۔ ملک بھر میں اس کاروباری عمل کے ذریعے ٹیکس دیے بغیر اربوں روپے کمائے جارہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ اوپن فائلیں دیتے ہوئے ہاؤسنگ سوسائٹیز ٹیکس نہیں کاٹتیں۔ کاروبار کی اس شکل سے سب واقف ہیں اور حکومت کو بھی علم ہے، مگر اس نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، کیونکہ سیاست دان، بیوروکریٹ اور اس ملک کی اشرافیہ آج کل اسی طریقے سے پیسے کما رہے ہیں۔ حال ہی میں چیئرمین نیب نے بیان دیا کہ ’’گلہ کیا جاتا ہے کہ نیب کاروباری لوگوں خصوصاً ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو تنگ کررہا ہے، ہمیں پتا ہے کہ کون کیا کررہا ہے لیکن مصلحتاً خاموش ہیں‘‘۔
آئین چیف الیکشن کمشنر، چیئرمین نیب اور متعدد دیگر آئینی مناصب پرمناسب اشخاص کی تعیناتی کے لیے وزیراعظم اور قائد حزبِ اختلاف کو بامقصد مشاورت کا پابند بناتا ہے، تین سال گزر گئے بامقصد مشاورت کہیں نظر نہیں آئی۔بعض آئینی مناصب ایسے ہیں جن پر تقرر کے لیے وزیراعظم کو قائد ِ حزبِ اختلاف سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے،وزیراعظم کو یہ مشاورت بھی کچھ زیاد پسند نہیں۔ماضی میں کی گئی مشاورتوں کو پیش ِ نظر رکھیں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے۔جہاں کہیں مشاورت کی ضرورت تھی وزیراعظم نے اسے ہر ممکن طریقے سے تعطل کا شکار کیا۔چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کا معاملہ ہو یا ارکانِ کمیشن کا،یہ عمل غیر ضروری تاخیر سے مکمل ہوا، اور اس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہ تھی کہ وزیراعظم مشاورت کرنا نہیں چاہتے تھے،اور اگر کرنا چاہتے تھے تو محض خانہ پُری کے لیے۔ اب بھی پنجاب اور خیبر پختون خوا سے الیکشن کمیشن کے ارکان کے عہدے خالی ہوئے ہیں تو وزیراعظم نے شہبازشریف کو خط لکھ کر جو نام تجویز کیے ہیں قائد ِ حزب اختلاف نے ان پر صاد نہیں کیا، اور معلوم نہیں یہ خط کتابت کب تک جاری رہے، اور کب نام فائنل ہوں۔ ان حالات میں قومی مفاہمت تو بہت دور کی بات ہے، اگر چند امور پر ہی حکومت اور حزبِِ اختلاف میں اتفاقِ رائے ہوجاتا ہے تو اسے غنیمت ہی سمجھا جانا چاہیے۔ ابھی تک تو مخالف جماعتیں انتخابی اصلاحات پر بات چیت کے لیے تیار نہیں ہوئیں، قومی اسمبلی میں اس سلسلے میں جو بل پاس ہوئے اُن میں بھی حزبِ اختلاف کا کوئی کردار نہیں تھا، اور اگر یہ بل اسی طرح سینیٹ سے بھی پاس ہوجاتے ہیں تو ایک نیا تنازع کھڑا ہوسکتا ہے،کیونکہ ان منظور شدہ بلوں کی کئی شقوں پر الیکشن کمیشن اعتراض کرچکا ہے کہ وہ آئین سے متصادم ہیں۔ ان حالات میں قومی مفاہمت تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے ہی مترادف ہوگا۔ اگرچہ اس کے دروازے وزیر داخلہ نے کھلے رکھے ہیں، لیکن اِن کھلے دروازوں میں کوئی داخل بھی ہوگا یا نہیں، فی الحال کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔
ان دنوں الیکشن کمیشن میں خالی دو نشستوں کے لیے ’’مشاورت‘‘ ہورہی ہے۔ یہ مشاورت جیسی تیسی بھی ہوگی، اسی کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کی یہ دو خالی نشستیں پُر کی جائیں گی، اس کے بعد چیئرمین کی تقرری ہونی ہے، اس کے لیے مشاورت شروع ہوجائے گی۔ لیکن پارلیمنٹ کے باہر بھی سیاسی موسم بہت گرم ہونے جارہا ہے۔ پی ڈی ایم نے ملک بھر میں جلسوں کا نیا شیڈول جاری کیا ہے۔ یہ عوامی دبائو حکومت کے لیے نیک شگون ثابت نہیں ہوگا بلکہ اسے اپنے کچھ فیصلوں سے پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ مسلم لیگ(ن) حکومت پر دبائو بڑھانا چاہتی ہے تاکہ نوازشریف کی وطن واپسی کی راہ ہموار ہوجائے۔ پیپلزپارٹی پی ڈی ایم سے الگ تھلگ کھڑی ہے، وہ سندھ بچانے کے لیے اپنا دبائو بڑھائے گی۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی میں خاموش مفاہمت نظر آرہی ہے۔ توجہ ہٹانے کے لیے دونوں جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک کے ایشوز پر میڈیا وار کرتی رہیں گی۔ مسلم لیگ(ن) کو پیپلزپارٹی سے کوئی خوف نہیں ہے، البتہ چودھری نثار علی خان ضرور مسلم لیگ(ن) سے اپنی پرانی تکلیفوں کا حساب لینے کے لیے تیار ہورہے ہیں۔ چودھری نثار علی خان کو مستقبل کے لیے متحرک کیا جارہا ہے۔ جنہیں گزشتہ انتخابات میں اوپر لے جانے والی سیڑھی نہیں ملی تھی، وہ لوڈو کے کھیل کے ’’سانپ‘‘ کے ڈسنے سے زیرو پر آگئے تھے، اب وہ خم ٹھونک کر سامنے آرہے ہیں۔