اگست 2005ء کے ابتدائی دن تھے اور میں آزاد کشمیر کے ایک وفد کے ساتھ سری نگر میں ایک سیمینار میں شرکت کے لیے کشمیر کے شہرِ خاص کے سب سے بڑے ہوٹل ’’سنتور‘‘میں مقیم تھا۔ یہ ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک ”سینٹر فار پیس اینڈ ڈائیلاگ“ کے زیر اہتمام پہلا انٹرا کشمیر ڈائیلاگ تھا، جس میں منقسم ریاست کے تمام حصوں اور مذاہب کے لوگ شریک تھے۔ میرے لیے یہ سری نگر نہیں بلکہ ایک خواب نگر کا سفر تھا، کیونکہ جب جنوبی ایشیا میں آزادیوں کا سورج طلوع ہورہا تھا تو سخت گیر مسلم کانفرنسی گھرانے کے ایک پندرہ سالہ نوجوان نے جو کشمیر میں برپا پاکستان نواز طلبہ تحریک کا پُرجوش کارکن تھا، محض پاکستان دیکھنے کی تمنا میں اس شہر اور ان فضائوں کو آخری بار الوداع کہا تھا۔ پھر وہ پندرہ سالہ نوجوان لاہور، راولپنڈی اور مظفرآباد میں زندگی کی منازل طے کرتے ہوئے مہاجرت کے عالم میں اس دنیا سے کوچ کر گیا۔ وادیِ کشمیر سے جڑی یہ شارٹ اسٹوری میرے والد کی ہے۔ اس لیے یہ سفر میرے لیے خاصا جذباتی تھا۔
سیمینار کا محدود وقت اور ویزے کی قید… عزیز و اقارب سے ملنے کی تمنا اور سید علی گیلانی سے ملنے کی تڑپ… یہ سب کچھ مینج کرنا بہت مشکل ہوکر رہ گیا تھا۔ پھر وہ شام آن پہنچی جب حیدر پورہ سے ہمارے دیرینہ دوست محمد یوسف مجاہد نے اطلاع دی کہ آج شام آپ کی گیلانی صاحب سے ملاقات طے ہے۔ میں اپنے فرسٹ کزن جو محکمہ پولیس میں ڈی ایس پی تھے، کے گھر سے انہی کی گاڑی میں حیدر پورہ کی جانب یعنی سید علی گیلانی کے گھر کے راستے پر جارہا تھا تو معاً زمانہ طالب علمی کا نعرہ یاد آیا ’’سید علی گیلانی کا راستہ، ہے ہمارا راستہ‘‘۔ اس راستے میں ہر دس گز کے فاصلے پر جابجا ناکے، سیاہ رو اور وردی میں ملبوس فوجی بندوقیں تھامے ہوئے ہر راہ گیر اور گاڑی کو یوں گھورتے کہ خوف کی لہر سی بدن میں دوڑنے لگتی۔ یوں حیدرپورہ تک پہنچنے میں سیکڑوں فوجیوں اور درجنوں ناکوں کا سامنا کرنا پڑا تو انداز ہوا کہ سید علی گیلانی کا راستہ صرف انہی کا راستہ ہے۔
حیدرپورہ پہنچا تو برادرم ارشاد محمود پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ یہ وقت صرف ہم دو کے لیے مختص تھا، باقی وفد کی ملاقات دوسرے روز طے تھی۔ سید علی گیلانی صحت کی اچھی حالت میں نہیں تھے۔ گیلانی صاحب نے گلے لگایا اور ماتھے پر بوسہ دیا تو بے ساختہ کشمیر کے جلاوطن شاعر احمد شمیم کی نظم جسے نیرہ نور نے گایا ہے ’’ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوئوں کے دیس جانا ہے‘‘ یاد آگئی۔ ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ احمد شمیم تتلیوں اور جگنوئوں کے دیس کو یوں فوجی بوٹوں تلے روندا ہوا دیکھتے تو شاید جیتے جی مرجاتے۔ سری نگر کی فضا میں عجیب اُداسی تھی، کیونکہ کچھ ہی دن پہلے بھارتی فوج نے کرکٹ کھیلتے ہوئے تین نوجوانوں کو کسی وجہ کے بغیر شہید کردیا تھا، اور ماحول میں وہ کشیدگی پوری طرح موجود تھی۔ اس کے باوجود سری نگر کی یہ اداس شام اور محفل خوبصورت لگ رہی تھی، اور محفل اس قدر جم گئی کہ سید علی گیلانی کی دوائی کا وقت آگیا اور ہم نے رخصت لی۔ سید علی گیلانی کمزور تھے، وہ جنرل پرویزمشرف کی کشمیر پالیسی پر دکھی تھے مگر مجال ہے کہ اس ذاتی رنجش کے باوجود ریاست پاکستان اور عوام کے ساتھ اُن کی کمٹمنٹ کے شیشے میں ایک بال بھی محسوس کیا جاسکے۔ انہیں یقین تھا کہ ایک نہ ایک روز پاکستان اُس مقصد کی طرف لوٹ جائے گا جو اس کے قیام اور وجود کا جواز ہے۔
دوسرے روز پھر وفد کے ہمراہ گیلانی صاحب کے گھر پہنچے تو میں نے معانقہ کرتے ہوئے کہا ”آپ کی محبت آج بھی ہمیں پھر کھینچ لائی“۔ گیلانی صاحب مسکراتے ہوئے کہنے لگے ”بہت اچھا ہوا“۔ یہ وہ وقت تھا جب سید علی گیلانی کشمیر کے سب سے مقبول قائد بن کر اُبھر رہے تھے۔ اس مقبولیت کی وجہ یہ تھی کہ وہ جرات اور بے باکی کے ساتھ ایک عام زخم خوردہ اور ستم رسیدہ کشمیری کی ترجمانی کررہے تھے۔ کشمیر کے لوگ اُن کے لیے جانیں نچھاور کرنے کو تیار تھے اور اکثر نوجوان انہیں کشمیری زبان میں ’’بب‘‘ یعنی باپ کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کی وفات پر سوشل میڈیا پر جو پہلا ریلا چلا وہ یہی تھا کہ ’’بب ہو مود‘‘ یعنی باپ مرگیا۔
گیلانی صاحب سے 1993ء سے قلمی اور ٹیلی فونک روابط کا آغاز ہوا۔ میں نے اپنی پہلی کتاب ”بیلٹ سے بلٹ تک“ اور انگلستان سے ملنے والے ایک قلم کا تحفہ ان کی نذر کیا تو جواب میں پاکستان آنے والے میرے ایک عزیز کے ہاتھ انہوں نے اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ خط اور اپنی کتاب ”رودادِ قفس“ کی جلد اوّل ارسال کی۔ میرا ارادہ ان پر ایک کتاب تحریر کرنے کا تھا جس کے لیے میں نے ان سے تحریر کی فرمائش کی تھی۔ ان کی طرف سے ایک کتابت شدہ خط موصول ہوا، میں نے ضد اور فرمائش کی تو انہوں نے قلمی نسخہ ارسال کیا۔ ”رودادِ قفس“ پر ان کے دستخط کے ساتھ یہ خوبصورت نوٹ بھی تھا:
’’ایک اُبھرتے ہوئے قلم کار سید عارف بہار کی خدمت میں خلوص، محبت اور احترام کے ساتھ، نیز ان امیدوں اور تمنائوں کو قلب و ذہن میں بساتے ہوئے کہ وہ اپنے قلم کی طاقت سے جموں و کشمیر کے ایک کروڑ بیس لاکھ مظلوموں اور بھارتی سامراج کے پنجہ ٔ استبداد میں جکڑے ہوئے بے بس عوام کی حمایت کا فرض انجام دینے میں کسی مصلحت اندیشی، اور نہ ہی کسی جھکائو کا مظاہرہ کریں گے‘‘۔
اللہ کا شکر ہے کہ بتیس سال کے صحافتی سفر میں اس نصیحت کو لمحہ بھر بھی فراموش نہیں کیا۔ سری نگر کے ٹھنڈے ہال ہوں،یا دہلی میں نوبیل انعام یافتہ کیلاش ستیارتھی کی محفل، اور بھارت کی مشہور گاندھین آنجہانی نرملادیش پانڈے کی مجلس… ساوتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن کے بھارتی صحافی ہوں یا شمالی آئرلینڈ کا کوئی گوشہ… جب بھی کشمیر کی بات کی تو میزبان اور مخاطب کی پسند وناپسند کا لحاظ کیے بغیر وہ کہا اور لکھا کہ جو عام کشمیری کی سوچ تھی۔ جنرل پرویزمشرف کی کشمیر پالیسی کی مزاحمت اور مخالفت، اور سید علی گیلانی کے مؤقف کو تقویت دینے کے لیے میں نے چند دوستوں شیخ محمد امین (ایڈیٹر ”کشمیر الیوم“)، ڈاکٹر نعیم گیلانی (سید علی گیلانی کے بڑے صاحبزادے) اور مرحوم نجم الدین خان (اشرف صحرائی شہید کے بھتیجے) کے ساتھ مل کر اپنے اخبار ’’پندرہ روزہ صدائے حریت‘‘ کا 2006ء میں نئے انداز سے احیا کیا۔ اس اخبار کی پالیسی سے اسلام آباد کے مہربانوں کی جبینیں شکن آلود ہونے لگیں، وہ صدائے حریت کو بند کرنے کے طریقے پوچھنے اور سوچنے لگے۔ کشمیر میڈیا سروس کے ڈائریکٹر اور معروف دانشور شیخ تجمل الاسلام صاحب نے بہت عرصے بعد مجھے بتایا کہ ایک اعلیٰ افسر نے ان سے رابطہ کیا اور رازدارانہ انداز میں پوچھا: یہ بتائیں کہ صدائے حریت کو کیسے بند کیا جا سکتا ہے؟ شیخ صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے انہیں کہا: اس کے صرف دو طریقے ہیں، یا تو آپ ڈیکلریشن منسوخ کرائیں، یا ایڈیٹر خود اخبار بند کرے۔ اخبار گیلانی صاحب تک برابر پہنچتا تھا اور ان کے عشاق اس کی فوٹو کاپیاں کشمیر میں تقسیم کرتے تھے۔ سری نگر میں گیلانی صاحب کے دفتر سے ہمیں بتایا گیا کہ کشمیر کے کئی علاقوں سے لوگ آتے ہی پوچھتے ہیں کہ کیا صدائے حریت کا تازہ پرچہ آگیا ہے؟ یہ اس مؤقف کی قبولیت تھی جس کو سید علی گیلانی آگے بڑھا رہے تھے، اور جس کی ہم ترجمانی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ گیلانی صاحب اس کوشش کو سراہتے اور اپنی گراں قدر رائے سے نوازتے رہے۔ اسی دوران ایک ٹیلی فونک گفتگو میں مجھے غالباً اخبار کی پالیسی میں کسی جھول کی جانب اشارہ کرتے ہوئے نصیحت کی کہ
’’ہم نے اپنی زندگی کے اہداف کے لیے جدوجہد کی، اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور یہ تحریک غیروں کے ہاتھ میں نہ جائے۔ آپ کے پاس قلم ہے جس کے ذریعے آپ اس کاز کے لیے کام کرسکتے ہیں۔ شخصیات آنی جانی ہیں۔ پیغمبر بھی دنیا میں آئے اور اللہ نے ان کو اُٹھا لیا۔ شخصیات سے زیادہ کاز اہم ہوتا ہے۔ کوشش کیجیے کہ یہ کاز آنے والی نسلوں تک پہنچے اور حصولِ مقصد تک جدوجہد جاری رہے‘‘۔
اپنے اور پرائے سب اس آواز سے تنگ آنے لگے اور بعد میں ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ ہمیں خود ہی اخبار کو بند کرنا پڑگیا۔ اس طرح ایک بار پھر اندازہ ہوا کہ علی گیلانی کا راستہ کس قدر کٹھن ہے۔ ہم تو اس راہ میں ایک اخبار نہیں چلا سکے، اور جو اس راہ کا اصل راہی ہے اُس کا عزم اور ہمت کیا ہوگی!
انہی دنوں انہوں نے ایک اور خط میں ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں میرے ایک مضمون کا پرچے کا نام اور شمارہ نمبر لکھ کر تذکرہ کیا اور تحسین کی۔ اس مضمون میں حکومتِ پاکستان کی کشمیر پالیسی کا محاسبہ کیا گیا تھا۔
تحریکِ آزادیِ کشمیر کے یہی بانوے سالہ راہنما اور کشمیریوں کے بابائے حریت سید علی گیلانی بارہ سالہ نظربندی کو ٹھکراتے ہوئے بدھ یکم ستمبر کی رات زندگی کی آخری سانس لے کر ابد کی آزاد راہوں اور جنت کی آزاد فضائوں کی جانب کوچ کرگئے۔ بھارتی حکومت نے سید علی گیلانی کی وفات کی خبر پھیلتے ہی گھر کا محاصرہ کرلیا اور بھارتی فوج اور پولیس کے افسروں نے گھر میں ڈیرے ڈال دئیے۔ آئی جی کشمیر نے گھر میں داخل ہوکر میت کی جلد از جلد تدفین کی دھمکیاں دیں۔ پھر اہلِ خانہ ایک کمرے میں بند ہوگئے، مگر بھارتی فوجی اور پولیس کے سپاہی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے، اور یہ مناظر وائرل ہوکر بھارت کی جمہوریت اور سیکولرازم کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کو سید علی گیلانی کی رہائش گاہ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے جابہ جا رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور وادی میں کرفیو لگاکر انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی۔ سید علی گیلانی نے مزارِ شہدا میں تدفین کی وصیت کی تھی۔ اس وصیت کی تکمیل سے خوف زدہ بھارت نے اُن کے اہلِ خانہ پر رات کی تاریکی میں تدفین کے لیے دبائو ڈالنا شروع کیا اور یہ دھمکی دی کہ اگر ان کی ہدایت پر عمل نہ کیا گیا تو فوج جنازے کو اپنی تحویل میں لے کر کسی نامعلوم مقام پر تدفین کردے گی، جس طرح گزشتہ برسوں سے شہدا کے جنازوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بعد میں یہی ہوا، نمازِ فجر سے پہلے ہی ان کا جنازہ اہلِ خانہ سے چھین کر اُٹھایا گیا اور غسل دے کر قریب ہی ایک میدان میں دفن کردیا گیا۔
سید علی گیلانی تین عشرے سے جاری مزاحمت کے مقبول ترین لیڈر شمار کیے جاتے تھے۔ وہ ایک جرات مند، دلیر اور آہنی عزم و اعصاب کی حامل غیر معمولی شخصیت تھے۔ جس بات کو حق سچ سمجھتے اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہ کرتے۔ یوں لگتا کہ ایک نحیف ونزار جسم میں بجلیاں بھری ہوئی ہیں۔ ان کی مقبولیت کا گراف دو ہزار کی دہائی میں اُس وقت اچانک بلند ہونا شروع ہوا جب انہوں نے امریکی دبائو پر پاکستان اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والے ’’پیس پروسیس‘‘ میں پیشگی ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے بغیر شامل ہونے سے انکار کردیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ بھارت اشارتاً ہی سہی، جب تک کشمیر کو متنازع تسلیم نہیں کرتا، حالات اور زمینی حقائق میں تبدیلی ممکن نہیں۔ حریت کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ان کے قدآور ساتھیوں کی اکثریت ’’پیس پروسیس‘‘ کے نام سے اس مشق کا حصہ بن گئی، اور یوں علی گیلانی بظاہر تنہا رہ گئے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب وادیِ کشمیر میں سیاسی قیادت اور دانشور حلقوں میں جنرل پرویزمشرف کے چار نکاتی فارمولے کا چرچا تھا، اور اس فارمولے کو امید کی ایک کرن کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ سید علی گیلانی رجائیت کے اس طوفان کی لہروں کے اُلٹے رخ تیر رہے تھے۔ اسی معاملے پر جنرل پرویزمشرف کے ساتھ دہلی میں ان کی ایک ملاقات بہت ناخوش گوار انجام کو پہنچی تھی۔ سید علی گیلانی کا خیال صحیح ثابت ہوا۔ اسلام آباد، دہلی، لاہور اور امرتسر کے ہوٹلوں میں سیمیناروں اور مشترکہ محفلوں کی حد تک پیس پروسیس پورے عروج پر رہا، مگر جس سرزمین کے نام پر امن کا یہ کھیل شروع کیا گیا تھا اور جسے امن کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ اس کے حقیقی ثمرات سے محروم رہی۔ امن عمل شروع ہونے کے باوجود وادی میں بھارتی فوج کا جبر، جمائو اور دبائو کسی طور کم نہیں ہوا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پوری رفتار سے جاری رہیں اور وادی کے طول و عرض میں روز لاشے اُٹھتے رہے، جس سے نوجوان طبقے کا اس پیس پروسیس سے اعتماد اُٹھتا چلا گیا۔ سید علی گیلانی نے امن کے عالمی کارواں کا حصہ بننے کے بجائے وادی کے زخمی دل اور پُرنم آنکھوں کے حامل لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا راستہ اپنایا۔ وہ شہدا کے جنازوں میں شریک ہوکر لوگوں کا غم بانٹنے لگے اور پیس پروسیس کو ہدفِ تنقید بناتے رہے۔ وادی کے آمادئہ بغاوت نوجوان، علی گیلانی کی آواز کو اپنے دل کا ساز سمجھ کر اس کا ساتھ دینے لگے، اور یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ نوجوانوں میں ان کی مقبول بڑھتی چلی گئی۔ وادی میں نبضِ زندگی پر ان کا ہاتھ آگیا۔ ان کی اپیل پر زندگی بند بھی ہوتی رہی اور رواں بھی۔ ان کے گھر کے باہر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوکر ان کا خطاب سنتے رہے، اور ان میں ننانوے فیصد شرکاء نوجوان ہوتے۔ سید علی گیلانی کی مقبولیت درحقیقت ان کے مؤقف کی پذیرائی تھی۔ یہ وادی میں نسل در نسل منتقل ہونے والا مؤقف ہے۔ پیرانہ سالی اور عارضوں نے سید علی گیلانی کو مضمحل کرنا شروع کررکھا تھا، مگر ان کے لہجے کی گھن گرج کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جارہی تھی۔ بعد میں یہی حالات وادی میں مقبول مزاحمانہ تحریکوں کی بنیاد بنتے چلے گئے۔ بھارت نے بارہ برس قبل سید علی گیلانی کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کرکے گھر میں نظربند کردیا۔ انہیں قریبی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی تھی۔
ان کی بے پناہ عوامی مقبولیت، ڈھلتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے تناظر میں یہ سوال برسوں سے سوشل میڈیا میں موضوعِ بحث رہا کہ سید علی گیلانی کا جانشین کون ہوگا؟ انہوں نے پارٹی کی قیادت اپنے دستِ راست محمد اشرف صحرائی کے حوالے کی، جو تین ماہ قبل جموں کی ایک جیل میں شہید ہوچکے ہیں۔ سید علی گیلانی نے اعلان کیا کہ مسلسل نظربندی کی وجہ سے وہ عوام اور پارٹی کارکنوں سے رابطہ قائم نہیں کرسکتے جس کا اثر پارٹی کی کارکردگی پر بھی پڑتا ہے۔ پارٹی میں عملی شرکت کے بغیر اتنا بڑا عہدہ اپنے پاس رکھنا بددیانتی ہوگا، کیونکہ یہ محض عہدہ نہیں بلکہ ضمیر بھی ہے۔ آج میں نے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے، پارٹی کو متبادل قیادت کا بندوبست کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے جانشین اشرف صحرائی کو گلے لگا کر ان کے ماتھے پر بوسہ دیا۔
کئی برس سے سید علی گیلانی شدید علیل تھے۔ بھارتی حکومت ان کے گھر کا مسلسل محاصرہ کیے ہوئے تھی۔ ان کے گھر آنے جانے والوں پر نظر رکھی جاتی اور سخت پوچھ گچھ کی جاتی۔ بھارت نے سید علی گیلانی کو جھکانے کے لیے اُن کے کئی قریبی افراد کو قتل کرایا جن میں ان کے قریبی عزیز حسام الدین ایڈووکیٹ بھی شامل تھے، مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ زندہ گیلانی سے ہمیشہ خوف کھانے والا بھارت اُن کی لاش سے بھی خوف زدہ رہا، اور رات کی تاریکی میں کڑے فوجی پہرے میں انہیں گھر کے قریب ہی ایک قبرستان میں سپردِ خاک کرکے کشمیر کی کہانی کا آخری موڑ لکھنے کی کوشش کی۔ مگر حقیقت میں بھارت نے اس حرکت سے ایک نئی کہانی کا عنوان لکھ دیا۔ گیلانی صاحب کے بیٹوں ڈاکٹر نعیم گیلانی اور نسیم گیلانی نے اس رات کی جو دردناک کہانی بیان کی ہے اس سے کشمیریوں کے قومی وجود میں ایک اور تیر ترازو ہوکر رہ گیا، اور وہ وقت آنے پر اس کا حساب لینا نہیں بھولیں گے۔