ماحولیاتی تبدیلی، عالمی وباؤں سے زیادہ ہلاکت خیز ہے

تاریخ میں پہلی بار 220 سے زائد طبّی تحقیقی مجلوں (میڈیکل ریسرچ جرنلز) نے مشترکہ اداریہ شائع کیا ہے جس میں سیاست دانوں، پالیسی سازوں، عوام اور بالخصوص امیر ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کووِڈ 19 وبا کو بنیاد بناکر ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات میں دیر نہ کی جائے۔ اس اداریے کے مصنفین میں دنیا کے مایہ ناز طبّی ماہرین کے علاوہ عالمی ادارئہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریئسس بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی ایک بیماری کے مقابلے میں ’’عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے وابستہ خدشات کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ کووِڈ 19 کی عالمی وبا ختم ہوجائے گی لیکن ماحولیاتی بحران کی کوئی ویکسین نہیں۔‘‘ یہ اداریہ بطورِ خاص اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اجلاس، اور گلاسگو، برطانیہ میں نومبر 2021ء کے دوران منعقد ہونے والی ’’کوپ 26‘‘ عالمی ماحولیاتی کانفرنس کی مناسبت سے تحریر کیا گیا ہے۔ اس مشترکہ اداریے میں زور دیا گیا ہے کہ 2015ء میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے عالمی ’’پیرس معاہدے‘‘ پر فوری اور غیر مشروط عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اداریے میں ماہرین کا مؤقف ہے کہ ماحول اور صحت کا آپس میں براہِ راست تعلق ہے، لہٰذا بڑھتی ہوئی ماحولیاتی خرابی کا نتیجہ اس دنیا میں رہنے والے اربوں انسانوں کے لیے، جن کی اکثریت غریب اور کم تر وسائل والے ملکوں میں آباد ہے، صحت کے شدید ترین مسائل کی صورت میں نکلے گا۔ مشترکہ اداریے میں ماہرین نے خبردار کیا کہ ’’مستقبل میں عالمی عوامی صحت کو سب سے بڑا خطرہ کرئہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے اور قدرتی نظام کی بحالی کے لیے مناسب عملی اقدامات کرنے میں عالمی سربراہان کی مسلسل ناکامیوں سے ہوگا‘‘۔ اداریے کے ایک حصے میں پروفیسر ایٹوولی نے لکھا: ’’ایسٹ افریقن میڈیکل جرنل‘‘ کے ایڈیٹر انچیف پروفیسر لیوکوئے ایتوولی نے توجہ دلائی کہ غریب اور اوسط آمدن والے ملکوں نے تاریخی اعتبار سے عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں میں بہت کم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے باوجود (امیر اور صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی پھیلائی ہوئی آلودگی کے باعث) ان غریب ممالک کو بدترین اثرات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جن میں عوامی صحت سے متعلق سنگین مسائل بھی شامل ہیں۔لہٰذا امیر اور صنعتی ممالک کو ماضی میں اپنی کارگزاریوں کا ازالہ کرنے کےلیے (غریب ملکوں سے) زیادہ حصہ لینا ہوگا اور اس عمل کا ’’فوری طور پر آغاز کرتے ہوئے اسے مستقبل میں بھی جاری رکھنا ہوگا۔‘‘