ایک سوداگر کو اپنی بیوی سے بڑی محبت تھی لیکن بیوی کے باپ سے بہت ناخوش تھا، اس لیے جب وہ سفر پر جانے لگا تو بیوی سے کہہ دیا کہ میرے بعد اگر تُو اپنے باپ کے گھر گئی تو تجھ پر طلاق ہے۔ اتفاقاً اس کا باپ کچھ عرصے بعد بیمار ہوا اور مر گیا۔ بیوی سے نہ رہا گیا، چار و ناچار اسے باپ کے گھر جانا پڑا۔ سوداگر آیا تو بہت پریشان ہوا کہ بیوی مخوامخواہ ہاتھ سے گئی۔ کئی عالموں سے فتویٰ پوچھا، سب نے یہی کہاکہ طلاق واقع ہوگئی۔ شاہ عبدالعزیز کے سامنے مسئلہ پیش ہوا، آپ نے برجستہ فرمایا: باپ کے مرنے کے بعد وہ گھر باپ کا کب رہا، وہ تو خود بیٹی کا ہوگیا، اس لیے سوداگر کی بیوی باپ کے گھر نہیں گئی اپنے گھر گئی ہے، پھر طلاق کیوں کر ہوئی!