یہ 279ھ کی ایک خوشگوار صبح تھی۔ یہ اُس زمانے کا قصہ ہے جب شمالی افریقہ پر بنو اعلق کی حکمرانی تھی۔ تیونس کی اس بندرگاہ پر بے پناہ لوگوں کا ہجوم تھا۔ شاید بنی نوع انسان کا اتنا جم غفیر اس سے پیشتر اس مقام پر کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ ہر کس و ناکس اپنی محبوب اور قابلِ تکریم ہستی کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لیے چشم براہ تھا۔ یہ عظیم شخصیت قاضی ابو عمر محمد کی تھی، جن کی ہردلعزیزی، انصاف پسندی، خدا ترسی، منکسر المزاجی اور سادگی نے مملکت میں بے شمار محب پیدا کردیے تھے۔
قاضی ابوعمر بہت عرصے تک تیونس میں قاضی کے فرائض سرانجام دیتے رہے تھے اور ان کی بے خوف فرائض کی ادائیگی کے پیش نظر انہیں قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس کے عہدے پر ترقی دے کر سسلی کے جزیرے میں تعینات کیا جارہا تھا اور ان کے قدر دانوں کا سیلِ رواں انہیں الوداع کہنے کو بندرگاہ پر اکٹھا ہوا تھا۔ قاضی صاحب نے اپنے مداحوں پر ایک نگاہ ڈالی اور فرطِ عقیدت اور رحمتِ خداوندی سے ان کا سر ذاتِ باری کے حضور میں جھک گیا، جس نے انہیں اتنی عزت عطا فرمائی تھی۔ جہاز پر سوار ہونے سے پیشتر انہوں نے رخصت کرنے والوں سے مختصر سا خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں آپ لوگوں کا بے حد مشکور و ممنون ہوں کہ دور دراز کا سفر کرکے مجھے رخصت کرنے کی خاطر یہاں تشریف لائے۔ موقع کی مناسبت سے میں آپ کو اپنا گواہ بنا رہا ہوں تاکہ آپ لوگ بوقتِ ضرورت میری گواہی دے سکیں۔ اس وقت میری ہمسفر صرف چار اشیاء ہیں۔ یہ حبشن جو میرے قریب کھڑی ہے، میری لونڈی ہے۔ اس کے پاس میرا ایک کمبل اور ایک چوغہ ہے۔ اس بڑے تھیلے میں میری کتابیں ہیں جو میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں اور ہر مشکل اور کٹھن وقت میں میرے لیے مشعلِ راہ، ایک بہترین مددگار، سچی دوست اور قابل اعتماد ثابت ہوتی ہیں۔ یہی سب کچھ میری کُل متاع ہے جسے لے کر میں سسلی جارہا ہوں۔ اگر زندگی نے وفا کی تو آپ لوگ دیکھ لیں گے کہ ان شاء اللہ یہی اشیاء میرے ساتھ ہوں گی۔ اور اگر آپ سمجھیں کہ میں نے دنیاوی لالچ میں پھنس کر اور اپنے دین کو کھو کر عیش و عشرت کی زندگی کو ترجیح دی ہے اور ان اشیاء کے علاوہ اور بھی دنیاوی چیزوں کے انبار جمع کرلیے ہیں تو میرا گریبان اور آپ کا ہاتھ ہوگا۔ آپ سب لوگ میرے لیے دعا کریں کہ ذاتِ باری تعالیٰ مجھے میرے ارادوں میں استحکام بخشے اور مجھے نیک اعمال اور دین کی حدود میں رہ کر انصاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘‘۔
قاضی صاحب کا جہاز سسلی کے جزیرے پر لنگر انداز ہوا ہی تھا کہ فضا خوشی کے شادیانوں سے گونج اُٹھی۔ یہاں بھی ان کا خیر مقدم کرنے والوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہوئے تھے۔ انہیں نہایت فقیدالمثال طریقے سے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ آخر کیوں نہ ہو۔ قاضی صاحب آئو بھگت سے دل ہی دل میں بہت خجل ہورہے تھے اور لوگ تھے کہ ان کے منع کرنے کے باوجود ان پر ٹوٹے پڑرہے تھے۔ خدا خدا کرکے وہاں سے ان کی گلوخلاصی ہوئی اور انہیں رہائش گاہ پر پہنچایا گیا۔ قاضی صاحب نے ایک نگاہ اس عظیم الشان اور خوبصورت محل پر ڈالی جسے ان کی رہائش گاہ بتلایا گیا تھا تو دنگ رہ گئے۔ سخت شش و پنج میں پڑ گئے۔ بڑی بے اطمینانی سے عمارت میں داخل ہوئے اور اس کی سجاوٹ اور دیدہ زیبی کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ یکے بعد دیگرے تمام کمروں کا چکر لگایا اور کچھ کبیدہ خاطر ہوگئے۔ سب کمرے انتہائی قیمتی فرنیچر، خوبصورت قالینوں اور پردوں سے آراستہ و پیراستہ تھے۔ اس کے علاوہ وہاں ملازمین کی ایک فوج کھڑی تھی۔
یہ سب دیکھ کر نہایت ملول و آزردہ خاطر ہوئے۔ خاص طور پر جب انہیں یہ بتایا گیا کہ ان تمام ملازمین کے اخراجات کا بوجھ ان پر نہیں بلکہ سرکاری خزانے پر پڑے گا تو ان کی روح تکلیف سے تڑپ اُٹھی۔ وہ ذاتی طور پر بہت ہی سادہ مزاج اور مختصر ضرورتوں کے مالک تھے۔ ہر وقت یادِ الٰہی میں مصروف رہنے والے، اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے والے، خوف خدا سے لرزاں و ترساں رہنے والے، ہمہ وقت روزِ قیامت سے ڈرنے والے… وہ بھلا ان لوازمات سے کیونکر خوش ہوسکتے تھے! یہ سب کچھ دیکھ کر ان کی آنکھیں آبگیں ہوگئیں۔
انہوں نے اسی لمحے فیصلہ کیا کہ یہ محل جو انہیں مہیا کیا گیا ہے، ان کی ضرورتوں سے بہت زیادہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس محل میں رہائش پذیر ہونے سے انکار کردیا اور خواہش ظاہر کی کہ ان کے لیے ایک چھوٹا سا صاف ستھرا مکان تلاش کیا جائے۔ نوکروں کی فوج کو یہ کہہ کر فارغ کردیا کہ ان کے گھریلو کام بہت معمولی نوعیت کے ہیں۔ قاضی صاحب کی بے نیازی، سادہ طبیعت اور خدا پرستی کو دیکھ کر سب لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔
ان کے فرائض منصبی سنبھالتے ہی سسلی میں دھوم مچ گئی۔ ہر طرف قاضی صاحب کے عدل و انصاف کے چرچے ہونے لگے۔ جرائم پیشہ لوگ اور ان کی اعانت کرنے والے صاحبِ استعداد صاحبان کی راتوں کی نیندیں غائب ہوگئیں۔ کیونکہ وہ شخصیات اور ان کے اثررسوخ کو مدنظر رکھنے کے بجائے انصاف کے ترازو پر پورے اترنے والے فیصلے صادر فرماتے اور غبی، بدکردار اور دم پیشہ لوگوں کی طنابیں کسی جانے لگیں۔ مگر سچائی اور عدل و انصاف کے راستے پر گامزن ایمان کی روشنی سے منور دل لیے ہوئے قاضی صاحب کو بھلا کس کا خوف تھا! جو شخص خوفِ خدا کے سوا کسی اور چیز کو خاطر میں نہ لائے، وہ بھلا ان دنیاوی جھمیلوں سے کیونکر دب سکتا ہے! ان تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود انہوں نے سچ اور راستی کا دامن نہ چھوڑا۔ وہ جانتے تھے کہ خدا انصاف کرنے والوں کو بہت عزیز رکھتا ہے۔ چنانچہ ان پُرآشوب حالات میں بھی ان کے پایہ استقلال میں کوئی ڈگمگاہٹ پیدا نہ ہوئی۔ ان کا دل دنیاوی آسائشوں کے حصول کے لیے بھی بالکل نہ مچلا۔
پہلی تنخواہ لینے کا وقت آیا تو وہ سوچ میں پڑ گئے۔ جو مشاہرہ انہیں پیش کیا جارہا تھا وہ ان کی ضروریات سے کہیں زیادہ تھا۔ خاصی سوچ بچار کے بعد انہوں نے اس میں سے ایک رقم اپنے پاس رکھ کر بقایا لوٹا دی اور کہا کہ میں ایک سادگی پسند اور خدا سے ڈرنے والا شخص ہوں۔ اتنی بڑی رقم لے کر بھلا کیا کروں گا! مجھے فقط دو وقت پیٹ بھر کر روٹی میسر آجائے تو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں گا۔ یہ رقم جو میں نے اپنے پاس رکھی ہے میری روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ آئندہ بھی مجھے اسی کے مطابق ہر ماہ مشاہرہ دیا جائے۔ میں دنیاوی آرائشوں اور دلچسپیوں میں پھنس کر اپنے فرائض کی ادائیگی اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات و تعلیمات سے غافل نہیں ہونا چاہتا۔
وہ اس کے بعد بہت مدت تک سسلی میں اسی عہدے پر فائز رہ کر اپنے فرائض انجام دیتے رہے، اور پھر یکایک ان کا دل روزمرہ کے جھمیلوں، دنیاوی کاموں سے گھبرا گیا۔ لوگوں کی بے حد سفارشیں، مجرموں کی پشت پناہی کرنے والے حضرات کے سبز باغ، طرح طرح کے جھانسے، لالچ اور دھمکیاں سن سن کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ واپس تیونس کا رخ کریں۔ خاصی سوچ بچار کے بعد استعفیٰ پیش کرکے واپسی کا قصد کیا۔
تیونس کی وہی بندرگاہ تھی اور اتنا ہی جم غفیر خوش آمدید کہنے کے لیے جمع ہوگیا تھا۔ سسلی کے قاضی القضاۃ کی آمد آمد (باقی صفحہ 41پر)
تھی اور لوگ نہایت پُراشتیاق نگاہوں سے جہاز کی طرف دیکھ رہے تھے، جس سے قاضی القضاۃ کو برآمد ہونا تھا۔ ہجوم بالکل ساکن اور خاموش اپنی محترم اور قابلِ قدر شخصیت کا منتظر تھا۔ یکایک وہ جہاز کے عرشے پر نمودار ہوئے۔ مسکرا کر اپنے استقبال کے لیے آئے ہوئے عقیدت مندوں کے جذبات کا شکریہ ادا کیا اور نپے تلے قدموں سے جہاز کی سیڑھیاں اُتر کر نیچے آگئے۔ نیچے پہنچتے ہی لوگوں نے فرط عقیدت سے انہیں اپنے حصار میں لے لیا۔
انہوں نے استقبال کے لیے آنے والے عقیدت مندوں کا شکریہ ادا کیا اور ہاتھ کے اشارے سے انہیں خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا: ’’میرے عزیزو! کچھ عرصہ پیشتر جب میں یہاں سے رخصت ہوا تھا تو آپ کو گواہ بنایا تھا اور آپ نے روانگی کے وقت میری کُل کائنات اور اثاثہ ملاحظہ بھی کیا تھا، جو ایک کمبل، ایک چوغے اور کتابوں کے ایک تھیلے پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ ایک لونڈی بھی میرے ہمراہ تھی۔ آج میں جب واپس آیا ہوں تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ میری اس کائنات میں رَتی برابر بھی اضافہ نہیں ہوا۔ جو چیزیں یہاں سے لے کر گیا تھا وہی لے کر واپس آیا ہوں۔ میں نے نہ اپنی ضرورتوں سے زیادہ پہنا اور نہ ہی اپنی ضرورتوں سے زیادہ کھایا۔ میں نے آپ کو پھر گواہ بنایا ہے۔ جاتی دفعہ میں نے آپ لوگوں سے جو وعدہ کیا تھا اسے میں نے وفا کر دکھایا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، مگر خدا کا فضل شاملِ حال رہا۔ مجھے ہر لمحہ اور ہر گھڑی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی حاصل رہی، اور میں اپنے فرائض کو کامیابی سے نبھا کر آج آپ کے سامنے سرخرو ہوں۔ بخدا! اسلام کے قوانین کی روشنی میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بہت لطف آتا ہے اور اسی لطف نے میری زندگی کو جاوداں بنادیا ہے‘‘۔
(”عظمت کے مینار“…شفیق الاسلام فاروقی)
جگر سے تیر پھر وہی پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
علامہ امتِ مسلمہ کو کل کی طرح آج بھی یہ درس دے رہے ہیں کہ اپنے دلوں میں وہی ایمانی جذبے اور ایمانی حرارت و تڑپ پیدا کریں اور اپنے مقام کو پہچانتے ہوئے اپنے آپ کو ذلتوں سے نکال کر امامت و قیادت کے لیے تیار کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایمان و عمل کے جذبوں سے اپنے جگر چھلنی کریں اور سینوں میں ازسرِنو زندہ تمنائیں پیدا کریں۔